وجود

... loading ...

وجود
وجود

عرضی!!!

پیر 02 اکتوبر 2023 عرضی!!!

ماجرا/محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔
ظل سبحانی، آیت ِ دولت جاودانی، عدل وانصاف اور حکمرانی کے مصدرِ اعلیٰ ! حضرت شہنشاہِ عالی جاہ وعالم پناہ !
محترم المقام نوازشریف صاحب !
میں آپ کے دسترخوانی قبیلے کا ایک اعلیٰ بھوکا صحافی ہوں۔ میں نے ہمیشہ آپ کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چچوڑا ہے۔ اُگلے ہوئے نوالوں کو نگلا ہے۔ پڑے ہوئے دانوں کو چنا ہے۔ برسوں سے ہڈیاں چچوڑتے ہوئے آنجناب نے مجھے جس خدمت کے لیے چُنا ہے، میں اُسے بصد عز وادب بجالاتا ہوں۔
میری صلاحیت پر آپ کو کبھی کوئی شبہ نہیں رہا۔ ”اُس بازار کی ”حاملہ کی دلدلی پیٹ میںگڑگڑ کی طرح میرا قلم آواز کرتا ہے، میری زبان ہمہ وقت حرکت میں رہتی ہے۔ آپ کو یہ پسند ہے مجھے بھی۔ آپ تالی بجاتے ہیں میں نحوست کو رقص میں لاتا ہوں۔ جب آپ اندھیروں کو ترقی کہتے ہیں تو میں اسے تقدیس کا ورق پہنانے کے لیے آسمان کے تاروں کو تاریکیوں کی تصویریں باور کراتاہوں۔ سورج سے کالک کاشت کرواتا ہوں۔ پھر اے میرے1999 کے ایک ترمیمی امیر المومنین! میں اسے آسمانی صحیفوں کی صدا بنا دیتا ہوں۔
آپ کی للکار مخنثوں کو بھی ہنساتی تھی مگر میں نے مردوں کے لیے بھی اُسے ہیبت کی آواز بنائے رکھا۔ آپ کے نیزے ستر سالہ بوڑھیوں کے دانتوں میں خلال کے بھی کام نہ آسکتے تھے، میں نے اُنہیں ایٹم بم کی طرح خطرناک ثابت کیے رکھا۔ میں نے لسّی پیتے ہوئے آپ کی ڈکار کو ابن خلدون کا مقدمہ بنا دیا۔ آپ کے دربار میں حاضری، غزالی کی کیمیائے سعادت سے بڑھ کر بیان کی۔ آپ کے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق خیالات کی تشریح ، ابن رشد کی اُن کتابوں سے بڑھ کر فضیلت ماب ہے جو وہ ارسطو کی مابعدالطبیعات کی تشریح میں لکھتے رہے۔ آ پ کی ہر حال میں حمایت کی منطق امام ابن تیمیہ کی ”الجمع بین العقل والنقل” سے زیادہ مشرف ہے۔ آپ کا ہر عیب ہماری وظیفہ خواری میں ہنر بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ آپ کی محدود لغت اور غیر رواں گفتگو کو میں نے رواں سیاست کا نقارہ بنایا۔ آپ کی مستعار خدمات پرپرچی کی عادت کو میں نے تدبر کی علامت کہا۔ آپ کی محدود یادداشت میں بدلتے رنگ برنگے کرداروں کوکبھی میں نے گرگٹ کا رنگ نہیں بننے دیا۔ آپ کے اُلٹی سیدھی قلابازیوں پر کبھی کسی کو یوٹرن کی پھبتی نہیں کسنے دی۔
معلوم نہیںلند ن کی پرکیف فضاؤں میں آپ کو یاد بھی رہا ہوگاکہ نہیں۔ میں بھی اُن ہی میں سے ہوں جس نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے بطور وزیراعلیٰ پنجاب آپ کی لڑائی کو ملک کی اعلیٰ ترین خدمت لکھا۔ اتفاق کے جہازوں کی بندرگاہوں پر روک کو ملک کی بندش سے ٹوکا۔ اس کے اشتہارات کی کمائی کھائی ۔وزیر اعلیٰ پنجاب سے وزیر اعظم پاکستان بننے تک میں نے آپ کے ہر اقدام کا دفاع کیا۔ میں نے آپ کے پروپیگنڈہ سیل کی مہیا کردہ ایک غیر ملکی صدر کے ساتھ رقصاں نصرت بھٹو کی تصویر چھاپی، بے نظیر بھٹو کی کردار کشی پر مبنی پمفلٹ کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بارش کا دفاع کیا۔آپ کو ہر کردار میں محسن قوم کے طور پر اجا گر کیا۔ آپ نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا، میں نے سیکورٹی رسک لکھا۔ اسمبلی میںبے نظیر بھٹو پر گلی کے لقندروں کی طرح قہقہے اچھالنے اور فقرے کسنے کو قومی خدمت سمجھا۔ تب شیخ رشید آپ کو بھاتا تھا، میں بھی اس کے بلائیں اُتار نے لگا، پھر آپ نے اسے تھوک دیا میں نے بھی کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا۔مشرف کے خلاف جب اکٹھ کی ضرورت پڑی اور آپ نے میثاق جمہوریت کا ڈول ڈالاتو میں نے بھی اسے قومی تاریخ کا سیاسی تحفہ بنادیا۔ پیپلزپارٹی اچانک محب وطن جماعت بن گئی۔ میںبھی اس پر ایمان لے آیا اور اس کے خلاف نفرت کے بھڑکتے الاؤوقتی طور پر ٹھنڈے کر دیے ۔ پھر زرداری یک بیک ایک بیماری ہوا، اُنہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے ہوئے۔تو میں بھی اُن سڑکوں کی تلاش میں نکلا جہاں یہ مقدس فریضہ ادا کیاجانا تھا۔ پھر جس جنرل نے آپ کو نکالا ، اُسی جنرل سے اقتدار میں داخلے کا راستہ ملا تو وہ جنرل اور اس کے ذریعے نیا ملنے والا بھان متی کا کنبہ(پی ڈی ایم) میںنے بھی ناگزیر قرار دیا۔ طوفانوں کو نچوڑتے اور گردابوں کو بھنبھوڑتے قلم سے آپ کی خاموش قلابازیوں کی تحسین کی۔
جناب والا!
یہی نہیں! جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں جھولتے ہوئے جب آپ نے ہاتھ پاؤں نکالے تو میں بھی عسکری اشرافیہ کا قصیدہ خوان رہا۔ جنرل ضیاء نے اپنی عمر آپ کو دینے کی دعادی تو میں نے بھی جنرل ضیاء کی بلائیں لیں۔ تب پیپلے جنرل کو اپنے ”قائد عوام” کا قاتل کہتے تو میں بھی آپ کے ساتھ اُن پر گرجتا برستا۔ جب آپ مرزا اسلم بیگ سے خفا ہوئے تو مجھے بھی کچھ کچھ جنرل بُرے لگنے لگے۔ جب صدرغلام اسحق خان کو آپ نے کہا ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا”۔ تو میں نے بھی اس فقرے میں آپ کے اندر سے” شی گویرا” نکالااور اس فقرے کو پاکستان کی سیاست میںانقلاب کی تمہید کے طور پر باندھا۔ پھر آپ گھوم پھر کی اقتدار کی اُن ہی راہداریوں سے دوبارہ وزیراعظم ہاؤس براجمان ہوئے اور ڈکٹیشن نہ لینے سے کہیں زیادہ کمتر ”ٹائپسٹ ”کی نوکری پکڑ لی تو میں نے اِسے سیاسی فہم وفراست کا رس بھرا عنوان دیا۔ جنرل آصف نواز سے لے کر جنرل مشرف تک ہر جنرل سے آپ کی کٹاچھنی کو میں نے ”انقلابی” تعبیرات کی رنگارنگ تفصیلات میں پرویا۔ آپ ہر جھگڑے کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل ہوئے تو میں نے اس بے دخلی کو بارعب بنائے رکھا۔ پھر اُن ہی طاقتوروں کی مٹھی چاپی اور قدم بوسی سے اقتدار کی راہداریوں میں پہنچے تو اسے بھی باوقارتدابیر کا زرق برق ورق پہنائے رکھا۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے جنرل راحیل سے آپ ناراض ہوئے تو میں بھی کانا پھوسی میں مصروف ہو گیا۔ جنرل باجوہ سے آپ ناراض ہوئے تو میں انقلاب کی رتھ پر سوار ہو کر اُن سے سوال کرنے لگا۔ یہاں تک کہ آپ نے خاموشی سے معاملات سنوارے تو میں بھی سج سنور کر اس قلابازی کی مشق کرنے لگا۔ اس تدبیر کی کاریگری میں اقتدار چھوٹے بھائی کی گود میں گراتو میں بھی ملک میںعظیم تبدیلی کے بہر عنوانات کی ڈگڈگی بجانے میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران میں آپ اُن تمام کے ساتھی بن گئے جن سے اپنے کیرئیر میں ہمیشہ لڑتے رہے۔میںبھی کسبی کی حیا بن کر اُن کا ہم نشین ہو گیا۔
حضور والا!!
میں آپ کے اصطبل میں بندھا گھوڑا ہوں۔ کسی گمشدہ میدان کی مشاق اور طرار سواری۔ آپ میرے اور مجھ جیسے ہزاروں گھوڑوں کے بیک وقت سوار ہیں۔ میرا کام بھی اُن ہزاروں گھوڑوں کی طرح آپ کی ناز برداری ہے۔ جناب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں ایک صحافی ہوں۔ میں سطح شور پہ ڈھم ڈھم بجتی آپ کی ڈھول ہوں جو میرے جیسے دوسرے نمک خواروں سے مل کر ایک ایسا نقارخانہ تخلیق کرتے ہیں جس میں آپ کے خلاف کسی حق سچ کو ہم طوطی کی آواز بنا دیتے ہیں، جسے سنتا کون ہے۔ بس ایک شور ہے، ڈھول ہے اور جس میںصرف میاں دے نعرے وجدے ہیں۔
ظل سبحانی نوازشریف صاحب
یہ ٹھیک ہے کہ میرے لفظ برائے فروخت ہیں، میرا کام درمیانوںمیں درمیان داری سے بھی گیا گزرا ہے۔ میں ازل کی لعنت بن کر ابد تک پھیلا دیا گیا ہوں۔ میرا وجود تہمت بن کر میرے ہی گردن میںطوق کے طور پر پڑا ہے۔ میرا مقام ، میری ہی نظروں میں نیچ سے بھی گیاگزرا ہے۔ مگر آپ کو بھی اپنے بغلچیوں، ڈھنڈورچیوں ، طبلچیوںکی یہی اسناد تو درکار ہیں۔ میری حالیہ کارکردگی بھی آپ کے علم میںہوگی، آپ جب علاج کے بہانے سارے نظام کو چکر دیتے ہوئے یہاں سے رفو چکر ہوئے تو میں نے بھی اس کی تائید میں چکرادینے والے عذر تراشے تھے۔ تب آپ کے جانے اور اب آپ کے آنے کو میں پاکستان کے اندر پاکستان سے بڑھ کر ثابت کردوں گا۔ میں اب بھی مکمل برائے فروخت ہوں ، میں اپنے لفظوں سے آپ کی بلائیں اُتاروں گا۔ آپ کی آمد شریف کو ایران میں خمینی کی آمد بنا ڈالوں گا۔ آپ کے استقبال کے لیے نہ دکھائی دینے والوں کو لوگوں کی نظروں میں انڈیل دوں گا۔
حضور والا!
آپ سے مگر مودبانہ گزارش ہے کہ ہمیں یہ تو بتا دیں کہ جنرل باجوہ کو اب کیاسمجھنا ہے؟ ووٹ کو عزت دینے والے نعرے کا کیا کرنا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق کو قوم کی ضرورت باور کرانا ہے یا ملکی ترقی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو حدود آشنا کرنے کا بھاشن شریف دینا ہے۔ اور ہاں سب سے بڑھ کر شہبازشریف کی سولہ ماہ کی حکومت کو کہاں پٹخنا ہے ؟ رہنمائی دیتے ہوئے یہ دھیان رکھیے گا کہ ان دنوں پاکستان میں گالیاں بہت پڑتی ہیں۔
محترم نوازشریف صاحب!
ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ہمارے محنتانے میں کچھ اضافہ فرما دیں، آپ کی وظیفہ خواری میں اب خجل خواری زیادہ ہے۔ عزت بھی کوئی نہیں رہی، گالیاںزیادہ پڑتی ہیںپھر” چھوٹے ”کی سولہ ماہ کی حکومت نے مہنگائی کا جو طوفان برپا کیا ، اس میں موجودہ وظیفہ کافی نہیں۔ حضور نیا موقف اختیار کرتے ہوئے یہ بھی مدنظر رکھیں کہ نازبرداری اور بار برداری میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ اپنے اصطبل کے گھوڑوں کو گدھے تو نہ سمجھیں۔ پاکستان اب ویسا نہیں رہا جیسا آپ چھوڑ گئے تھے۔ اپنی تازہ خیر خبر سے آگاہ رکھیں۔
فقط
آپ کے بے شرم قلم قبیلے اور زباں دراز فتنہ طراز جتھے کامنگتا رکن


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر