وجود

... loading ...

وجود
وجود

معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا ہوا، امریکا

پیر 09 مئی 2022 معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا ہوا، امریکا

 

’’امریکا ایک بڑے معاشی بحران کا شکار ہونے سے فقط چند سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کرے گا کیوںکہ امریکا اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا، جب کہ امریکی برآمدات کی عالمی مانگ میں بھی آنے والے وقت میں زبردست کمی ہونے والی ہے۔ یوںجب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہو تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں قدر گرنا شروع ہوجائے گی۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکا میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائے گا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Power Parity) کا قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔‘‘ یہ الفاظ ریمنڈ ڈالیو، کے ہیں جو ایک ممتاز فنڈ منیجر اور ایک ارب ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے1001 امیر ترین افراد کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ریمنڈ ڈالیو نے امریکی ڈالر کے بحرانی کیفیت سے دوچار ہونے کی قبل ازوقت پیش گوئی 2008 میں کی تھی۔
واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی ریزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کرے گا۔ لیکن جب 1791 میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور امریکا نے’ ’ڈالر سونا تبادلے‘ ‘کا وعدہ ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا، کیوںکہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بنکوں میں رکھنازیادہ محفوظ تصور کیا ہے۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی مزید خطرہ باقی نہ رہا۔نیز دیوار برلن کے انہدام اورعالم گیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو مزید چار چاند لگا دیے۔لیکن گذشتہ دو عشروں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے، جب کہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکا کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ پھر یورپ نے بھی خود کو امریکا سے دُور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔
جرمن کے’’ڈوئچے بینک‘‘نے آئندہ برس امریکا میں کساد بازاری کی پیش گوئی کردی،اس کی وجہ امریکا کے فیڈرل ریزرو بینک کی طرف سے شرح سود میں اضافہ ہے جو اس نے مہنگائی سے نمٹنے کے لئے کیا ہے اور آئندہ بھی شرح سود میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا بینک ہے جس نے امریکی کساد بازاری کی پیش گوئی کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی مانیٹری پالیسی میں زیادہ جارحانہ سختی معیشت کو کساد بازاری کی طرف دھکیل دے گی۔فیڈرل ریزرو بینک نے تین سالوں میں پہلی بار شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا کو1982کے بعد سب سے زیادہ افراط زر کا سامنا ہے پالیسی سازوں نے مارچ میں شرحوں میں ایک چوتھائی فی صد اضافہ کیا، اب نصف فی صد کا اشارہ دیا ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے فیڈرل ریزرو بینک نے افراط زر میں اضافے کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت لمبا انتظار کیا ، سود کی شرحوں میں اضافے سے صارفین اور کاروباری قرضوں میں بلند شرحیں پیدا ہوتی ہے،جو آجروں کو اخراجات میں کمی کرنے پر مجبور کرکے معیشت کو سست کر دیتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی طرف سے مزید سختی سے کسادی بازاری شروع ہوجائے گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا میں آٹھ اعشاریہ چار فی صد تک افراط زر پہنچ چکا ہے جو چالیس سال بعد سب سے بلند شرح ہے۔ڈوئچے بینک نے خبردار کیا ہے کہ بے روزگاری کی شرح1950کی دہائی کی شرح پر آجائے گی اور فیڈرل ریزرو بینک کو 2023کے آخر اور2024کے اوائل میں امریکا میں ایک بڑی کساد بازاری کی توقع ہے اور حالات بہتر ہونے سے پہلے مزید خراب ہوں گے۔گولڈ مین سکس نے اگلے دوسالوں میں کساد بازاری کے امکانات کو35فی صد پر رکھا ہے۔ فیڈرل ریزرو بینک کا افراط زر کے حوالے سے ہدف چھ فی صد ہے جب کہ اس وقت ساڑھے آٹھ فی صد ہے۔ یعنی امریکی جی ڈی پی حیران کن حد تک سکڑ گئی جو امریکا کے لیے ایک بڑا اقتصادی ریڈ الرٹ ہے۔ امریکی معیشت 2020 کے بعد پہلی بار سکڑی ہے، اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک اعشاریہ چار فیصد گر گئی۔اس کی وجہ تجارتی توازن میں بگاڑہے، یعنی درآمدات میں زیادتی اور برآمدات میں کمی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے اس سال کساد بازاری کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
بعض ماہرین معاشیات کو بھی خدشات لاحق ہیں کہ امریکا میں بڑھتی ہوئی کساد بازاری عالمی درآمدی طلب کو کم کر دے گی اور بے شمار ممالک کی مالیاتی منڈیوں میں افراتفری کا باعث بنے گی۔کیونکہ اِس وقت امریکی کساد بازاری کا خطرہ اپنی آخری حد کو چھو رہا ہے۔دوسری جانب یہ بھی درست ہے کہ امریکی حکومت ہنگامی بنیادوں پر بڑھتے ہوئے افراط ِ زر کو کم کرنے نئی معاشی پالیسیاں متعارف کروانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ یہ پالیسیاں خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکیں گی اور ان کے نتیجے میں افراط زر کو کو کسی حدتک کم کرنے میں ضرور مدد مل سکتی ہے لیکن اس سے کساد بازاری کے خدشات بڑھ جائیں گے۔نیز امریکہ میں شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔ کیوں کہ سرمایہ کار امریکہ کے سرکاری اور کارپوریٹ بانڈز میں پیسہ لگانے کی جانب متوجہ ہوں گے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں امریکہ ان کی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ محفوظ ہے اور شرحِ سود میں اضافے سے ان کے منافع کی شرح بھی بڑھ جائے گی۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرمایہ کار غریب اور ترقی پذیر ممالک سے اپنا سرمایہ نکال کر امریکہ میں لگائیں گے۔ سرمائے کی اس منتقلی سے ترقی پزیر ممالک کی کرنسیوں کی قدر مزید گراوٹ کا شکار ہوجائے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر