وجود

... loading ...

وجود
وجود

سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی

پیر 30 جنوری 2023 سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی

سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے انتہائی اشتعال انگیز واقعہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات چھلنی کردئیے ہیں۔ ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہیں اور اپنے ہاتھوں میں قرآنی نسخوں کو اٹھائے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے بلند کررہے ہیں۔عرب ملکوں نے اس واقعہ کی پرزورالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان بدبختوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنھوں نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوروپ کے بعض ملکوں میں شرپسندوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غبار نکالنے کے لیے یوں ہی شرانگیز ی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔جب کبھی انھیں کسی مسلم ملک سے کوئی شکایت ہوتی ہے تو وہ اس کا حل نکالنے کی بجائے اسلام پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہوتی ہیں۔ یہ اسلاموفوبیا کی ایک ایسی شکل ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہوپارہا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس آسمانی صحیفہ ہے جو پوری نوع انسانی کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا نزول نوع انسانی کی ابدی فلاح کا ضامن ہے، مگر اسے کیا کہا جائے کہ قرآن کی توہین کرکے شرپسندیہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو ایذا پہنچاکر اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یوروپی ممالک اس قسم کی اشتعال انگیزحرکتوں کی اجازت اظہار رائے کی نام نہاد آزادی کے نام پر دیتے ہیں۔مغرب میں اظہاررائے کی آزادی ایک ایسا فریب ہے جس کی کوئی تاویل پیش نہیں کی جاسکتی۔
گزشتہ ہفتہ سوئڈن کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں اسلام مخالف سوئڈش ڈینش سیاست داں راسمس پالوڈون اور ان کے حامیوں نے ترکی سفارت خانے کے روبرو قرآن سوزی کی شرمناک حرکت انجام دی۔ شرمنا ک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سوئڈش حکام کی اجازت سے کیا گیا۔ حالانکہ سوئڈن کے وزیراعظم نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے، لیکن یہ سب کچھ عالم اسلام کے شدید ردعمل کے بعدہواہے۔ اگر سوئڈش حکومت کو اس بات کا احساس ہوتا تو وہ مجرموں کے خلاف کارروائی ضرور کرتی، لیکن انھوں نے اس شرانگیزی کی مذمت کرتے وقت اظہاررائے کی آزادی کا حوالہ دینا ضروری سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ ترکی نے اس واقعہ کو قابل نفرت فعل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوئڈش حکومت کا احتجاج کی اجازت دینے کا فیصلہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ قرآن سوزی کا یہ واقعہ اس حقیقت کی ایک اور مثال ہے کہ یوروپ میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔
اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارتخانے کے روبرو قرآن کی بے حرمتی اس لیے کی گئی کہ سوئیڈن نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے جبکہ نیٹو کا ممبر ترکی سوئڈن کی دوہری پالیسی کی وجہ سے اس کے خلاف ہے۔ واضح ہوکہ روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سوئڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی ممبرشپ کے لیے درخواست دی تھی۔اسی وجہ سے اسٹاک ہوم میں دائیں بازو کے کارکن ترکی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ان مظاہروں کے دوران انتہائی دائیں بازو کی اسٹرام کرس پارٹی کے رہنما اسموس پالوڈان نے ہفتہ کے روز اسٹاک ہوم میں ترکی سفارتخانے کے باہر قرآن مجید کا ایک نسخہ نذرآتش کردیا۔ پالوڈان نے گزشتہ سال بھی ریلیاں نکالی تھیں جس میں اس نے قرآن جلانے کی دھمکی دی تھی۔ترکی کے وزیراعظم طیب اردغان نے گزشتہ پیر کو کابینہ کی میٹنگ کے بعد کہا کہ اسٹاک ہوم میں مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کو نذرآتش کرنے کے بعد اب سوئڈن کو ناٹو کی رکنیت کی لیے ترکی کی حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دہشت گرد تنظیموں کے ارکان اور ان کے دشمنوں سے اتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں تو ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے ممالک کی سلامتی کے لیے ان کا ہی تعاون حاصل کریں۔واضح ہو کہ سوئڈن ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ اس کے اور فن لینڈ کی جانب سے ناٹو میں شامل ہونے کی درخواستوں کی توثیق کردے۔سوئڈن کو ترکی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس فوجی اتحاد کے تمام اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ اس معاملے میں صرف ترکی اور ہنگری کو ہی اعتراض ہے۔قرآن کو نذرآتش کرنے سے پہلے ہی ترکی نے سوئڈن سے کرد کارکنوں کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اردغان نے پیر کے روز ایک بار پھر سوئڈن پر کرد نواز گروپوں بشمول کردستان ورکرز پارٹی کو ملک میں ریلیاں نکالنے کی اجازت دینے پر تنقید کی تھی۔واضح رہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کو ترکی، یوروپی یونین اور امریکہ ایک دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں تاہم سوئیڈن میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’’ایک طرف تو آپ دہشت گردتنظیموں کو اپنی سڑکوں اور چوراہوں پر چہل قدمی کرنے دیں گے، دوسری طرف ناٹو میں شامل ہونے کے لیے ہماری حمایت کی توقع کریں گے، ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سوئڈن میں اسلام اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2007میں سوئڈن اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب وہاں سوئڈش کارٹونسٹ لارس ولکس نے اہانت رسول پر مبنی کارٹونوں کی ایک سیریز بناکر اسے مقامی اخباروں میں شائع کروایا تھا۔ ان اہانت آمیز کارٹونونس کے خلاف بھی ایسا ہی احتجاج ہوا تھا جیسا کہ اس وقت سوئڈن میں قرآن سوزی کے واقعہ پر ہورہا ہے۔ گستاخ کارٹونسٹ لارس ولکس کی اکتوبر2021 میں ایک سڑک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔اہانت آمیز خاکوں کا معاملہ ہو یا پھر قرآن سوزی کے شرمناک واقعات، یہ سب مغرب میں جاری اسلاموفوبیا کی ایک بدترین شکل ہے جس پر مسلمان صبروضبط کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس قسم کی حرکتوں کے خلاف احتجاج کے پرامن طریقے اختیار کئے ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اسلامی دنیا کے خلاف محاذآرائی کا جواز پیش کرسکیں۔
دراصل مغرب میں قرآن کریم کے خلاف منظم تحریک کا آغاز 2010 میں امریکی ریاست فلوریڈا سے ہواتھا۔ نائن الیون کے بعد ایک متعصب پادری ٹیری جونس نے سانحہ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس سال 11/ستمبر کو قرآن کریم جلانے کا دن قرار دیا، لیکن سرکاری مشنری کے حرکت میں آنے کے بعد اس نے قرآن سوزی کی تقریب منسوخ کردی، لیکن2011میں اس نے اپنے چرچ میں خودساختہ عدالت لگاکر قرآن کریم کے خلاف محاذآرائی کی اور ایک پادری نے قرآن سوزی کے جرم کاارتکاب کیا۔سوئڈن میں قرآن سو زی کی حالیہ حرکت کرنے والا راسموس پلوڈن ڈنمارک نڑاد سوئڈش شہری ہے۔ اس نے2019میں بھی ڈنمارک میں قرآن کریم کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا تھا جسے وہاں موجود مسلمانوں نے ناکام بنادیا تھا۔ایک سال بعد2020میں اس نے ایک بار پھر شیطانی منصوبہ دوہرایا، لیکن حکام نے اسے گرفتار کرکے ڈنمارک بھیج دیا۔اب یہ وحشی ایک بار پھر وہی حرکتیں کرتا پھر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کررہا ہے، اسے کھلا چھوڑنے کا مطلب کیا ہے؟ اگر مغرب کے نزدیک یہی اظہار رائے کی آزادی ہے تو پھر اس پر ہزار بار لعنت بھیجی جانی چاہئے۔اظہار رائے کی آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات سے جان بوجھ کرکھلواڑ کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نازک موڑ وجود بدھ 22 مئی 2024
نازک موڑ

جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا!! وجود بدھ 22 مئی 2024
جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا!!

بھارت میں تبدیلی کی ہموار ہوتی راہ! وجود بدھ 22 مئی 2024
بھارت میں تبدیلی کی ہموار ہوتی راہ!

ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں۔۔۔۔(٢) وجود بدھ 22 مئی 2024
ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں۔۔۔۔(٢)

نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر