وجود

... loading ...

وجود
وجود

راہل گاندھی پہ معطلی کی تلوار

پیر 20 مارچ 2023 راہل گاندھی پہ معطلی کی تلوار

معصوم مرادآبادی
……………..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا دوسرا حصہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعصاب شکن تکرار کی نذر ہوا چاہتا ہے ۔ پانچ دن بعد بھی پارلیمنٹ چلنے کے آثار نہیں بن سکے ۔لندن میں دئیے گئے راہل گاندھی کے بیان کو مودی سرکار نے ملک دشمنی کا سب سے بڑا کیس بنادیا ہے اور اس معاملے میں ان سے غیرمشروط معافی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔کہا جارہا ہے کہ اگر معافی نہیں مانگی تو راہل گاندھی کی لوک سبھا سے معطلی کے لیے کارروائی شروع کی جائے گی۔اس سلسلے میں مرکزی وزیر نشی کانت دوبے نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو ضابطہ نمبر223کے تحت خط لکھ کر راہل گاندھی کے ‘توہین آمیز’ تبصرے کی جانچ کرنے اور انھیں لوک سبھا سے معطل کرنے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کامطالبہ بھی کردیا ہے ۔واضح رہے کہ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں برطانوی دارالحکومت لندن کے سفر میں ہندوستانی جمہوریت کے تسلسل پر کچھ سوال قایم کیے تھے ۔انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں جمہوری ماڈل کی سوچ پر حملہ ہورہا ہے ۔ اگر ہمارا جمہوری ماڈل زوال پزیر ہوا تو کرہ ارض پر جمہوریت کو دھچکا لگے گا۔ انھوں نے ایک ہندوستانی نژاد خاتون کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ ہرہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ دنیا میں ہرجگہ ہندوستان کی بنیادی اقدار کے لیے آواز اٹھائے اور اپنی جمہوریت کی حفاظت کرے ۔
راہل گاندھی کے اس بیان کو حکمراں طبقہ نے ہندوستان پر حملہ تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف محاذکھول دیا ہے ۔ ملک گیر سطح پر بی جے پی کے لیڈران راہل کو نشانہ بنارہے ہیں۔ الزام ہے کہ انھوں نے غیرملکی سرزمین پر ہندوستان کو بدنام کیا ہے ، جس کے لیے انھیں پارلیمنٹ میں تحریری طورپر معافی مانگنی چاہئے ۔ مرکزی وزیروں پرہلاد جوشی، ارجن رام میگھوال،ممبرپارلیمنٹ سدھانشو ترویدی اور انل بالونی نے راہل گاندھی پر جارحانہ الزامات لگائے ہیں۔کہا گیا کہ پورے ملک میں راہل گاندھی کے خلاف غم وغصہ ہے کیونکہ انھوں نے غیرملکی سرزمین پر پارلیمنٹ کی توہین کی ہے اور ہندوستان کی بے عزتی کی ہے ۔اس دوران مرکزی وزیرقانون کرن رجیجو نے راہل گاندھی پر ہندوستان مخالف زبان بولنے کا الز ام لگاتے ہوئے کہا کہ ملک نے انھیں مسترد کردیا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھیں غیرملکی سرزمین پر جمہوریت کی توہین کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے ۔
اس سوال سے قطع نظر کہ خود حکومت کی غیر جمہوری اورفرقہ وارانہ کارروائیوں سے ملک کی کتنی عزت اور وقار بلند ہورہا ہے ، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جمہوری نظام میں ہرشخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے ۔ وہ ملک کے اندر کہی جائے یا پھر ملک کے باہر۔ کیا ملک کی سرحد عبور کرنے پر اظہاررائے کی آزادی ختم ہوجاتی ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ ہراس شخص کا منہ نوچنے کی کوشش کی جارہی ہے جو حکومت سے سوال کرنے کی جرأت کررہا ہے ۔ ملک میں اس وقت کوئی اپوزیشن پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے لیڈروں کے پیچھے سی بی آئی، انکم ٹیکس اور ای ڈی نہیں لگے ہیں۔ ملک میں اصل بے چینی اور ناراضگی دراصل اسی بات پر ہے کہ آخر سرکاری ایجنسیاں صرف اور صرف اپوزیشن لیڈروں کو ہی کیوں نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے یا اس کی حمایت کرنے والوں پر کسی ایجنسی کی کوئی نگاہ نہیں ہے ، خواہ وہ کتنا ہی بڑی بدعنوانی میں کیوں ملوث نہ ہوں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے جمہوری اداروں کی خودمختاری اور ان کے مستقبل کے تعلق سے طرح طرح کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ پارلیمنٹ جیسے جمہوریت کے مندر میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن کے کئی ممبران نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جب بیان دینے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے مائک بند کردئیے جاتے ہیں تاکہ ان کی آواز کوئی سن نہ سکے ۔یہاں تک کہ راہل گاندھی نے بجٹ اجلاس کے شروع میں اڈانی اسکینڈل سے متعلق جو تقریر کی تھی اس کے بیشتر حصوں کو ریکارڈ سے ہٹا دیا گیا ہے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ممبر کی تقریر کو اس حدتک ایڈٹ کیا گیا ہے کہ اس کا مفہوم ہی ختم ہوگیا۔ دراصل حکومت کا سب سے بڑا درد سر اس وقت اڈانی کا معاملہ ہی ہے ۔ اپوزیشن اڈانی معاملے کی جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی)بنانے کا مطالبہ کررہی ہے تاکہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے ۔ لیکن حکومت اڈانی کے انتہائی سنگین اسکنڈل کو رفع دفع کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی راہل گاندھی کے بیان کوحب الوطنی سے جوڑ کر بڑا موضوع بنایاجارہاہے ۔
راہل گاندھی حالانکہ شروع سے بی جے پی کے نشانے پر ہیں، لیکن جب سے انھوں نے کنیا کماری سے کشمیر تک کی کامیاب بھارت جوڑو یاترا کی ہے تب سے وہ حکومت کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکنے لگے ہیں۔ راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے دوران ملک کے عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک اور افلاس جیسے مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے سنگین خطرات سے آگاہ کیاہے ۔ موجودہ حکومت کا سب سے کامیاب حربہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے انھیں فروعی معاملات میں الجھاکر رکھنا چاہتی ہے ۔ ‘بھارت جوڑو یاترا’کے دوران راہل گاندھی کے سری نگر میں خواتین کے جنسی استحصال سے متعلق ایک بیان پر بھی دہلی پولیس نے انھیں نوٹس بھیج کر بازپرس کی ہے ۔راہل نے کہا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ خواتین کا اب بھی جنسی استحصال ہورہا ہے ۔بے عزتی کے خوف سے وہ پولیس کے پاس نہیں جاتیں۔دہلی پولیس نے راہل گاندھی کو نوٹس بھیج کر ان خواتین کی جانکاری طلب کی ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں حالیہ تعطل کی بڑی وجہ حکومت کے اراکین کا جارحانہ رویہ ہے ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے چلوانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ماضی میں جب کبھی اپوزیشن کو حکومت سے کوئی شکایت ہوئی ہے تو مسائل کو مفاہمت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پارلیمنٹ کی کارروائی کو چلایا گیا ہے ۔لیکن بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں خود حکومت کے اراکین نے ہی راہل گاندھی کی معافی کو ایک بڑا موضوع بناکر ایوان کو ٹھپ کردیا ہے ۔راہل گاندھی نے اپنے لندن کے بیان کے تناظر میں اسپیکر سے ملاقات کرکے کہا تھا کہ وہ لوک سبھا میں جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ چار وزیروں نے پارلیمنٹ کے اندر ان پر الزامات عائد کیے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی تھی کہ جمعہ کو انھیں ایوان میں بولنے دیا جائے گا، مگر جمعہ کے دن بھی
صورتحال جوں کی توں رہی اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کارروائی اگلے ہفتہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس طرح بجٹ اجلاس کے دوسرے دور کا پہلا ہفتہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ اڈانی کے مسئلہ اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے حکومت پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چلنے نہیں دے رہی ہے ۔ اس دوران تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے پارلیمنٹ میں انسانی زنجیر بناکر مرکزی حکومت سے اڈانی معاملے میں جے پی سی بنانے کا مطالبہ دوہرایا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اڈانی کے معاملے میں حکومت اپوزیشن کا کوئی مطالبہ ماننے کو تیار نہیں، جبکہ اسے پوری دنیا میں ایک بڑے اسکینڈل کے طورپر دیکھا جارہا ہے ۔ اگر واقعی اڈانی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے تو حکومت کسی بھی جانچ سے پرہیز کیوں کررہی ہے ؟
٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر