وجود

... loading ...

وجود
وجود

بیرونی عطیات اور شفافیت کے تقاضے

هفته 08 جنوری 2022 بیرونی عطیات اور شفافیت کے تقاضے

حکمران جماعت بحرانوں کی زد میں ہے حکومتی کارکردگی کو اچھی تو ایک طرف تسلی بخش بھی نہیں کہہ سکتے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جماعت درپیش بحرانوںکا سامنا کیسے کرتی ہے خیبر پختونخواہ کااِس جماعت کو ملک گیراورمقبول بنانے میں اہم کردار ہے مگراِس جماعت کی وہاں بننے والی صوبائی حکومت کی دوسری مدت ختم ہونے سے قبل ہی بیزاری کے آثار نمایاں ہیں جس کا بلدیاتی انتخاب میں ٹھیک ٹھاک اظہار ہوچکا حکومتی حلقے تو کہتے ہیں کہ ہمارے امیدواروں کی شکست کی بڑی وجہ دراصل جماعت کی طرف سے غلط ٹکٹ بنے یوں پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہونے کی وجہ سے ہی اپوزیشن امیدواروں کی جیت کا سامان ہوا مگر یہ بات مکمل طورپر درست نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ ٹکٹ جاری کرتے ہوئے خاصی لاپرواہی اور اقرباپروری کامظاہرہ کیا گیا مگر شکست کی ایک اور بڑی وجہ مہنگائی اور وعدوں کی عدم پاسداری ہے جس سے ووٹر بدظن ہوئے اور حکومتی جماعت کو شکست کا منہ دیکھنا پڑابات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلدیاتی نتائج کے بعد اِس صوبے میں جماعت کے اندر بھونچال کی کیفیت ہے ڈسپلن نام کونہیں اورتنظیمی ڈھانچے کی حالت ناگفتہ بہ ہے کئی علاقوں میں جماعت کے اندر بغاوت ہے تنظیمیں تحلیل کرنے سے صوبائی تنظیم کا بحران ختم ہوتا ہے یا نہیںاِس سوال کا جواب جاننے کے لیے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کاانتظار کرنا پڑے گا۔
بیرونی عطیات کے بارے میں الیکشن کمیشن کے پاس 2014 سے جاری کیس کے متعلق جانچ پٹرتال کی سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کو ملنے والے عطیات بارے جمع کرائی گئی تفصیلات جامع نہیں 2008 ۱ور2009کے دوران 77اکائونٹس میں سے اِس جماعت نے صرف بارہ ظاہر کیے اور باقی پوشیدہ رکھے اسی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت نے پانچ برس کے دوران بتیس کروڑ کی رقم چھپائی علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی 2012اور2013کی رپورٹ پر کوئی تاریخ ہی درج نہیں جو حساب کتاب کے وضع کردہ اصول و معیارات کی کُھلی خلاف ورزی ہے یہ غلطیاں معمولی نہیں بادی النظرمیںکافی سنگین ہیں اور جماعت کو درپیش دیگر بحرانوں سے ذیادہ سخت بحران کی جانب اشارہ کرتی ہیں اب یہ تو حکمران جماعت کے اکابرین کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے قانونی موشگافیوں کا سہارہ لیکر نقصان کی شدت ختم یا کم کرنے میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں مگر سکروٹنی کمیٹی کی طرف سے عائد کیے الزامات کو نظر انداز کرنے یا یا بیان بازی کے زریعے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو جماعت کے کالعدم ہونے کا امکان کلی طور پر رَد نہیں کیا جا سکتا ۔
بیرونی عطیات کے حوالے سے دو پہلو اہم ہیں اول تفصیلات چھپانے کی وجہ ، آیا سیاسی جماعت کو موصول ہونے والے عطیات کے ذرائع درست تھے تو چھپانے کی نوبت کیوں آئی ؟دوم کیا ذرائع اور طریقہ کار غیرقانونی تھے اسی لیے دانستہ طور پر چھپایا گیاجو بھی ہے بہتر جواب تحریکِ انصاف کی قیادت ہی دے سکتی ہے صرف تحریکِ انصاف کوہی بیرونِ ملک سے عطیات نہیں ملتے بلکہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر بھی کئی جماعتوں کو عطیات ملتے ہیں جمعیت علمائے پاکستان کے مدارس کاذیادہ انحصار بھی بیرونی عطیات پرہے جس کی وجہ سیاسی جماعتوں کی دیگر ممالک میں بنائی تنظیمیں اور حکومتوں سے تعلقات ہیں کئی ملکوں کی حکومتیں اپنی حامی جماعتوں کی فراخ دلی سے مالی مدد کرتی ہیں بیرون ملک میں قائم سیاسی تنظیمیںانتخابات میں فعال کردار ادا کرتیں اور ذرائع ابلاغ میں جماعتی منشور کی تشہیر کے علاوہ بھی بوقت ضرورت اپنی جماعتوں کی مالی مدد کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں سے الگ سلسلہ ہے اِس جماعت کا سیاست کے علاوہ کئی فلاحی اِداروں سے بھی تعلق ہے جن کا دارومدار ہی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے ملنے والے عطیات پر ہے اسی لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے ذیادہ اِس جماعت کو عطیات ملتے ہیں مگر بطور سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر عمران خان نے اپنی زمہ داریاں پوری کی ہیں یا نہیں الیکشن کمیشن کی ا سکروٹنی کمیٹی نے چھپے کئی راز طشت ازبام کر دیے ہیں جن پر الیکشن کمیشن نے فرائض کی روشنی میں اب فیصلہ کرناہے وزیرِ مملکت فرخ حبیب نے تما م بینک اکائونٹ ڈکلیئرڈ اور ملنے والے ڈالروں کا حساب موجود ہونے کی بات کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی مالی معاونت کرتی ہے انھوں نے نیوزی لینڈ میں پارٹی کے لوگوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جو پیسہ پاکستان آیا ہی نہیں اُس کا کیا جواب دیں مگرشاید انھیں یہ یاد نہیں رہا کہ نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ کی عدم وصولی کے باوجود نااہل کردیا گیا حکمران جماعت کے پاس بیرونی عطیات کے حوالے سے جواب دینے اور شفافیت کے تقاضے پورے کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں اگر الیکشن کمیشن کو مطمئن نہیں کیا جاتا اور ساری توجہ بیان بازی پر ہی دی جاتی ہے توبحثیت جماعت تحیریکِ انصاف کوبحرحل نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پرویز مشرف کے دور 2002 میں بنائے سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں سیاسی جماعتوں کے انتخابات،ڈھانچے ،سرگرمیوں اور عطیات کی مکمل وضاحت ہے اِ ن رہنما اصولوں کے مطابق سیاست میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر مالی سال کے اختتام پرساٹھ دنوں کے اندراندر بینک اکائونٹس کی ایسی آڈٹ شدہ تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائیں جن میںپورے سال کی آمدن ،خرچ،موصول شدہ عطیات کے زرائع سمیت واجبات کی مکمل تفصیل ہو علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا پڑتا ہے جس میں جمع کرائی تفصیلات کے درست ہونے کا اقرار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ کوئی عطیہ کسی ممنوعہ زرائع سے وصول نہیں کیا گیا پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے آرٹیکل پندرہ میں غیرملکی عطیات سے بنائی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کے طریقہ کار کی مکمل وضاحت ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کے اقدام کو اگرسپریم کورٹ درست سمجھے تو سیاسی جماعت تحلیل ہو جائے گی عمران خان جو اپنے سواتمام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے ہیں مگراب شفافیت کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے بیرونی عطیات کی تفصیلات پیش کرنے میں اُن کا پس و پیش سے کام لینا ظاہر کرتا ہے کہ پوچھے سوالات کے حکومتی جماعت کے پاس جوابات نہیں ۔
اکبر ایس بابر تحریک ِ انصاف کے بانی رہنمائوں میں سے ایک ہیں خیر اُن کا اختلاف کی وجہ سے اب جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اپوزیشن رہنمائوں سے ذیادہ پی ٹی آئی کے بڑے ناقد ہیں کا موقف ہے کہ کوئی کمپنی سیاسی جماعت کو عطیہ نہیں دے سکتی مگر ووٹن کرکٹ لمٹیڈنے پی ٹی آئی کو دوملین ڈالرکیوں دیے؟اس سوال کا جواب جاننا اہم ہے وال سٹریٹ جنرل کے صحافی سائمن کارک نے اپنی لکھی کتاب میں ووٹن کرکٹ لمٹیڈ کاعارف نقوی اور ابراج گروپ سے تعلق بتایا ہے امریکا میں عارف نقوی پر ایک بلین ڈالر ز کی بے قاعدگی کا کیس چل رہاہے وہی عارف نقوی جو عمران خان کی اکنامک ایڈوائزری ٹیم کا حصہ رہے اور اب جن کے پارٹنربھی وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیںگرفتاری کے وقت عارف نقوی نے پہلے رابطے کے طور پربھی عمران خان کاہی نمبر دیا اکبر ایس بابر تو دھرنے میں بھی
بیرونی عطیات استعمال ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں اب شفافیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پوچھے سوالات کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار نہ کی جائے کیونکہ سیاستدنوں اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاںقانون اور قاعدے کے مطابق بنانے سے ہی پاکستان کا جمہوری عمل مستحکم ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر