وجود

... loading ...

وجود
وجود

عبرت ناک جیت

منگل 27 فروری 2024 عبرت ناک جیت

میری بات/روہیل اکبر
جس اسمبلی کے پہلے اجلاس کی ابتدا ہی چور چور کے نعروں سے ہو، اس اسمبلی کے مستقبل کا فیصلہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے اب تو ویسے بھی 2024 کے انتخابات میں جیتنے والے ہارنے والوں سے زیادہ پریشان ہیں اور انہیں حکومت سازی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ 8فروری کی رات پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں قوم کے مستقبل پر ڈاکا ڈالا گیا۔ن لیگ، پی پی اور ایم کیو ایم کی “عبرت ناک جیت ” ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جہاں عوام کے ووٹ کی قدر نہ ہو وہ ملک دنیا میں تماشا بن جاتا ہے۔ ساڈی گل ہوگئی ہے اور ان کے حواریوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ابھی حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے میں بھی تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا اور آپکی طرف سے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی بازگشت شروع ہو چکی تھی جو اب شدت اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے ہمارے تمام اثاثے گروی رکھے جا چکے ہیں۔ اگر کچھ بچا ہے تو اسے نجکاری کے نام پر فروخت کرنے کی پالیسی بھی آپ لوگوں نے بنا لی ہے۔ مزید گروی رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اثاثے باقی نہیں رہے۔ ابھی آئی ایم ایف کی ایک قسط تقریباً 27 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنی ہے اور مزید آٹھ ارب ڈالر قرض لینے کی تذکرے شروع ہو چکے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آ رہا کہ یہ قرض واپس کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کیاہوگی؟ آمدنی کے وہ کون سے ذرائع ہیں کہ جس سے پاکستان سے یہ بوجھ کم کیا جا سکے گا؟ یہاں تو مزید بوجھ بڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں کیا عوام نے ان جماعتوں کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ پاکستان کو مسائل اور مصائب کی دلدل سے نکالنے کے بجائے اسے مزید مشکلات میں دھکیل دیں ہمارے سیاستدانوں نے روایتی طرز عمل پر اسی طرح قرض لیا اور اس سے نہ صرف اپنی عیاشی کے سامان پیدا کیے بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کرپشن کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے بنائے اورپھر آخر میں قرض کی ادائیگی کا بوجھ پاکستان کی عوام پر ڈال کے حکومت کرنے والے افراد کنارہ کشی اختیار کر جاتے ہیں ۔ عوام پہلے ہی بجلی گیس کے بلوں اور اشیاء ضرورت کی مہنگائی کی چکی میں پسے جا رہے ہیں اور آئندہ لیا جانے والا قرض آئی ایم ایف نے پہلے سے زیادہ کڑی شرائط پر دینا ہے۔
الیکشن سے پہلے ہمیں روایتی سیاسی وعدوں اور دعووں کے سبز پاغ دکھائے گئے 200یونٹ اور 300 یونٹ مفت بجلی کا لالی پاپ دیا گیا۔ ہمیں اس بات کو ذہن میںرکھنا چاہیے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آئی ایم ایف کڑی شرائط پر قرضہ دیگا جو عوام پر مہنگائی بم بن کر گرے گا۔ اب تو عوام کی رگوں میں وہ خون بھی باقی ہی نہیں بچا جسے ہمارے حکمران چوس سکیں تو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق ملک میں غریب انسان اپنے نہیں تو اپنے بچوں کے زندہ رہنے کے لیے کیا طوفان لا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں ابھی سے کر لینا چاہیے اور بنا کسی سیاسی وابستگی کے صرف ایک پاکستانی بن کر سوچیں کہ عوام کی بقا اور ملکی استحکام کے لیں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ آنے والے طوفان کی زد میں سب نے آنا ہے کسی کو بھی سیاسی وابستگی کی بنا پر کوئی استثنا نہیں ملے گا،سوائے انکے جنکا سب کچھ باہر ہے۔ وہ بڑے آرام سے پاکستان کو چھوڑ جائیں گے۔ اس پر ہمیں سب کو ذرا نہیں بلکہ پورا سوچنا چاہیے کہ نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل لے کرکے 50روپے کے اسٹیمپ پیپر پر علاج کروانے کے بہانے ملک سے گیا تھااور پھر باہر سے ایک سازش اور ڈیل کے ذریعے بھائی کووزیراعظم بنوایا، پھر نیب قوانین میں ترمیم کروائی پھر ڈیل کرکے مقدمات ختم کروائے ،پھر ڈیل کرکے ملک واپس آنے کی راہ ہموار کی، پھر ڈیل کے تابع ائیر پورٹ پر بائیو میٹرک ہوا، پھر ڈیل کے تحت یکلخت سارے مقدمات خارج ہوئے ، پھر ڈیل کے تحت الیکشن لڑنے کی اجازت ملی، پھر ڈیل کے تحت پی ٹی آئی کو ختم کرکے انتخابی نشان تک چھین لیا گیااور مخالف کو کمپین تک نہ کرنے دی گئی، پھر ہر طرح کی سپورٹ کے باجود جب الیکشن میں صرف سترہ سیٹیں ملی تو اس کے بعد امیدواروں کے رزلٹ روک لیے گئے اور پھر اپنی مرضی کے جعلی رزلٹ تیار کروائے گئے۔ حالانکہ آٹھ فروری کوہونے والے انتخابات سے قوم کوامیدتھی کہ اس کے بعدملک میں استحکام آئے گا اورنئی حکومت ایک واضح مینڈیٹ سے ملک کوبحرانوں سے نکالنے میں کرداراداکرے گی لیکن وہی ہوا جسکا ڈر تھا۔ الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر ملک کی خدمت کرتے ، سیاسی پارٹیاں اقتدارکے لیے غیر جمہوری قوتوں سے تعاون لینا بند کرتی مگراقتدارکی دوڑمیں اپنے عہدکاپاس نہیں کیاگیا۔ دنیا کے ہر ملک میں الیکشنز قومی وحدت اور استحکام کا باعث بنتے ہیں لیکن پاکستان میں ہرانتخاب کے بعد مزید تباہی و بربادی کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بھی سیاسی جماعتیں کرسی کے لیے دست وگریبان ہیں ایٹمی ملک کی صلاحیت کے حامل ملک کی سیاسی جماعتوں کارویہ بچگانہ اورغیرجمہوری ہے۔ یہ کیسے الیکشن ہوئے ہیں کہ جس کے بعدجیتنے اور ہارنے والے دونوں دھاندلی کی شکایات اوراحتجاج کررہے ہیں۔ کسی کی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور اوپر سے چیف کمشنرراولپنڈی کی پریس کانفرنس نے ملک کی چولیں ہلاکررکھ دی ہیں ۔لیاقت چٹھہ کے الزاما ت کوآسانی سے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ اتنے اہم عہدے پرفائزشخص کے الزامات کی تحقیقات کسی غیر ملکی ایجنسی سے کروائی جائیں۔ ملکی اداروں نے تو اپنی ساکھ خود ہی تباہ کرلی ہے ۔بالخصوص الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت عوام کے ووٹ کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ملک اب مزید کسی آئینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔عوامی مینڈیٹ پر ڈاکاڈالنے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے والوں کوفوری طورپر قانون کے کٹہرے میں لاکرآئین پاکستان کو اصل حالت میں نافذ العمل بنانا پوری قوم اورعدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت جمہوری استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے۔ ملک کے باشعور عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ تمام ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ یہ ملک آگے چل سکے،عوام کو ان کا حق دینے سے ہی ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا، ملک کے 25کروڑ عوام اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی امید رکھتے ہے، اس وقت پاکستان کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی بحران جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر