وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل۔۔۔اپوزیشن کو مبارک ہو

اتوار 30 جنوری 2022 اسٹیٹ بینک ترمیمی بل۔۔۔اپوزیشن کو مبارک ہو

آصف محمود

یہ خبر تو آپ سن چکے ہوں گے کہ ا یک ووٹ کی اکثریت سے ا سٹیٹ بنک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور ہو گیا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کل سینیٹ میں حزب اختلاف کا کردار کیا رہا؟ پاکستان پیپلز پارٹی ’’ سلیکٹڈ‘‘ حکومت کا طعنہ دیتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جمہوریت کے غم میں دبلا اور ساتھ ساتھ پتلا ہونے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے۔ اس کو گمان ہے کہ جمہوریت کا پرچم اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے تھام رکھا ہے اور اگر وہ اپنے نازک ہاتھوں کو مزید زحمت نہ دے تو اس ملک میں جمہوریت کا کوئی مستقبل ہی نہیں۔جناب سید یوسف رضا گیلانی اسی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہیں۔ جب وہ سینیٹ کی نشست جیتے تو اسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ’’ ایجنٹ‘‘ کے خلاف ایوان کا اعلان عام قرار دیا گیا۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل جب سینیٹ میں ا سٹیٹ بنک ترمیمی بل پیش کیا گیا اور اس پر ووٹنگ ہو رہی تھی تو جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب غیر حاضر تھے۔اگلے چند دنوں میں جب ولی عہد جناب بلاول بھٹو قوم کو دکھ اور غم کی تصویر بنے بتا رہے ہوں گے کہ اس بل کے ذریعے حکومت نے قومی خود مختاری کا سودا کر دیا تو اس وقت آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ ولی عہد کی پارٹی نے اپنے سینیٹر کو غیر حاضر رکھ کر فصیل میں ریت بھری تھی تو شہرِ پناہ فتح ہوا تھا۔ جے یو آئی اس وقت جمہوریت کی ٹارزن بقلم خود ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جمہوریت کی بقاء کی خاطر مولانا نے وہ کام کیا جو رستم سے بھی نہ ہو گا۔ اس کے کارکنان زبان بکف پائے جاتے ہیں کہ جب ساری قوم اور احمق دانشوروں کو عمران خان ہو گیا تھا ، مولانا کی بصیرت اس وقت بھی شہر میں چراغاں کیے ہوئے تھی اور بتا رہی تھی کہ عمران خان کو ووٹ دینا تباہ کن ہو گا۔ ناراض محبتوں کی طرح یہ مولانا حضرات فیس بک پر شکوے اچھال رہے ہوتے ہیں کہ ملک جس حالت سے گزر رہا ہے یہ قبلہ مولانا کی بات نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ورنہ مولانا تو اپنی بصیرت سے دیوار کے ا س پار دیکھ چکے تھے اور بتا چکے تھے۔ان کا خیال ہے کہ اس وقت بھی اس حکومت کے سامنے اگر کوئی مرد قلندر کوہ ہمالیہ کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہے تو وہ مولانا ہیں۔ اس لیے اب ایم ایم اے یعنی مْلا ملٹری الائنس کے طعنے دیئے گئے۔جے یو آئی تو اپنے نورِ جمہوریت کے ہالے میں سرخرو ہے اور دمک رہی ہے۔
تو جناب کل جب سینیٹ میں ایک ووٹ سے حکومت نے بل منظور کروایا تو جے یو آئی کے سینیٹر قبلہ طلحہ محمود صاحب کہاں تھے؟اتنے اہم موقع پر وہ ووٹ ڈالنے کیوں نہ آئے؟ اے این پی بھی جمہوری اقدار کا اک مقامی ٹارزن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سچائی اور صداقت کی گٹھڑی اسی جماعت کے پاس ہے اور باقی تو سب کے سب ابن الوقتی کی سیاست کر رہے ہیں۔کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق کاسی نے ایوان میں آنے کے باوجود ووٹنگ کے وقت ادھر ادھر ہو جانا کیوں ضروری سمجھا؟ اے این پی کے سینیٹر صاحب کیا ایف سیون میں بنگالی کے سموسے کھانے چلے گئے تھے جو اس اہم ترین معاملے پر ووٹنگ میں غیر حاضر رہے؟ دل چسپ روایت یہ ہے کہ یہ صاحب پہلی گنتی میں موجود تھے۔ پہلی گنتی کے بعد جب معاملہ برابری پر ہوا اور چیئر مین سینیٹ کے ووٹ کی طرف بات بڑھنے لگی تو دوبارہ گنتی ہوئی۔ دوبارہ گنتی میں یہ صاحب غائب ہو گئے۔ اللہ خیر کرے ، معلوم نہیں ایسی کیا اشد ضرورت آن پڑی کہ ایوان بالا کے معزز رکن کو وہاں سے نکلنا پڑا۔ بد گمانی تو ہم رکھ نہیں سکتے کہ سارے اراکین اللہ کے فضل سے آئین کے مطابق سچے ہیں اور امانت دار ہیں اور باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی صاحب تو خیر اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ ان کے بس میں ہو تو معلوم انسانی تاریخ میں اپنے سوا ہر گروہ کو غلط ثابت کر دیں۔ان کے خیال میں دنیا کی ہر خوبی ان کی جماعت میں ہے اور ضمیر تو ان کی جماعت کی چوکھٹ سے اٹھتا ہی نہیں۔ چنانچہ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں ، ضمیر کے مطابق کرتے ہیں۔دروغ بر گردن راوی، ان کے سینیٹر سردار شفیق ترین بھی ووٹنگ میں شامل نہیں تھے۔شاید ضمیر نے بہت بے چین کر دیا ہو اور ضمیر کی آوا ز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے ووٹنگ کے عمل سے خوود کو دور رکھا ہو۔ مشاہد حسین سید صاحب کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔
وہ بھی اس اہم موقع پر غیر حاضر تھے۔مشاہد صاحب کو تو آپ کہہ سکتے ہیں کرونا تھاسینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ حکومت کے پاس 42 لوگ ہیں اور اپوزیشن کے پاس 57 افراد، اس کے باوجود حکومت اپنا بل سینیٹ سے پاس کروا لیتی ہے تو کیسے ؟ان ساری جماعتوں کے وابستگان اگر سوچنے اور سمجھنے کے تکلف سے بے نیاز ہونے کا آخری فیصلہ نہ کر چکے ہوں تو معاملہ تو واضح ہے کہ نورا کشتی ہو رہی تھی۔ ورنہ سینیٹر مشتاق احمد کے سوالات ایسے نہ تھے کہ نظر انداز کر دیے جاتے۔ سینیٹ قواعد کے مطابق چونکہ سینٹر مشتاق احمد صاحب کے سوالات اور ترامیم وصول کی جا چکی تھیں اور ریکارڈ کا حصہ بن چکی تھیں تو اب چیئر مین سینیٹ پر لازم تھا کہ قانون کے مطابق عمل کرتے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ جو شخص ترامیم تجویز کرتا ہے وہ اپنی ترامیم پر تقریر کا حق بھی رکھتا ہے ا ور اس کے بعد ایوان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان ترامیم پر جو بھی مناسب سمجھے فیصلہ کرلے۔ یہ سارا طریقہ پامال کر دیا گیا۔اس کی کیا وجہ ، کیا جواز اور کیا توجیح ہے۔ہو سکتا ہے معاملہ اتنا سنگین نہ ہو جتنا سینیٹر مشتاق احمد بتا رہے ہیں لیکن ان کو بولنے تو دیا جاتاکہ قوم پر اور ایوان پر صورت حال واضح ہو جاتی۔ بہر حال اپوزیشن کو مبارک ہو۔ فواد چودھری درست کہتے ہیں ، یہ سب اندر سے حکومت سے ملے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر