وجود

... loading ...

وجود
وجود

مزاحمت

پیر 25 اپریل 2022 مزاحمت

عدنان عادل

 

مقتدرہ اور پیشہ ور سیاستدانوں کے اتحاد نے عمران خان سے جان چھڑوالی۔ انہیں وزارتِ عظمیٰ کی گدّی سے اُتار دیا۔ تاریخ ہے کہ پاکستان میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر آج تک کوئی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدّتِ حکومت پوری نہیں کرسکا۔ مقتدرہ اور بیرونی طاقتیں کسی مقبول رہنما کے قدم جمنے نہیں دیتی۔ جو لیڈر عوام میں زیادہ مقبول ہوتا ہے اسے تو بالکل برداشت نہیںکیا جاتا۔لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروادیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتروادیا۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ فی الحال جس طرح لاکھوں کی تعداد میں عوام رضاکارانہ طور پر عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ان کے جلسوں میں شریک ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت وہ عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ پشاور سے کراچی تک نسلی‘ لسانی تفریق کے بغیرلوگ اُن کی قیادت میں متحد ہوگئے ہیں۔ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد میں وقتی طور پرکامیاب ہوں یا نا کام لیکن انہوں نے پاکستان کے نسل اور فرقہ کی بنیاد پرمنقسم اور منتشر لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کر قوم بنا دیا ہے۔سامراج مخالف قوم پرستی کی زوردار لہر چل رہی ہے۔
بڑے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود عوام کی اکثریت نے عمران خان کے اچھے کاموں کو رجسٹر کیا ہے۔ ان کو وزیراعظم بننے پر ایک دیوالیہ معیشت ملی جو پچاس دہائیوں کی غلط پالیسیوں اور بے تحاشا بددیانتی کا حاصل تھی۔ زرمبادلہ کا شدید بحران تھا۔ ملک نادہندگی کے دہانے پر تھا۔ وہ ایک سال زر مبادلہ کے بندوبست کے لیے ملکوںملکوں جا کر قرض کا بندوبست کرتے رہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی کڑوی گولی نگلی۔ مالیاتی ادارہ کی شرائط ہمیشہ اتنی سخت ہوتی ہیں کہ حکومت ان پر عمل کرے تو عوام میں نامقبول ہوجاتی ہے۔ یہی عمران خان کے ساتھ ہوا۔ تاہم ابھی وہ سنبھلنے لگے تھے کہ کورونا وبا نے آن لیا۔ تقریبا دو سال حکومت کی توجہ اور وسائل کورونا وبا سے نپٹنے میں لگ گئے۔ کم سے کم دوہزار ارب روپے کورونا کے لیے بنائے گئے ایمرجنسی ہسپتالوں ‘ کیش امداد‘ مفت ویکسین پروگرام پر خرچ ہوئے اگر وہ ترقیاتی کاموں ‘ تعلیم‘ صحت اور فلاحی کاموں پر خرچ ہوتے۔ کورونا وبا سے پاکستان کو محفوظ رکھنا عمران خان کی حکومت کاتاریخی کارنامہ ہے ۔ ان کی ٹیم نے ملک کو بڑی مصیبت سے بچالیا۔ وباکے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت نے معیشت کو گرنے نہیں دیا۔صنعتی ترقی کی شرح بہت بڑھ گئی۔ ٹیکس وصولی بڑھ گئی۔ اسٹیٹ بینک کی اچھی پالیسیوں کے باعث ترسیلاتِ زر میں دس سے بارہ ارب ڈالر کااضافہ ہوا۔ برآمدات میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔ تجارتی خسارہ پہلے کی نسبت کم ہوا۔پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا۔ احساس کیش پروگرام سے ایک کروڑ لوگوں کو امداد ملتی رہی۔
عام لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ عمران خان نے اپنے حکومتی اختیارات کو دولت جمع کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان کی دو صوبوں اور مرکز میں حکومت تھی۔خیبر پختونخواہ میں ان کی پارٹی تقریبا ًنو برس سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران میں انہوں نے کوئی کارخانہ نہیں لگایا۔ نہ انہوں نے نہ اُن کے رشتے داروں نے۔انہوں نے کوئی نیا بنگلہ تعمیرنہیں کیا۔ ان کے بینک اکاونٹس میں اضافہ نہیں ہُوا۔ منی لانڈرنگ نہیں کی۔ بیرون ملک جائیدادنہیں بنائی۔ پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسران (خواہ ان کا تعلق کسی ادارہ سے ہو)کی اسیّ فیصد تعداد کرپٹ ہے۔ کچھ کم۔ کچھ زیادہ۔ وہ سرکاری حیثیت استعمال کرتے ہوئے مال کمانا جائز سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے اس بہتی گنگا میںہاتھ نہیں دھوئے۔ کرپشن پاکستان میں ایک مضبوط رشتہ ہے۔ اشرافیہ ایسے شخص کو حکمران دیکھنا چاہتی ہے جو خود بھی کھائے انہیں بھی کھلائے۔ عمران خان اس فریم ورک میں فٹ نہیں تھے۔گزشتہ چار برسوں میں کس طرح زرداری اور شریف خاندان کے افراد کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مضبوط مقدمے ٹھپ کروائے گئے یہ ایک لمبی داستان ہے ۔عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی کوشش کے باوجود مقدمے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ اور جن کے پاس طاقت تھی وہ کرپشن کو برائی نہیں سمجھتے۔ پاکستان ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں سیاست میں دولت کا استعمال بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔ شوگر مل مالکان اور شہری جائیداد کا کاروبار کرنے والوں کی سیاسی اہمیت خاصی زیادہ ہوگئی ہے۔ متحارب سیاسی خاندانوں اور طاقت کے مراکز کو جوڑنے میںپراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کا بہت کردار ہے۔
تاہم موجودہ سیاسی منظر نامہ میں جو سوال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا ہے یا مغربی سامراج کے ایک طفیلی‘ حاشیہ بردار ملک کے طور پر۔ قوم پرستی اور سامراج نوازی کا تضاد اہم ترین سیاسی ایشو بن کر اُبھرا ہے۔ مغربی سامراج چین اور روس کو پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں اپنی من پسند حکومت بنوانا چاہتا ہے جو چین سے بتدریج فاصلہ کرے ۔ رُوس سے پینگیں نہ بڑھائے۔ عمران خان کا دورہ ماسکو اور صدر پیوٹن سے ملاقات امریکی سامراج کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کی چھٹی کروانے کے لیے اس وقت کو منتخب کرنے کا ایک محرک یہ ہے کہ مقتدرہ کے اہم عہدوں پر تقرریاں ہونی ہیں۔ بیرونی دباؤ ہیں۔پاکستان میں قوم پرستوں اور مغربی سامراج کے ایجنٹوں کے درمیان لڑائی زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ سامراج نواز جبکہ نچلا متوسط طبقہ قوم پرست ہے۔ پاکستان میں لوئر مڈل کلاس اوراشرافیہ (مقتدرہ پلس پیشہ ور سیاستدان) کے درمیان کشمکش ہے۔ اقتدار اور سیاست پرچوہتر سال سے اشرافیہ کا قبضہ ہے۔غریب اور سفید پوش‘نچلا متوسط طبقہ دیوار سے لگا ہوا ہے۔ عمران خان نے ان تضادات کو نئی توانائی اور سمت دی ہے۔ ایک قیادت مہیا کردی ہے۔ عمران خان نئی نسل کے نمائندہ لیڈر ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ کا سائز پہلے کی نسبت خاصابڑا ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ نوجوان جنریشن’ زی‘ کہلاتے ہیں جو ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ملک میں اٹھارہ سال تک کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اب مین اسٹریم میڈیا بھی پہلے کی نسبت آزاد یا نیم آزاد ہے۔ کمیونی کیشن برق رفتار ہوگئی ہے۔ لوگوں کا جڑنا‘ رابطہ کاری‘ نیٹ ورکنگ آسان ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا وجود میں آچکا ہے جومتوسط طبقہ کی بڑی طاقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مزاحمت محدود تھی۔ عمران خان کو پنجاب ‘ خیبر پختونخواہ اور کراچی کی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی حمایت حاصل ہے۔ مزاحمت شدید ہوگی۔ بیرونی طاقتوں‘مقتدرہ اور پیشہ ور سیاستدانوں کے لیے ان کا مقابلہ کرناآسان نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر