وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاہور میں قائد اعظم کا بنگلہ

هفته 13 مئی 2023 لاہور میں قائد اعظم کا بنگلہ

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر جماعت کے کارکنان نے پورے ملک میں مظاہرے کئے۔کئی جگہوں پر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ لاہور میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لیے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا۔ اس کی اہمیت یہ تھی کہ یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا گھر تھا۔
یہ عمارت پاکستان میں قائداعظم کی جائیدادوں میں سے ایک ہے۔ قائد اعظم نے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے خریدے تھے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش گاہوں کی ضرورت ہو گی۔ لہذا انہوں نے اپنی ذاتی رہائش گاہ کے لئے لالہ مہن لال سے 1,62,500 روپے میں جولائی 1943 ء میں خریدا ، ابھی تک موجود ہے۔ ڈیگنل روڈ ( موجودہ عزیز بھٹی روڈ ) پرموجود یہ بنگلہ نمبر53، 4.68 ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔
محمد علی جناح نے ابھی بنگلہ کا جائزہ بھی نہیں لیا تھا کہ جنوری 1944ء میں حکومت پنجاب نے اس پر ڈیفینس آف انڈیا رولز کی دفعہ 575 کے تحت قبضہ کرلیا۔ اب کاغذی طور پر تو وہ اس بنگلہ کے مالک تھے اور صرف مقرر کردہ کرایہ حاصل کر سکتے تھے مگر آپ وہ مقصد حاصل نہ کرسکے جس مقصد کی خاطر بنگلہ خریدا گیا تھا بلکہ اس خریداری کے بعد آپ سیاسی کاموں کے علاوہ ایک نئی الجھن میں پڑ گئے۔جدوجہد اور قانونی چارہ جوئی کے باوجود بنگلہ واگزار نہ ہو سکا۔ اپریل 1947ء میں ہونے والی خط وکتابت میں فوجی حکام نے یہ تاثر دیا کہ چھاؤنی کے علاقے میں کوئی غیر فوجی رہائش اختیار نہیں کر سکتا۔وہ جائیداد بنا اور خرید سکتا ہے اور فوجی ضرورتوں کے لئے فوج کو کرایہ پر دے سکتا ہے مگر اسے ایسے حساس علاقے میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس مسئلہ پر 13 اپریل تا یکم مئی 1947 چھ خطوط کا تبادلہ ہوا۔یہ خطوط شامل نہیں کیے گئے کیونکہ انگریز اور ہندو فوجی افسران لاہور والا بنگلہ واگزار کرنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہے تھے۔وہ ہر طرح سے آپ کے لئے مشکلات پیدا کرنے اور ذہنی پریشانی میں مبتلا رکھنے میں مصروف رہتے تھے تاکہ آپ تبدیل شدہ سیاسی حالات پر پوری توجہ نہ دے سکیں۔ کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ اس آدمی کو عدم متوجہ کرنا ، پوری قوم کی اس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے برابر ہے۔
مضبوط اعصاب کے مالک محمد علی جناح کی زندگی ہی نے وفا نہ کی ، جائیداد کیا وفا کرتی۔ پہلی بار 4 جولائی 1947 ء کو یہ خبر سننے کو ملی کہ یکم اگست 1947 کو بنگلہ ڈی ہائیر کرنے کے بعد واگزار کر دیا جائے گا اور آپ کے قبضے میں 31 اگست کو دے دیا جائے گا۔ عمل درآمد پھر بھی نہیں ہوتا اور بنگلہ کے اصل مالک دیکھتے ہی دیکھتے سب کام ادھورے چھوڑ کر اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد بھی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے بنگلہ واپس لینے کی پوری کوشش کی۔مگر بنگلہ نمبر 157 جس کا سروے نمبر 53 ہے ، قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ جسے قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی وصیت کے مطابق بعد از فروخت حاصل کردہ رقم ، تعلیمی اداروں ، کو ادا کر دی جائے ، کے خواب کی تعبیر بننا تھا۔ آخر کار گفت و شنید سے مسئلہ حل ہوا اور حکومت پاکستان نے بنگلہ خود خرید کر افواج پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ جائیدادمحمد علی جناح کو صرف کرایہ ادا کرتی رہی۔آپ نے اس بنگلہ میں قدم بھی رکھ کر نہیں دیکھا۔اپنی زندگی میں محمد علی جناح نے بنگلہ واگزار کروانے کے لئے جو کچھ کیا ۔اس کے حوالہ جات کے لئے ماہنامہ ماہ نو جولائی 1997 صفحہ نمبر 229 ، صرف مسٹر جناح تالیف سید شمس الحسن ترجمہ صفحہ نمبر 133 تا 140 ، قائد اعظم پیپرز فائل نمبر 1127 ، 575 اور Stacey international London کی کتاب Pakistan past and present کا مطالعہ ضروری ہے۔
محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں قائد اعظم محمد علی جناح ، محترمہ فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے لاہور کے پوش علاقہ گلبرگ کی مرکزی سڑک پر 29 کنال زمین ٹرسٹ کے نام وقف کی گئی تھی۔ یہ قیمتی زمین 1943سے انہی کے نام چلی آرہی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب یہاں شاپنگ مال اور پلازہ تیار ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ ڑھائی ایکڑ پر محیط جناح منزل کراچی انہوں نے 1943 میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے میں خریدی تھی۔ جو اب عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں قائد اعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔لاہور میں ہی قائداعظم نے 1945 میں نواب افتخار ممدوٹ سے اچھرہ میں 324 کنال اراضی خریدی تھی۔ اس راضی پر آج کل گلبرگ ٹو اور تھری ہے۔اس کے علاوہ ان کے پاس لبرٹی مارکیٹ میں ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ، انڈسٹریل ایریا میں 10 کنال کا پلاٹ تھا۔ کراچی میں بھی قائداعظم نے ملیر میں 12 ایکٹر کا باغ نواب آف بہاولپور سے خریدا تھا۔ اگر فلیگ سٹاف ہاؤس کی طرف سے اس بنگلہ میں بھی کوئی محمد علی جناح ریسرچ سینٹربن جائے ، گو یہ سینٹر صرف افواج پاکستان کے لئے ہی مخصوص کردہ کیوں نہ ہو۔ قائد اعظم پیپرز کی مکمل فائلز کی نقل وہاں بڑی آسانی سے منتقل کی جا سکتی ہے جو ایک تحفہ ہونے کے علاؤہ قائد اعظم محمد علی جناحکے لئے افواج پاکستان کی طرف سے ایک خراجِ عقیدت ہو گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر