وجود

... loading ...

وجود
وجود

شہریت ترمیمی قانون اور حکومت کی ہٹ دھرمی

پیر 03 جنوری 2022 شہریت ترمیمی قانون اور حکومت کی ہٹ دھرمی

 

جمہوریت کا سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ اس میں عوامی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے جمہوری نظام کو عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے اور عوام کی طرف سے چلایا جانے والا نظام بھی کہا جاتا ہے، مگر موجودہ نظام حکومت میں ہمیں جن تجربات سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس میں رائے عامہ اورعوامی مفادات کو پوری طرح پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔موجودہ حکومت پوری طرح غیرجمہوری طریقوں پرچل رہی ہے۔اس کی ایک دو نہیں، کئی مثالیں موجود ہیں۔ مرکزی حکومت مسلسل عوامی مفادات کے خلاف قانون بنارہی ہے اور جو لوگ عوام دشمن قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، انھیں انتقامی سیاست کا شکار بنایا جارہا ہے۔اس کا سب سے بڑاثبوت شہریت ترمیمی قانون ہے، جس کے معاملے میں حکومت نے ہٹ دھرمی کا رویہ اختیارکررکھا ہے۔یہ خبر ان لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے، جو گزشتہ دوسال سے مذہبی تفریق پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاجی مہم چلارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے اترپردیش سمیت پانچ اسمبلی انتخابات سے پہلے اس قانون کے تعلق سے ایک بڑا داؤ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں سی اے اے نافذ کرنے جارہی ہے۔
2020 میں زبردست مزاحمت کے درمیان بنایا گیا یہ متنازع قانون ابھی نافذ نہیں ہوپایا ہے کیونکہ ابھی تک اس کے ضابطے نہیں طے ہوپائے ہیں۔لیکن اب اس کام کے لیے 10 جنوری کی حتمی تاریخ مقرر کردی گئی ہے۔ حکومت پر اس معاملے میں آرایس ایس کا شدید دباؤ ہے اور وہ چاہتی ہے کہ یو پی اسمبلی انتخابات سے پہلے اس قانون کو پوری طاقت کے ساتھ نافذ کردیا جائے۔ اس طرح یوپی اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے ایک اور فرقہ وارانہ موضوع حکمراں بی جے پی کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اب یہ بات بھی طے ہوگئی ہے کہ جو لوگ زرعی قوانین کی واپسی کی طرز پر سی اے اے کی واپسی کی آس لگائے بیٹھے تھے، انھیں اب مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔سبھی جانتے ہیں کہ سی اے اے کے خلاف ملک گیرسطح پرچلائی گئی تحریک اس ملک میں اپنی نوعیت کی انوکھی تحریک تھی، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے گئے۔اس تحریک کی مقبولیت اوروسعت کو دیکھ کریوں لگتا تھا کہ حکومت عوامی مطالبات کے سامنے ہتھیارڈال دے گی، لیکن اس تحریک کا تعلق چونکہ براہ راست مسلمانوں سے تھا اور ان ہی پر اس قانون کی ضرب بھی پڑے گی، لہٰذا حکومت نے اس کی واپسی کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے اسے سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی فیصلہ کیا ہے۔ اب اس قانون کو اترپردیش کے چناؤ میں ایک اہم موضوع کے طورپر پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ،تاکہ موجودہ حکومت کا فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف ایجنڈا پروان چڑھ سکے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوری کے پہلے ہفتہ میں ان’شرنارتھیوں‘کو شہریت ترمیمی قانون نافذ ہونے کا تحفہ مل سکتا ہے، جو برسوں سے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا انتظارکررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوپی سمیت پانچ صوبوں کے انتخابات کے پیش نظر آرایس ایس مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہندوؤں،سکھوں، جینیوں،بودھوں، پارسیوں اور عیسائیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ سرکار نے آرایس ایس قیادت کو پورا بھروسہ دلایا ہے کہ اب اس سلسلہ میں 10جنوری کی جو تاریخ طے کی گئی ہے اس کو آگے نہیں بڑھایا جائے گااور اس سے پہلے ہی ضابطے بناکر سی اے اے کو نافذ کردیا جائے گا۔حکومت کا خیال ہے کہ پڑوسی مسلم ملکوں میں رہ رہی اقلیتوں کے ساتھ’بھیدبھاؤ‘کیا جاتا ہے اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، لہٰذا انھیں ہندوستانی شہریت دے کر اس ظلم سے نجات دلائی جائے جس کا وہ برسوں سے شکار رہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ خود ہمارے اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کا کیا حال ہے اور بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کس طرح ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت پڑوس کے مسلم ملکوں میں رہنے والی اقلیتوں کے حال پر خون کے آنسو بہارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی سرکار حکمرانی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پہلے خود اپنے ملک کی اقلیتوں کی خبر گیری کرتی اور انھیں ظلم وستم سے نجات دلاتی،لیکن اس کی بجائے اس نے پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کی خبرگیری کوفوقیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پڑوسی ملکوں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں کی اقلیتوں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر’بھیدبھاؤ‘ کرتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہاں کی حکومتیں ان سے سختی کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے دنوں جب بعض شرپسندوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مندروں کو نشانہ بنایا تو وہاں کی حکومتیں فوراً حرکت میں آئیں۔ نہ صرف یہ کہ ملزمان کی فوری گرفتاری عمل میں آئی بلکہ ان سے نقصان کا معاوضہ بھی وصول کیا گیا۔جن شرپسند وں نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مندروں کو نشانہ بنایا تھا، وہ اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرنے یا انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے ساتھ اتنی نرمی برتی جاتی ہے کہ وہ بار بار اسی گناہ کو دہراتے ہیں۔حکومت کے اسی نرم رویے کااثر ہے کہ اب یہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلیں جاری کی جارہی ہیں اور کھلے عام ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔حال ہی میں ہری دوار کی نام نہاد دھرم سنسد میں جو کچھ ہوا ہے، اس نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں، لیکن حکومت اور اس کی مشنری اب بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔اس کے برعکس اقلیتی فرقہ کے لوگ اگر اپنے جائز دستوری مطالبات پر زور دینے کے لیے کہیں اکٹھا بھی ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت سی اے اے تحریک میں پیش پیش رہنے والے وہ سماجی کارکنان ہیں، جنھیں حکومت نے دہشت گردی مخالف قانون ’یو اے پی اے‘کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رکھا ہے اور ان کی ضمانتیں بھی نہیں ہوپارہی ہیں۔ان میں سے بیشتر کو نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کی سازش رچنے کا ملزم گردانا گیا ہے۔
دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے مخالف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سرکاری مشنری نے یہ سلوک اس لیے کیا کہ وہ مستقبل میں ایسی ہمت ہی نہ کرسکیں۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھلی تفریق برتنے والی ایک غیردستوری ترمیم کے خلاف پرامن احتجاج کررہے تھے،جس کا حق انھیں دستور نے دیا ہے۔ مگر حکومت کی مشنری نے ان کے حوصلوں کو کچلنے کا کام کیا۔ اس درمیان کورونا وبا پھیل جانے کے سبب اس تحریک کو موخر کردیا گیا، لیکن تحریک چلانے والوں کا کہنا تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد وہ اس کا احیاء کریں گے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے دوران وزیرداخلہ امت شاہ نے اعلان کیا تھاکہ ملک بھر میں ٹیکہ کاری مکمل ہونے کے بعد سی اے اے نافذ کردیا جائے گا۔ لہٰذا اب اس کی تیاری پوری کرلی گئی ہے اور اس کی حتمی تاریخ 10جنوری مقرر کی گئی ہے۔واضح رہے کہ کسی قانون کے وجود میں آنے کے بعد اس کے ضابطے چھ مہینے کے اندر شائع ہوجانے چاہئے تاکہ اس قانون پر عمل آوری ہوسکے۔ سی اے اے پارلیمنٹ سے11/دسمبر 2019کو پاس ہوا تھا۔ اس کا آرڈی نینس 10/ جنوری 2020کو نافذ ہوا، لیکن اس کے ضابطے نہیں طے کیے جاسکے۔ضابطے طے کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے پہلے اکتوبر 2020، پھر فروری2021اوربعد میں مئی 2021 تک توسیع طلب کی۔ اب حکومت کے سامنے 10/جنوری 2022کی ڈیڈ لائن ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرکزمزید توسیع نہیں طلب کرے گا۔ اس طرح ملک میں ایک ایسا قانون نافذ ہوجائے گا جو پڑوسی ملکوں کے سبھی غیر مسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا حق فراہم کرے گا، مسلمان اس سہولت سے محض اس لیے محروم رہیں گے کہ وہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر