وجود

... loading ...

وجود
وجود

بدلتاعالمی منظرنامہ

بدھ 22 مارچ 2023 بدلتاعالمی منظرنامہ

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔

روس اور چین اپنے دوست ممالک کے تنازعات ختم کرانے اور انھیں منظم کرنے میں مصروف ہیں مگر امریکاکو برتری یہ حاصل ہے کہ وہ نہ صرف نیٹوکی صورت میں دنیا کے سب سے بڑے دفاعی اتحاد کا حصہ ہے بلکہ اسے مشرق ِ وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کابھی تعاون حاصل ہے۔ نیز ایشیا سے لیکر افریقہ تک تجارتی سامان سمیت دفاعی سازوسامان کے اچھے خریدار میسر ہیں۔ اسی لیے مقامی تنازعات کوختم ہونے سے روکنا اور اُنھیں جاری رکھنااُس کی مجبوری ہے تاکہ دفاعی صنعت کی پیدوار کی کھپت ہوتی رہے مگر روس اور چین کی کوشش ہے کہ نہ صرف عالمی تنازعات ختم کرائے جائیں بلکہ دوست ممالک کو ایک پیج پرلایاجائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ممالک کوتعلقات بحال کرنے پر رضامندکرنے کی چینی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہو چکیں اب اُس کی نظریں روس کے ساتھ مل کر مزید تنازعات پر ہیں۔ چین کی معاشی و دفاعی طاقت ایسی حقیقت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ روس کی ہتھیارسازی اور فوجی کامیابیاں بھی عیاں ہیں ۔ نیٹو کے ممبر ملک ترکیہ کاامریکی ناپسندیدگی کے باوجود روسی میزائل نظام خریدنا اور پھر بھارت کا بھی امریکا کے منع کرنے کے باوجود میزائل نظام حاصل کرنا ثابت کرتا ہے کہ روسی ہتھیار اب بھی دنیاکے پسندیدہ ہیں۔
روس اور چین دونوں مل کر تجارتی اور دفاعی حوالے سے امریکا کو محدود کرنے اور عالمی منظرنامہ بدلنے میں مصروف ہیں۔ رواں ماہ چین نے ایران اور سعودیہ کو تعلقات بحال کرنے پر رضامند کیا جسے غنیمت جانتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کی طرف سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کوبذریعہ خط دورے کی دی گئی دعوت بخوشی قبول کر لی گئی۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی میںخطے کامفادقرار دیاہے ۔ ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر نے اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یمن معاملے کو اندرونی تو قرار دیا لیکن اِس پربھی آمادگی کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کے تعاون سے خطے میںاستحکام لانے کے لیے کوشش کریںگے یہ دونوں ممالک کے اخلاص کو ظاہرکرتاہے۔ خطے میں دلچسپی رکھنے والوں کو امیدہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں اہم حیثیت اختیار کرنے کی راہ ہموار کر چکا ہے۔ روس کی بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے زیرِ اثر لائے اور اِس حوالے سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا تعاون حاصل ہے ۔
مگر کیا روس اور چین کو عالمی منظر نامے پر ایک جیسی کامیابیاں مل رہی ہیں ؟بظاہرایسا نہیں ۔دونوں کی سوچ اور کوشش یکساں ضرور ہے لیکن کامیابیوں کی رفتار میں فرق ہے۔ مثال کے طور پرروس چاہتا ہے ترکیہ اور شام کے تعلقات میںکشیدگی اور تنائوکا خاتمہ ہو۔ وہ دونوں ممالک میں دوریاں ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے لیکن شام نے تعلقات کی بحالی کومشروط کر دیاہے ۔حال ہی میںبشار الاسد نے روسی دورے سے واپسی پر یہ کہہ کر ترکیہ سے قریبی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیاہے کہ جب تک وہ شام سے اپنے فوجی واپس نہیں بلا لیتا تعلقات بحال نہیں ہو سکتے ۔ ترکیہ نے شامی صدر کی طرف سے تعلقات کی بحالی مشروط کر نے پر شدید ردِعمل دیا ہے لیکن شام نے شدید ردِعمل کو اہمیت نہیں دی ۔حالانکہ ترکیہ چند برس قبل ایک روسی طیارہ گراچکا بھلے بعد میں معذرت کر لی لیکن سچ یہ ہے کہ امریکا اورترکیہ تعلقات میں آنے والی سرد مہری سے روس فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے۔ اسی لیے نہ صرف معذرت قبول کر لی بلکہ میزائل نظام فروخت کرتے ہوئے بھی جلد بازی دکھائی۔ بشارالاسد کے اقتدار کی بحالی اور انتخابات میں دوبارہ کامیابی روسی مرہونِ منت ہے پھروہ روس کی خواہش کے باوجود ترکیہ سے تعلقات بحال کرنے میں کیوں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اب اپنے قرب و جوار میں روس کے علاوہ بھی کمک ملنے لگی ہے۔ رواں ماہ اُنیس مارچ کو صدر بشار الاسد نے ابوظہبی میں اماراتی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ شام میں گزشتہ ماہ زلزلہ آنے کے بعد اُن کا دوسرا خلیجی دورہ ہے۔ اِس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ اِسے دمشق کو عرب حلقے میں واپس لانے کی کوشش سمجھاجارہا ہے۔ شامی زلزلہ زدگان کوامداد چاہئے ،براہ راست نہ سہی لیکن سعودیہ کی طرف سے مسلسل پہنچ رہی ہے۔ اسی لیے صدر بشار خطے میں خود کو تنہا نہیں سمجھتے بلکہ اُن کے اعتمادمیں اضافہ ہوا ہے مگر شرائط عائد کرناپھربھی ناقابلِ فہم ہے مگر کیا روس دبائو نہیں ڈالے گا۔ ظاہر ہے ایسا ہوناقرین قیاس ہے اُس کی پوری کوشش ہو گی کہ ترکیہ اور شام میں دوریاں ختم ہوں تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حیثیت کمزورہو۔ اسی لیے خطے پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شامی صدر کی شرائط جلد ختم ہو جائیں گی اور وہ ترکیہ سے تعلقات کی بحالی پر رضامند ہوسکتے ہیں۔
روس اور چین مل کر عالمی منظر نامہ بدلنے اور اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں کے علاقائی اور عالمی معاملات میں مشترکہ مقاصدہیں۔ اِس حوالے سے چینی صدر ژی جن پنگ کا بیس مارچ سے ماسکو کاتین روزہ جاری دورہ نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے ۔ دونوں ممالک میں سیکورٹی،اقتصادی ، سیاسی امورسمیت ہر معاملے پر بات چیت ہوئی ہے۔ چین جویوکرین جنگ کے خاتمے، امن مذاکرات کے آغاز اور نام لیے بغیر روس کے خلاف عائد کی گئی عالمی پابندیوں کے خاتمے کی بات کرتاہے۔ روس بھی مذاکرات کے لیے تیارہونے کا عندیہ دیتاہے لیکن امریکا اور اُس کے اتحادی ممالک ایسے کسی فارمولے کے خلاف ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کہتے ہیں کہ ایسا ہونا دراصل روسی موقف اور جارحیت کی توثیق ہو گی۔ نیز بیجنگ تجاویز یوکرین جنگ میں روسی شکست روکنے کا حربہ ہے۔ چین نے اقوامِ متحدہ کی طرف سے روس کی مذمت کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ اب چینی صدر کا ایسے حالات میں ماسکو جانا جب روس اور یوکرین میں جھڑپیں جاری ہیں روس کی غیر مشروط اور مضبوط حمایت کا اشارہ ہے اور اِسے دونوں ممالک کی طرف سے امریکی بالادستی کے خلاف مل کر چلنے کی کوششوں کومزید مربوط بنانے کے طورپر دیکھا جارہاہے ۔ چین کا موقف ہے کہ وہ اب بھی غیر جانبدار ہے۔ البتہ وہ ماسکو اور کیف میںصلح کرانے کی باتوں کو نہیں جھٹلاتا،اگر مشرقِ وسطیٰ کی طرح یہ بھی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو صدرژی کی نہ صرف اپنی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ چین کا عالمی کردار بھی وسیع ہوگا۔
روس اور چین کے کردار کو عالمی منظر نامے پر دیکھا جائے تو اِس میں شبہ نہیں کہ روس پربھی چین کو مضبوط معیشت کی وجہ سے سبقت
حاصل ہے اور روس اِس وقت ایسا معاون شراکت دار ہے جسے جونیئر پارٹنرکہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے روسی کوششوں کو اتنی پزیرائی نہیں ملتی جتنی کامیابی چین کے حصے میں آرہی ہے۔ چینی صدر اپنے روسی ہم منصب پیوٹن کو2019میں اپنا بہترین دوست کہہ چکے۔ کچھ حلقے ہر روسی اقدام کو چین کی طرف سے توثیق کے طور پر لیتے ہیں۔ گزشتہ برس یوکرین پر حملے کی پاداش میں جب امریکا اور مغربی ممالک نے تجارتی پابندیاں لگائیں اور مغربی ممالک نے تیل و گیس کی درآمد محدود کرنے اور ہائی ٹیک مصنوعات پر اِس حدتک پابندیاں لگا دیں کہ اکثر مغربی کمپنیوں نے روسی فرموں سے روابط تک منقطع کرلیے جس سے یورپی یونین،برطانیہ اور امریکا سے روس کی تجارت میں بڑی حد تک کمی ہو گئی ، اِن حالات میں چین نے روسی معیشت کو سہارا دیا۔ چین کو تجارت میںروس پر بالادستی حاصل ہے کیونکہ روس کو چین کی برآمدات 114 بلین ڈالر جبکہ درآمدات 76بلین ڈالرہیں۔ لیکن دونوں ممالک دفاعی میدان میں باہمی تعاون بڑھانے کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ اسی لیے دونوں ممالک کی طرف سے جاری عالمی منظر نامہ بدلنے کی کاوشوں پر مغربی ممالک اور امریکا پریشان ہیں۔ امریکا نہ صرف روس اور یوکرین تنازع کے حل کے لیے چینی کوششوں کی مخالفت کرتا ہے بلکہ ایسی کوششوں کو روسی جارحیت کی توثیق قرار دیتا ہے لیکن ایسی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ یوکرین نہ صرف چین کی تجاویز کسی حد تک قبول کرنے پر آمادہ ہے بلکہ اِس حوالے سے پسِ پردہ کام بھی جاری ہے۔ اگرعارضی طورپرہی سہی خطے میں امن بحال ہوجاتاہے تو عالمی منظر نامے میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر