وجود

... loading ...

وجود
وجود

فلسطین پر یہودی قبضہ میں امریکہ و برطانیہ کی معاونت

جمعه 12 جنوری 2024 فلسطین پر یہودی قبضہ میں امریکہ و برطانیہ کی معاونت

ریاض احمدچودھری

خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں فلسطین میں چند یہودی خاندان آباد تھے۔ اس کے برعکس آج وہ پورے فلسطین پر غالب ہیں۔ فلسطین پر قبضہ کے پس منظر میں ان کے مذہبی تعصب کی قوت کا اثر ہے۔ یہودیوں نے اہل مغرب کی اسلام دشمنی میں نمایاں رول ادا کیا اور انہیں اس امر کا یقین دلایا کہ ”خدا کی منتخب و پسندیدہ قوم یہود کی ارض موعود(فلسطین)میں واپسی اور اس کا استقرار حضرت مسیح کی واپسی کا ضامن ہے”اس دینی میلان نے امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کو تل ابیب یونیورسٹی میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ”میں بحیثیت ایک عیسائی مومن یہ ایما ن رکھتا ہوں کہ اسرائیلی حکومت کا قیام یقینا ایک الہیٰ وعدہ ہے” اس مذہبی نظریہ کی بنیا د پر یورپ اور روس سے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ برطانیہ نے ان کو قانونی تحفظ دیا اور قومی ریاست اسرائیل قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی لئے صلیبی حکم ران ایک دوسرے سے بڑھ کر اسرائیل کی عسکری حمایت کرتے ہیں کیونکہ مسیحی صیہونیت کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ ”جب یہودی یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تیسری بار تعمیر میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس کے بعد ہی نجات دہندہ مسیحا کا ظہور ہوگا”موجودہ دور کے صلیبی حکمران اس مذہبی نظریہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حماس کو چیلنج کر رہے ہیں کہ غزہ کا علاقہ چھوڑ کر چلے جاؤ۔
مسلم حکمران طبقہ مجبور و بے بس ہے کہ وہ غزہ میں محصور بھائیوں کی عسکری حمایت نہیں کر سکتا۔ امت مسلمہ، خلافت عثمانیہ کے پرچم تلے متحدتھی تو اس نے یورپ میں داخل ہو کر اللہ اکبر کی صدا بلندکی، وسطی علاقہ میں جا کر اسلام کا پرچم بلند کیا تو یہودو نصاریٰ کی ملی بھگت نے خلافت عثمانیہ کو سبوتاژ کر دیا۔ یورپی اقوام نے مسلم ریاستوں پر قبضہ جما لیا۔ جب انہیں مغربی نظام میں ڈھال دیا تو ان کو ظاہری طورپر آزاد کر دیا مگر ان کو اقوام متحدہ کے پنجرہ میں مقیدکر دیا۔ کسی علاقہ میں مسلم ظلم کی چکی میں پس رہے ہوں تو مسلم حکمران ان کی عسکری حمایت نہیں کر سکتے۔ مداخلت کرنے پر اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردوں میں شامل ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان عابد بھی تھے اور مجاہد بھی۔ جب کسی اسلامی سرحد پر باقاعدہ فوج کو مزید کمک کی ضرورت پڑتی تو عام مسلمان بھی فوج کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک ہوتے تھے لیکن عصر حاضر میں ایک طرف اکثر و بیشتر مسلمان حکمران دینی و ملی غیرت سے محروم ہو چکے جبکہ غیر مسلم عوام کو لہو و لعب میں مبتلا کر دیا۔ انہیں کر کٹکا دیوانہ بنا دیا گیا یا موبائل کا۔ کائنات کا حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ ا س کے حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ اللہ نے چاہا تو دریائے نیل نے موسیٰ کے لشکر کو سلامتی کا راستہ دے دیا، جب اس نے حکم دیا تو اسی دریا نیل نے فرعون کے لشکر کو غرق کردیا جبکہ آج کے مسلمان حکمران اللہ تعالیٰکی اس حاکمیت سے بے بہرہ امریکہ سے خوفزدہ ہیں۔ روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو اکثر مسلم حکمرانوں نے امریکہ کے حکم پر مجاہدین کو افغانستان بھیجا۔ آج حماس دفاع اسلام کیلئے جہاد کر رہے ہیں، اسرائیلی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے عورتوں ، بچوں سمیت ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ یہ درندگی اور بیہیمت امریکہ کی پشت پناہی کے باعث جاری ہے۔ کسی مسلم حکمران کی جرات نہیں کہ وہ امریکہ کی ناراضگی مول لے کر حماس کی عملی طورپر عسکری مدد کرے۔
طاغوتی قوتوں نے ترکوں کے خلاف عربوں میں قوم پرستی کے جرثومہ کو تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف جہاد میڈیا میں عرب اسرائیل جنگ کے نام سے معروف ہے جبکہ حالیہ جنگ کو غزہ اسرائیل کشمکش کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کے دینی راہنما مسلم امہ کو صیہونی منصوبہ سے آگاہ کریں۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں ان کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے جن میں سے 35 لاکھ اسرائیل میں آباد ہیں۔ صیہونی باقی یہودیوں کو وہاں آباد کرنے کی غرض سے گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے کوشاں ہیں جس کی سرحد دریائے فرات سے لے کر نیل تک ہے جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ مسجد اقصیٰ، قبتہ الصخرہ کو گرا کر تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا بھی ان کا ہدف ہے۔ لہٰذا مسلمان عالم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اپنے اندر اعلانیہ طورپر پیدا ہونے والی برائیوں کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دین اسلام پر عمل پیرا ہو جائیں اور متحدہو کر ملت کفر کے خلاف جہاد کا عزم کرلیںتو ذلت و ہزیمت کی جس حالت سے دوچار ہیں ، وہ بدل جائے گی۔ یہودی گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے عسکری محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔ طاغوتی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔ چنانچہ ملت اسلامیہ کے مخلص راہ نماؤ کا فرض منصبی ہے کہ وہ او آئی سی کے ملکوں اور ان کے حکمرانوں کو ذمہ داریوں کا احساس دلائیں کہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ مذمتی قرارداد پاس کرنے سے ممکن نہیں بلکہ جہاد ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا حکم ہے،
”اور تم ممکن حد تک دشمنوں سے مقابلہ آرائی کی قوت اکٹھی کرو اور جنگی گھوڑے تیار کرو جن سے اللہ اور اپنے دشمنوں کو ڈراؤ”(الانفال، 60:8)
تاریخ کے اس نازک موڑ پر او آئی سی کے ممالک متحد ہو کر طاغوتی قوتوں کی ڈکٹیشن قبول کرنا ترک کردیں اور اقصیٰ کی پکار الجہاد، الجہاد کا نعرہ لگا کر حماس کے شانہ بشانہ مجاہدانہ کردار ادا کریں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوگی۔
”اگرتم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو ا للہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جما دے گا”
خدانخواستہ دست و بازو نہیں بن سکتے تو کم از کم اسرائیل اور اس کے پشت پناہ ممالک سے معاشی لین دین کا بائیکاٹ کریں، یہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر