وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان بارے سید علی گیلانی کی تشویش

جمعه 28 جنوری 2022 بلوچستان بارے سید علی گیلانی کی تشویش

مانا کہ بلوچستان کے اندربگاڑ میں ہمسایہ ممالک دخیل ہیں۔ بھارت ، افغانستان اور ایران اور ان کے جاسوسی کے اداروں کی توجہ بلوچستان پر مرکوز رہی ہے اور ہے ۔ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد البتہ ایک باب بند ہو چکا ہے ۔ بھارتی ’’را‘‘ کے زیر دست سابقہ کابل رژیم کی ’’این ڈی ایس‘‘ ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ یقینا دور دراز کے دوسرے ممالک نے بھی کسی نہ کسی طور بلوچستان کو در پردہ اپنی پالیسیوں کا جز بنا رکھا ہے۔ چناں چہ اس امر میں بھی کلام نہیں کہ اس طویل خرابی و بگاڑ میں پاکستان کی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیاسی جماعتوں کی ترجیحات ، اغراض اور کوتاہیوں کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے و اقعات کے بعد خرابی مزید پھیل گئی ۔ نواب بگٹی کے ساتھ نواب اکبر خان بگٹی کی حیات میں سوئی میں تعینات خاتون ڈاکٹر شازیہ سے پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد بننے والی صورتحال کے حقائق خواہ جو بھی ہوں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ریاست کی جانب سے سنجیدگی و معا ملہ فہمی کا مظاہرہ نہ ہوا۔نواب بگٹی بات چیت یا مذاکرات سے قطعی گریزاں نہ تھے ۔ پرویز مشرف چاہتے تو نوبت تصادم کی نہ آتی ۔ چودھری شجاعت حسین، سید مشاہد حسین اور دوسروں کو اختیار دیا جاتا تو نواب اکبر خان بگٹی س کے ساتھ پیدا ہونے والی تلخیوں اور گیس ذخائر سے متعلق معاملات بھی خوش اسلوبی سے طے پا جاتے ۔26اگست2006ء ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے درمیان کے پہاڑی علاقے ’’ تراتانی‘‘ میںسانحہ عظیم پیش نہ آتا ۔جو ریاست پر بد نما داغ ہے۔ ما بعد قانون بھی ساکت رہا۔ نواب اکبر خان بگٹی کی میت کے ساتھ وہی ہوا ،جو بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد کیا۔وہاں مصر کے فوجی آمر جنرل سیسی نے منتخب صدر محمد المرسی کی میت کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ،جیل کے اسپتال میں غسل دینے اور نماز جنازہ پڑھانے کے بعد سخت پہرے میں دفنا دیا تھا ۔
بعینہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کے جسد خاکی کے ساتھ کیا ، کھڑے فوجی پہرے میں سنگین کے زور پر میت لے جاکر دفنائی گئی ۔خاندان کے کسی فرد کو تدفین میں شریک ہونے نہ دیا گیا۔بلوچستان کے حالات کے کئی عوامل ہیں۔ مگر ماننا پڑے گا کہ’’ تراتانی‘‘ غار کے المناک سانحہ کے بعد نفرت کی فضاء بنی، شدت پسندی کو فروغ ملا ہے۔ پرویز مشرف حکمرانی کا نشہ پورا کرکے چلے گئے جبکہ بلوچستان آج بھی سلگ رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ صوبے کے کسی گو شہ میں میں ایف سی ،فوج اور دوسری فورسز کے جوان بم حملوں کا نشانہ نہ بنتے ہوں، مزدور نہ مارے جاتے ہوں،کوئی فرد لاپتہ نہ ہو تا ہو،تنصیبات نشانہ نہ بنتی ہوں۔ پرویز مشرف طاقت اور اقتدار کے نشہ میں کوئی رائے اور احسن تدبیر قبول کرنے کو تیار نہ تھے ۔ وہ بلوچستان اور نواب اکبر خان بگٹی مسئلہ بارے مقبوضہ کشمیر کے سید علی گیلانی کو بھی حقارت سے دیکھتے، بلکہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا تھا۔ سید علی گیلانی مرحوم کوبلوچستان کے حالات پر گہری تشویش تھی۔سید علی گیلانی مرحوم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے مؤثر اور مد بر آواز تھے۔جس کی پاداش میں بھارت کے ظلم و جبر کا کونسا حربہ تھا جو اس ولی کامل نے برداشت نہ کیا ۔ دوران اسیری بد ترین تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ گویا پوری زندگی اسیری اور نظر بندی اور طرح طرح کی صعو بتیں جھیلنے میں بسر کردی ۔اور ان اذیتوں ہی میں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ یہاں تک کہ میت بھی کرفیو کے دوران بھارتی فورسز گھر میں گھس کر زبردستی تدفین کے لیے لے گئیں۔ سید علی گیلانی کو نواب اکبر خان بگٹی کی موت سے قبل کے حالات پر متفکر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اپریل2005ء کو پرویز مشرف بطور صدر پاکستان کا نئی دہلی کے دورے سے قبل نئی دہلی میں مقیم پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر منور سعید بھٹی کے ذریعے سید علی گیلانی مرحوم کو بلواسطہ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ گیلانی صاحب، پرویز مشرف سے ملاقات میں بلوچستان کی صورتحال پر بات نہ کریں۔ اس کے علی الرغم سید گیلانی نے بلوچستان بارے اپنی تشویش کا اظہار کر ہی دیا اور مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرلی ۔ جنرل مشرف نے ملاقات میں سید علی گیلانی کو مخاطب کیا کہ آپ بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں، آپ کو وہاں کی صورتحال کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اور آپ بلوچستان کی فکر کرنا ترک کردیں۔ گیلانی صاحب نے جواب دیا کہ کشمیر کاز پاکستان کی بقاء سے منسلک ہے اس کی جغرافیائی سلامتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ہم کو فکر ہے آپ ( پرویز مشرف) اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں۔ گیلانی صاحب نے پرویز مشرف کی افغان پالیسی پر بھی تنقید کی ۔ گیلانی صاحب مرحوم بلوچستان کے حالات بارے بیانات دیتے ،خاص کر نواب اکبر بگٹی کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کا مشورہ دیتے۔بعدازاں’’ تراتانی‘‘ غار سانحہ پر گیلانی صاحب بہت خفا و مضطرب ہوئے تھے ۔بلاشبہ بلوچستان بھاری نقصان اٹھا چکا ہے۔سیاسی فضا اب بھی ہموار نہیں ہے۔نتیجہ خیز پیشرفت دکھائی نہیں دیتی ۔البتہ نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے ساتھ بنائو کے آثار محسوس ہو رہے ہیں ۔
20جنوری کو لاہور کے انار کلی میں بم دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ ذمہ داری بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے)نے تسلیم کرلی ہے ، جو کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی سے الگ ہونے والے افراد پر مشتمل نئی تنظیم ہے ۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی ایوان بالا کے 24جنوری کے اجلاس میں بتایا کہ یہ تنظیم11جنوری 2022ء کو وجود میںآئی ہے۔بلوچ شدت پسند تنظیمیں ماضی میں لاہور اور اسلام آباد سمیت بلوچستان سے ملحقہ پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد ، کشمور اور راجن پور میں حملے کرچکی ہیں۔ براہمداغ بگٹی نے یہ کہہ کر واقعہ کی مذمت کرلی ہے کہ’’ سویلین اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت ہے ۔ ہم بلوچ بھی سالوں سے اس طرح کے حملوں کے متاثر ین ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس طرز کے غیر انسانی عمل کا کوئی جواز نہیں‘‘ ۔ براہمداغ بگٹی بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ ہیں ۔ بلوچ ری پبلکن آرمی ( بی آر اے ) کی قیادت بھی ان سے منسوب ہے۔ اس گروہ نے اپنے وسائل اور بساط کے مطابق فورسز ، قومی تنصیبات اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔جس کی تخریب و دہشتگردی اور قتل کے واقعات کی تفصیل ہوش ربا ہے ۔بہر حال امن مقدم ہے، ریاست اگر بات چیت میں کامیاب ہوتی ہے تو اس صوبے کی سیاست اور حالات پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر یاد رہے کہ یہ محض براہمداغ بگٹی ، بختیار ڈومکی تک محدود نہیں ر ہنا چاہیے ۔یقینی طور اس کا دائرہ دوسرے بلو چ رہنمائوں ، جنگی کمانڈروں اور خان آف قلات میر سلیمان دائود تک پھیلا ئے بغیر مقاصد حاصل نہ ہوں گے ۔پیش ازیں صوبے سے ہونے والی زیادتیوں کا تدارک ہو۔ حال یہ ہے کہ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر پنجاب اور دوسرے علاقوں کے سینکڑوں لوگوں نے ملازمتیں حاصل کررکھی ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں میں اس بارے احتجاج ہوا ہے، قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ تو باقی زیر زمین معدنی وسائل اور ساحلوں پر صوبے کے عوام کے حقوق کیسے محفوظ ہوں گے۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے چیف سیکریٹری اس راہ میں حال ہوتے ہیں۔ جنہیں صوبے کے اندر ’’ وائس رائے‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔وفاق سے آنے والے بیورو کریٹس بھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے کوٹہ پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بھرتیوں کا راستہ روکا جائے کیونکہ وہ اپنے عزیز و اقارب کو اس جعلسازی کے ذریعے نوازتے ہیں۔ گویامقتدرہ کی ترجیحات صوبے کے عوام کے مفادا ت کے برعکس ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے اہم اور معتبر منصب پر بٹھانا کیا ارباب حل و عقل کی نیت کا کھلااظہار نہیں ہے؟ ایسے میں کسی بھی نقصان اور ناکامیوں کے ذمے دار حکومتی ٹولے سمیت کیایہ سب نہیں ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر