وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیریوں پر بھارتی جبر

پیر 11 مارچ 2024 کشمیریوں پر بھارتی جبر

ریاض احمدچودھری

مقبوضہ وادی میں نریندر مودی کے اس نوعیت کے ”استقبال” سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز دبانے کے لئے جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے والی بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہو جانا چاہیے کہ جبر کے ذریعے کسی پر اپنی مرضی ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ اگر کشمیری عوام اپنی قیمتی جانیں قربان کر کے گزشتہ 75 برس سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں تو کشمیر کو ہڑپ کرنے والے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو بھی وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقبوضہ وادی میں ”سب اچھا” کی اصل حقیقت نہیں چھپا سکتی۔ بھارتی تسلط سے آزادی ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ انہیں اس منزل سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس جدوجہد میں پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے کیونکہ ان کی جدوجہد درحقیقت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی جدوجہد ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے تسلیم کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے ۔بھارت نے پوری دنیا سے بغاوت کرکے اپنے آئین میں ترمیم کی پھر کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ بھارت کے آئین میں درج ہے کہ کشمیربھارت کا حصہ ہے۔ 1948 میں مجاہدین سرینگر پہنچنے والے تھے کہ بھارت بھاگ کر سلامتی کونسل گیا اور پھر یہ قرار داد منظور ہوئی پھر دباؤ ڈال کر تحریک آزادی کے بڑھتے قدم روک دئیے گئے۔ پاکستان نے قرارداد کو مانا لیکن بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا شروع کردی ۔ مسئلہ کشمیر پر موقف کی تائید اقوام متحدہ کی طرف سے ہوچکی ہے۔ پنڈت نہرو نے خود تسلیم کیا تھا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کروائے گا لیکن بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ نہتے کشمیریوں کا وحشیانہ قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں بہنوں و بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی لیکن پوری کشمیری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ وہ آزادی حاصل کرکے رہے گی۔
آج بھی کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا جا رہے۔ کوٹ بلوال اور سرینگر کی جیلوں میں کشمیریوں کو بابند سلاسل کیا کیا گیا ہے نماز پڑھنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی مگر بھارت کہتا ہے کہ کشمیر آزاد ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ، سب جھوٹ ہے۔ آج بھی مظلوم کشمیریوں پر فوج کا راج ہے مقامی حکومت نام نہاد ہے۔ کشمیر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ڈیڑھ کروڑ زندہ انسانوں کا وطن ہے، جنہیں پچھلے 75 سال سے زبردستی غلام بنا لیا گیا ہے اور جب سے اب تک ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا ہمالیہ جتنا بڑا جھوٹ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر کے حوالے سے حقائق کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر یہاں انسانی زندگیوں کو گْل کرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سری نگر کے بخشی اسٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر کے اسے ہندوستان میں ضم کر دیا گیا ہے۔ایسا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے باعث ممکن ہوا۔ جموں و کشمیر صرف ایک خطہ نہیں بلکہ یہ ملک کا تاج ہے۔مودی نے کشمیری عوام سے آنے والے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی اپیل کی اور جموں وکشمیر میں زرعی معیشت کو فروغ دینے کے لیے تقریبا 6400 کروڑ روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا کہ وہ دل جیتنے کے لیے کام کر رہے ہیںاور آپ کے دل جیتنے کی میری کوشش جاری رہے گی۔ میں آج کشمیر سے پورے ملک کو رمضان کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نئے جموں و کشمیر میں کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہے۔ادھر مودی کے جموں وکشمیرکے دورے کے خلاف جمعرات کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ وادی کشمیر میں سیکورٹی کے نام پر سخت پابندیاں نافذ کی گئیں۔قابض بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے جگہ جگہ چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔بخشی اسٹیڈیم کو بھارتی فورسز کے اسپیشل پروٹیکشن گروپ نے اپنے حصار میںلے رکھاتھا۔ سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر اضلاع میں بھارتی فوج اور پولیس کی طرف سے جاری پکڑ دھکڑ اور چھاپوں کے دوران 700سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی اور سینٹرل کشمیر یونیورسٹی نے ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں جلسے کو زبردستی کی بھیڑ قرار دیا ہے۔ جلسے کی آڑ میں کشمیری عوام، خاص کر ملازمین کو ہراساں کیا گیا۔
نریندر مودی کا کشمیر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب حکمراں بی جے پی کئی برس سے وادی میں اپنا سیاسی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور آئندہ مہینے پارلیمانی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔بہرحال ہمیں نہیں لگتا کہ کہ وزیر اعظم کے اس دورے اور ان کی تقریر کا یہاں کے سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر پڑے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ذہنی طور پر بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں۔دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ جب پارلیمانی انتخابات ہوں گے تو وادی کی تین سیٹوں پر بی جے پی کو کتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں اس سے ان کی قبولیت کی سطح کا اندازہ ہو سکے گا۔ 2019 میں فعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور دونوں حصوں کو مرکز کے زیر انتظام لے لیا گیا تھا۔ اس وقت سے یہاں انتخابات نہیں کرائے گئے ۔ بی جے پی نے جموں میں اپنا اثر ورسوخ کافی بڑھا لیا ہے لیکن کشمیروادی میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اسے اپنے قدم جمانے میں وہ کامیابی نہ مل سکی جس کی وہ توقع کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر