وجود

... loading ...

وجود
وجود

سہ فریقی کانفرنس اور توقعات

بدھ 10 مئی 2023 سہ فریقی کانفرنس اور توقعات

حمیداللہ بھٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہترتجارتی و معاشی سرگرمیوں کے لیے امن ناگزیر ہے بدامنی سے تجارتی و معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتیں اور مملکتوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں علاقائی امن و استحکام کی بات ہو یاترقی وخوشحالی،یہ مقاصد ہمسایہ ممالک میں قریبی تعاون سے ہی ممکن ہیں۔ بداعتمادی اور کشیدگی سے باہمی تعاون ،ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ پاکستان ،چین اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے خطے میں ترقی و خوشحالی کے لیے افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔ افغانوں کی بھوک و افلاس کے خاتمے کی منزل بھی امن سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ باعثِ اطمینان بات یہ ہے کہ تینوں ممالک کی قیادت کو اِس کا احساس ہے ایسے حالات میں جب ساری دنیا افغانستان سے کنارہ کش ہے، پاکستان اور چین نے تعاون بڑھانے اور افغانستان کو علاقائی اور عالمی معاملات میں ساتھ لیکر چلنے کی حکمتِ عملی بنالی ہے۔ اب یہ طالبان قیادت کی ذمہ داری ہے کہ دونوں ممالک کے اعتماد کوٹھیس پہنچانے والے اقدامات سے گریز کرے اور ثابت کرے کہ اُسے بھی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بجائے عالمگیریت کا حصہ بننے میں دلچسپی ہے ۔
پاکستان کی میزبانی میں رواں ہفتے سہ فریقی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کی دعوت پر چینی وزیرِ خارجہ چن گانگ اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کانفرنس میں شریک ہوئے جس سے خطے کو بڑی توقعات ہیں سہ فریقی مزاکرات میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ میں اعتماد اور تعاون کی خواہش نظر آئی اور برادرانہ گرمجوشی کا تاثر قائم ہواجس سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل میں نہ صرف تینوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید بہتر اور مضبوط ہوںگے بلکہ خطے میں تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا مگر تینوں ممالک یہ مت بھولیں کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلتے ہوئے جس عجلت کا مظاہرہ کیا ہے، اُس سے سیاسی تصفیے کی منزل دورہونے کے ساتھ افغانستان مستقل بدامنی کی آماجگاہ بنتاجارہاہے۔ امریکا نے جانے کے بعد مزید نوازش یہ کی کہ ابھی تک اثاثے بھی منجمد کررکھے ہیں ۔یہ افغان عوام کی مشکلات بڑھانے کی دانستہ کوشش ہے مگر طالبان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان اُن کا عالمی سطح پر مقدمہ لڑ نے اور عالمگیریت کا حصہ بنانے میں پیش پیش ہے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس 23 مارچ 2022اسلام آباد میں بھی خاص طورپر برادر ہمسائے افغانستان کو شریک ہونے کا موقع فراہم کیا تا کہ اپنی پالیسیوں کے حوالے سے طالبان مسلم دنیا کو اعتماد میں لے سکیں ۔ اب چین جیسی دنیا کی سب سے بڑی معاشی و دفاعی طاقت کے ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کرنا اِ س امر کا غماز ہے کہ پاکستان کو صرف افغانوں کی معاشی مشکلات کا احساس ہی نہیں بلکہ وہ مشکلات دور کرنے میں بھی سنجیدہ ہے ۔
حالیہ سہ فریقی ملاقاتوں میں بھی افغانستان کے 9.5 ارب ڈالر کے اکائونٹس اور اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کرنا سنجیدہ کوششوں کاہی حصہ ہے۔ تینوں ممالک کی بات چیت میں افغان امن و امان اور معاشی صورتحال خاص طورپر زیرِ بحث رہی اور بہتری لانے کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق نظرآیالیکن افغان قیادت کو یہ بھی چاہیے کہ سرحدوں پر امن قائم کرنے کے لیے ایسے نتیجہ خیزاقدامات اُٹھائے جس سے پاکستان کا اعتماد بڑھے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا، نہ صرف افغانستان کے اندر بدامنی فروغ پارہی ہے بلکہ سرحدوں کاامن بھی متاثر ہے ۔اِس سے طالبان کی کمزوری ظاہرہوتی ہے یہ صورتحال بدامنی کے خواہشمند عناصر کے لیے تو بہتر ہو سکتی ہے لیکن علاقائی امن و استحکام، ترقی و خوشحالی کے لیے نقصان دہ ہے اور ایسے حالات میںباہمی تجارت بڑھانا ممکن نہیں رہتا ۔
ہمارے خطے کی حساسیت کسی سے پوشیدہ نہیں جس کا ادراک کیے بغیر آگے بڑھنا اور ترقی کی منزل حاصل کرنا مشکل ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان کو درپیش مسائل کاپاکستان کے ساتھ اب چین کوبھی احساس ہے اور وہ بھی طالبان کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے میں سنجیدہ ہے۔ پاکستان اور چین کی طرح روس بھی افغان قیادت سے تعلقات اُستوار کرنے کا متمنی ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ طالبان ایسے عناصر کی سرکوبی اولیں ترجیح بنائیں جونہ صرف سرحدپار حملوں میں ملوث ہیں بلکہ پاک افغان قربت کے بھی خلاف ہیں۔ یہ عناصر نہ صرف سرحدی مسائل اُٹھاتے رہتے ہیں بلکہ پاکستان سے زیادہ بھارت سے دوستی کے لیے بے چین ہیں۔ طالبان کو ذہن نشین ہوناچاہیے کہ یہی عناصر ہی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں کاحصہ رہے ۔یہ نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے طالبان کے لیے ضروری ہے کہ سرحد پارحملوں اور پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کے خواہشمند عناصر سے سختی کریں۔ جب پاکستان خلوص سے افغان مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں یکسو ہے اِس کے باجود سرحد پار حملے جاری رہنا پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں امن کی طرح سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنا بھی ضروری ہے ۔یہ عیاں حقیقت ہے کہ آج بھی افغانستان متعدد علاقائی دہشت گردگروپوں کا ایسا مرکز ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں۔ افغان وزیرِ خارجہ کی طرف سے ایسے چیلنجز پر قابوپانے کے لیے سہ فریقی کانفرنس میں مل کرکام کرنے کی خواہش ایک مثبت پیش رفت ہے مگر یہ خواہش صرف زبانی طورپر ہی نہیں عملاً بھی نظر آنی چاہیے ۔سرحدی نظام بہتر بنانے اور سیکورٹی کے مسائل پر قابو پانا ہے تو دوطرفہ میکانزم کو باقاعدہ اور بہتر بنانے پر باہمی تعاون بڑھانا ہوگا ۔
سہ فریقی کانفرنس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تینوں ممالک نے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کھلے دل سے بات چیت کی اور پھر مہمان وزرائے خارجہ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں بھی کیں ملاقاتوں میں خطے کی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے سمیت اہم مسائل و معاملات پر ایک دوسرے کا نکتہ نظر جاننے کے لیے تبادلہ خیال کیاگیا مگر امن مخالف عناصر کی سرکوبی کرنا ہے تو تینوں ممالک ہمہ گیر لائحہ عمل بنا کر مشترکہ کوششیں کریں ۔اِس طرح ہی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے لیے خطے کے حالات کو آئیڈیل بنایا جا سکتا ہے سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا تو اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔ افغانستان اسلامی ملک ہوکربھی پاکستان سے اچھے اور قابلِ رشک تعلقات نہیں بنا سکا۔ حالانکہ دونوں ممالک کے عوام میں مثالی تعاون ہے مگر حکومتی حوالے سے اِس کا فقدان ہے ۔ پاکستان کے خلوص اور تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کاکابل اقرار تو کرتا ہے لیکن عملی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اگرایسا ہوتا توحل شدہ سرحدی معاملات دردِ سرنہ بنائے جاتے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کی بجائے خاتمہ کرنے پرتوجہ دی جاتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا بلکہ اب تو ایسا تاثر بن رہا ہے کہ طالبان نہ صرف ملکی مسائل حل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں بلکہ امن و امان قائم کرنے کی صلاحیتوں سے بھی عاری ہیں ۔وہ جتنی جلد سرحد پارحملوںپر قابو پالیںگے یہ اُن کی حکومت کے لیے سودمند ہوگا پاکستان کو بھی اِس حوالے سے دوطرفہ ملاقاتوں میں گومگوں کی کیفیت ختم کرتے ہوئے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
پاک چین تعلقات روزبروز فروغ پارہے ہیں پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کے خاتمے اور کشمیر کے حوالہ سے چین کی حمایت اور کوششیں بہت اہم ہیں ۔حالیہ سہ فریقی کانفرنس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ علاقائی سلامتی کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں افغانستان کی شمولیت ،تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافے ،دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شرکامیں کامل اتفاق دیکھنے میں آیا مگر سیکورٹی چیلنجوں کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنا ہے تو افغانستان کو غیر سنجیدگی ترک کرتے ہوئے عالمگیریت کا حصہ بننے پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کا اعتمادحاصل کرنا ہوگا پاکستان کا چین کی حمایت کا اعادہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ اُس کا چین کی طرف جھکائو ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پاکستان دیگر عالمی طاقتوں سے تعلقات میں بگاڑ لائے بغیراپنے مفاد کا تحفظ کرے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر