وجود

... loading ...

وجود
وجود

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

منگل 21 مارچ 2023 بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکالمہ ہماری ضرورت ہے ، ہم اظہار آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ہم آج جس اظہار آزادی پر نازاں ہیں، وہ ہماری آزادی نہیں بلکہ ہماری آزادی کو کنٹرول کرتا ہے ۔ ہماری آزادی کو ان شرائط و ضوابط نے کنٹرول کر رکھا ہے ، جو سرمایہ داروں نے ڈیزائن کی ہیں، آج کا انسان سوچتا بھی وہ ہے ، جو شوشل میڈیا چاہتا ہے ۔ دنیا یک رخی ہوگئی ہے ، آج کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کے خیالات کو کس طرح قابو میں کیا جائے ، آج کی دنیا ارادے کو قابو کرنے کی ہے ، جو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ انسان کی تمنا کو بدل دے ، انسان کو ان چیزوں کی طرف راغب کرے ، جو وہ پیدا کر رہے ہیں، جو وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ آج ابلاغ بہتر ہوگیا ہے ۔ اس لیے کہ اظہار کے مواقع زیادہ ہیں، دنیا کنٹرولڈ ہو گئی ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کا اظہار حاضر کے علوم اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری سے بزم مکالمہ کی نشست میں سننے کا موقع ملا۔
اب سے ایک سال قبل طارق جمیل شیخ نے “بزم مکالمہ” کی بنیاد رکھی تھی۔ مارچ 2022 میں اس بزم کا آغاز بھی پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری کے لیکچر” لبرم ازم کے تصور آزادی ” سے ہوا تھا۔ بعد میں ہر ماہ ایک لیکچر کی روایت برقرار رہی، جس میں خرم علی شفیق، جسٹس وجیہ الدین احمد، ڈاکٹر عبدالہادی شاہد، خواجہ رضی الدین حیدر،فراست رضوی، پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی ، ڈاکٹر صابر حسین، پروفیسر ڈاکٹر مسعود محمود، ڈاکٹر ریاض الدین، محمود شام نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا اور سامعین سے سوال جواب کی صورت میں مکالمہ کیا۔ بزم مکالمہ کوئی تنظیم نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک سوچ اور نظریہ کا نام ہے ، یہ ایک تحریک ہے ، جس کا مقصد معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے ایک جگہ جمع کرکے ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع دینا ہے ۔ شیخ طارق جمیل کو یہ وصف اپنے والد شیخ جمیل الرحمن مرحوم سے ملا ہے ، جو ڈاکٹر اسرار احمد کے رسالے میثاق کے ایڈیٹر رہے ، اور ڈاکٹر اسرار کی کئی کتابیں انھوں نے مرتب کیں۔
طارق جمیل شیخ کراچی کی علمی ادبی شعری تقریبات میں ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ” بزم شعر سخن” کے بھی بانی ہیں، جو 2017 سے ہرسال ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد کرتے ہیں، جس میں نامی گرامی شعرا شرکت کرتے ہیں۔ طارق جمیل کو احباب بھی ایسے ملے ہیں، جو
پرورش لوح و قلم کے راستے کے مسافر ہیں۔ ان میں فراست رضوی، افتخار ملتانی، خالد میر، تاجدار عادل، ظفر اقبل، شفیق اللہ اسماعیل، ارشاد آفاقی، سید ہانی رضوی جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر احباب خود شعر و ادب میں نامور ہیں۔ بزم مکالمہ کی روح یہ ہے کہ ” مخالفت نہیں بلکہ اختلاف کیجئے ” ایک سال کے عرصے میں جو پروگرام ہوئے ، ان کے موضوعات بھی بہت اہم تھے ، پاکستان میں سیاسی نظام کی ناکامی،پاکستان معاشی استحکام یا دیوالیہ،ذہنی صحت و پاکستانی معاشرہ،لیاقت علی خان سیاست اور شہادت،سید ابوالاعلی مودودی بحثیت نثر نگار،قائد اعظم کا تصور قومیت، پاکستان کے معاشی حالات اور سدھار کے امکانات،یہ سارے موضوعات اور ان پر ہونے والے سوال جواب ہمیں معاشرے میں مکالمے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں بھی مکالمے کی اشد ضرورت ہے ، تبدیلی اور قلاب طاقت کے مظاہروں سے اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے سے نہیں آتے ۔ عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کو جس طرح تماشہ بنایا گیا ہے ، اس سے یہ بھی اظہار ہوتا ہے کہ اصل مقصد عمران خان کو گرفتار کرنا اور انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں بلکہ انھیں اس سرکشی کی سزا دینا ہے ، جو انھوں نے نادیدہ طاقت کے خلاف ڈکٹیشن قبول کرنے کے خلاف کر رکھی ہے ۔ عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور ریاستی طاقت اسے اب پاکستان میں مزید تجربات کا کھیل بند کردینا چاہئے ۔ عوام کی طاقت صحیح یا غلط اس وقت عمران خان کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے ، اسے طاقت سے نہیں توڑا جا سکتا۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت جس انتخاب کے وعدے پر اقتدار میں آئے تھے ۔ اسے پورا کریں، اور جیتنے والوں کو اقتدار سپرد کریں۔ ملک کو چلانے کا ٹھیکہ کسی کے پاس نہیں ہے ، جو اپنے آپ کو اس ملک کا ٹھیکہ دار سمجھ کو اپنی من مانی کر رہے ہیں، انھیں بھی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ عزت اور وقار ان سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اب زبانیں کھل گئی ہیں، نفرت چہروں پر پھیل رہی ہے ، اگر یہ صورت حال رہی تو ان کو گلی محلوں اور بستیوں میں بھی مشکلات کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر