وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان استقلال کے خلاف تخریبی عزائم

اتوار 15 مئی 2022 افغان استقلال کے خلاف تخریبی عزائم

افغانستان میں امن کے تسلسل، اس کی جغرافیائی سلامتی اور وحدت کے خلاف ایک بار پھر مسلح جتھہ بندی کے جال بنے جارہے ہیں۔ افغانستان کا استقلال عوام کی 20 سال کی طویل جدوجہد کا حاصل ہے۔ امریکا کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ یوں 29 فروری 2021ء کو دوحا معاہدے پر ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دستخط کر دیے۔ یہ دن افغان حریت پسند عوام کیلئے انتہائی خوشی و مسرت کا تھا۔ یہ منظر پوری دنیا نے بڑے انہماک سے دیکھا۔
دوسری جانب معاہدے سے پہلے اور بعد میں بھی امریکی اور نیٹو کے تحفظ اور کفالت میں مسلط شمال کے حلقوں، سیاسی و جنگی شخصیات اور بعض پشتون بڑے اسے ناکام بنانے پر جتے رہے، اقتدار سے چمٹے رہے۔ معاہدے کی وہ شرائط جیسے قیدیوں کی رہائی میں تاخیری حربوں کا سہارا لے کر معاہدے پر اثر انداز ہوئے، یہاں واشنگٹن نے بھی مزید کردار ادا کیے بغیر فوجیں نکال کر افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھور دیا۔
صدر اشرف غنی نے انتقال اقتدار کی بجائے فرار کی ذلت آمیز راہ کا انتخاب کیا۔ چناں چہ دوحا معاہدے کے افغان فریق کو مجبوراً کابل یعنی ملک کا زمام کار ہاتھ میں لینا پڑا۔ معاہدہ پر بلا پس وپیش عمل درآمد کیا جاتا تو یقیناً عبوری حکومت کی شکل آج سے مختلف ہوتی۔ بہر حال نئی حکومت نے کسی گروہ، سیاسی بڑے اور فوجی افسران کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔ طورن اسماعیل کو عزت اور اکرام کے ساتھ ایران جانے کی اجازت دی۔ جنرل رشید دوستم پہلے ہی ترکی جا پہنچے تھے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ وطن میں رہے جن پر کسی قسم کی قدغن نہ ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیاء مسعود اور سی آئی کے پروردہ امر اللہ صالح نے نئی حکومت سے جنگ کی ٹھان لی، مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ وطن میں رہتے تو ان کیلئے کسی قسم کے مسائل نہ ہوتے۔ چناں چہ ان کی زور آزمائی برداشت نہ کی گئی۔ نئی حکومت نے پورا پنجشیر کابل کے قلمرو میں شامل کرلیا۔ جبکہ ان دونوں نے دوسرے ملک میں پناہ لے لی۔
رشید دوستم بھی امریکی و برطانوی فوجی حمایت اور فوجی کمک کی کوششوں میں ہے اور افغان حکومت کے خلاف سرگرم داعش گروہ کے کمانڈروں سے رابطے اور ملاقاتیں کررہا ہے۔ دوستم نے تعاون کے بدلے امریکا کو یوکرین میں روس کے خلاف اپنے جنگجو بھیجنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ یہ مشق امریکا کی تشکیل کردہ سابقہ حکومتوں میں ہوتی رہی۔ ملیشیائیں بنا کر شمال کے لوگوں کوخاص کر افغان شیعہ نوجوان ایران کے راستے عراق، شام وغیرہ لڑنے بھیجے جاتے۔
ادھر افغانستان کے شمال اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی نمایاں لوگ ایران منتقل ہوئے ہیں، گویا احمد ضیاء مسعود، رشید دوستم، امر اللہ صالح اور ایران میں مقیم یہ لوگ قومی مزاحمتی محاذ کے نام سے قومی اور علاقائی بنیادوں پر افغانسان پر ایک اور جنگل مسلط کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
سابق حکومت کے ایک فوجی جنرل سمیع سادات نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ان ارادوں کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں مسلح کارروائیاں شروع کردی جائیں گی۔ محاذ نے جنگ چھیڑنے اور پنجشیر میں علاقے قبضہ کرنے کی ابلاغی جنگ کا بھی آغاز کردیا ہے۔ ایران کے اندر ہرات سے تعلق رکھنے والے کمانڈر طور اسماعیل سمیت نمروز کے سابق گورنر عبدالکریم، سابق افغان صدر کے مشیر ابراہیم، مولوی حسام الدین تاجک، صوبہ فاریاب کے سابق پولیس سربراہ نظام الدین قیصری، سابق این ڈی ایس اہلکار گل حاجی فرید، صوبہ فرح کے سابق پولیس چیف عبدالولی مبارز، قومی مزاحمتی محاذ کے کمانڈر عبدالغنی علی پور، این آر ایف کمانڈر عبدالحکیم شجائی، بادغیس کے سابق گورنر حسام الدین شمس اور بادغیس کے سابق پولیس آفیسر شیر اکا الکوزئی مقیم ہے۔
یہ وہی حربے ہیں جو سابق کمیونسٹ دور حکومت میں ہوتے رہے، تب روس کی حمایت سے اقتدار کی کنجیاں ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ آخر میں خراسان کے نام سے افغانستان کی تقسیم کی منصوبہ بندی پر کام شروع کیا۔ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو انہوں نے بے دست و پا بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر نجیب، گلبدین حکمتیار اور دوسرے جہادی رہنما?ں کے درمیان امن منصوبے پر پیشرفت ہوئی تھی۔ جسے کمیونسٹ پرچم پارٹی کے جنرل نبی عظیمی وغیرہ نے بھنک پڑنے پر احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر سبوتاڑ کیا، ڈاکٹر نجیب شمال کی ملیشائیں کابل میں داخل کرنے کی اجازت پر مجبور کئے گئے، جس کے بعد حالات نے ایک اور خوفناک کروٹ لے لی، پھر مجددی اور ربانی کی حکومتیں ان کی اپنی حکومتیں تھیں، جو در حقیقت شمال کی زیر دست تھیں۔ چناں چہ ملا محمد عمر کی تحریک کے اٹھنے اور کابل پر قبضے سے ان کے خواب بکھر گئے۔
شمال کے گروہ اس عرصہ مختلف تخریبی منصوبوں میں مگن رہے۔ ایران ان کا اہم مستقر رہا۔ 8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی و نیٹو حملے کے بعد یہ پھر سیاہ و سفید کے مالک ٹھہرائے گئے۔ افغانستان کی اکثریتی آبادی صدارت اور چند دیگر عہدے دے کر محض علامتی حصہ دار تھی۔ امریکی چھتری تلے نومبر 2001ء میں منعقد ہونے والی بون کانفرنس میں عبوری حکومت قومی بنیادوں پر تشکیل دی گئی۔ کانفرنس میں طالبان اور حزب اسلامی کو دعوت نہ دی گئی تھی۔ باقی پشاور گروپ جو حامد گیلانی کی سربراہی میں تھا۔ ہمایوں جریر کی نمائندگی میں قبرص گروپ، روم گروپ، عبدالستار سیرت اور متحدہ جبہ، ربانی کی سربراہی میں شریک ہوا۔ متحدہ جبہ، ربانی کی حکومت کو تسلیم کرانے کی جستجو میں لگا رہا اور مسلسل عبوری حکومت کے قیام میں خلل کی تاک میں رہا۔ مذاکرات میں غیر شریک عبداللہ عبداللہ برہان الدین ربانی کوفون پر ہدایات دیتے۔
بہرحال شمال کو حکومت میں اہم اور مؤثر حصہ دیا گیا، پھر حامد کرزئی کہا کرتے تھے کہ اقلیتی اقوام امریکا اور نیٹو افواج کی موجودگی سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور پشتون ان سے تکلیف میں ہیں۔ یقیناً ایسا ہی تھا، جنرل فہیم اور جنرل دوستم کا مارشل بنانا زور زبردستی والا معاملہ تھا۔ عبداللہ عبداللہ بزور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ اشرف غنی کے مقابل متوازی طور بطور ملک کے صدر حلف اٹھایا۔ امریکی تسلط کے پورا عرصہ شمال کا خطہ علی الخصوص پنجشیر کابل کی عملداری سے باہر تھا۔ کابل کی حکومت کی رٹ اپنے علاقوں میں تسلیم نہیں کی جاتی تھی۔ اور افغانستان کی تقسیم کی تخریب کو عملی صورت دینے کی تاک میں تھے۔
امروز تاجکستان سے افغان سرزمین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، تاجکستان ان علاقائی و نسلی گروہوں کی مدد کررہا ہے۔ حتیٰ کہ تاجکستان سے امریکی ڈرون افغان سرزمین میں پرواز کرتے ہیں، ازبکستان سمیت ترکی کی سرزمین افغانستان کی وحدت اور سلامتی کیخلاف استعمال ہورہی ہے، یہ دو ممالک رشید دوستم اور ان کے لوگوں کے مسکن ہیں، امریکا یوکرین کا بھاری مالی و اسلحہ امداد کرچکا ہے مزید بھی کررہا ہے۔مگر افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے کی بجائے اسے معاشی مسائل میں دھکیلنے کی مکروہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور افغانستان بارے منفی عزائم کے اشارے دے رہا ہے۔
افغان حکومت داعش گروہ کے صفایا میں لگی ہے۔ اپریل سے اب تک افغانستان کے صوبہ ہرات، قندوز، بلخ ، ننگرہار اور کابل میں داعش خودکش حملے کراچکا ہے جس میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا اگر افغانستان میں شرارت پہل کی جاتی ہے تو یہ خطے اور دنیا کے لیے ایک اور امتحان کا پیش خیمہ بنے گا۔ پاکستان کے اندر دینی اور سیاسی جماعتوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو چاہیے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی شمال کے جتھوں کے عزائم کے خلاف سیاسی دباؤ ڈالے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر