وجود

... loading ...

وجود
وجود

بابری مسجد کا فیصلہ اور جسٹس گوگوئی

منگل 14 دسمبر 2021 بابری مسجد کا فیصلہ اور جسٹس گوگوئی

(مہمان کالم)

معصوم مرادآبادی

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اعترا ف کیا ہے کہ انھوں نے ایودھیا تنازعہ کا فیصلہ سنانے کے فوراً بعد اپنی پسندیدہ شرابپی تھی۔انھوں نے اس کا اعتراف اپنی آپ بیتی میں کیا ہے، جو حال ہی میں منظرعام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے ایودھیا فیصلے سے متعلق کئی اور باتیں بھی کہی ہیں، لیکن سب سے زیادہ اعتراض ان کے اس بیان پر ہی ہورہا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جسٹس گوگوئی نے جس قسم کا فیصلہ سنایا تھا، اس کے بعد ان کا ہوش میں رہنا ان کی صحت کے لیے مضر ہوسکتا تھا۔ اس لیے انھوں نیمدہوش ہونا زیادہ مناسب سمجھا۔
ظاہرہے ایسے فیصلے‘ جن سے دوسروں کے مذہبی جذبات چھلنی ہوتے ہوں، انسان کے ہوش وحواس کو برقرار نہیں رکھتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جسٹس گوگوئی نے اپنے اس انتہائی متنازعہ فیصلے کے بارے میں یہ لن ترانی بھی کی ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا بھر کے مذہبی گروہوں میں مذہبی تصادموں کوپْرامن اور منصفانہ طریقہ سے سلجھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنے اس فیصلے کوتاریخ انسانی میں عدالتی قربانی کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ایودھیا تنازعہ پر ان کے فیصلے کی روشنی میں دنیا میں مذہبی ٹکراؤ کو منصفانہ طورپر حل کرنے کی امیدکب او کہاں پیدا ہوئی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے اس فیصلے سے تحریک پاکر فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے ہیں اور مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک نے زور پکڑلیا ہے، جو اس ملک میں امن وامان اور سلامتی کے لیے خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے۔اس کی تازہ مثال متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف فرقہ پرستوں کی حالیہ شرانگیزی ہے۔
اپنی آپ بیتی میں جسٹس گوگوئی نے سب سے زیادہ وضاحت ایودھیا تنازعہ پر دئیے اپنے فیصلے پر ہی کی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے پیچھے ’روحانی طاقت‘کارفرماتھی۔ فیصلہ سنانے کے بعد وہ اپنی بنچ کے سارے ججوں کو لے کر نئی دہلی کے تاج مان سنگھ ہوٹل میں گئے اور وہاں انھوں نے کھانے کے بعد اپنی پسند کی سب سے عمدہ شراب حلق میں انڈیلی۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کون سی روحانی طاقت تھی جو انھیں فیصلہ کے بعد شراب خانے لے گئی۔شراب پینا کسی بھی شخص کاذاتی فعل ہے اور جسٹس گوگوئی جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں شراب حرام نہیں ہے۔ہاں اسلام میں ضرور اسے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے ہمیں ان کے اس عمل پرکوئی اعتراض نہیں ہے، ہاں اس بات پر ضرور اعتراض ہے کہ انھوں نے 500سال پرانی مسجد پر مندر بنانے کا فیصلہ اپنے پورے ہوش وہواس کے ساتھ سنانے کے باوجود اپنے ہوش کھونا کیوں ضرور گردانا؟دنیا جانتی ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر ان کا فیصلہ ایک یقینا جانبدارانہ فیصلہ تھا۔ کیونکہ انھوں نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی مظلومیت کا اعتراف کرنے کے باوجود فیصلہ مندرکے حق میں سنایا۔یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت مٹانے کے خواب دیکھنے والی طاقتوں دوبارہ سے سرگرم ہوگئیں۔اس کی تازہ مثال متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف شرپسندوں کی محاذآرائی ہے۔
آپ نے دیکھا کہ گزشتہ6دسمبر کوجس وقت ملک بھرمیں بابری مسجد کا یوم شہادت منایا جارہا تھا، اسی وقت متھرا کی شاہی عیدگاہ میں شرپسند عناصر اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے تھے۔انھوں نے یہاں بھی اسی طرز پر مورتی نصب کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ بابری مسجد میں کی گئی تھی۔اس کوشش کا واحد مقصد یہ تھا کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کو بھی اسی طرح متنازعہ بنایا جائے جس طرح ایودھیا کی بابری مسجد کو بنایا گیا تھا۔حالانکہ انتظامیہ اور پولیس نے سخت حفاظتی بندوبست کرکے اس کوشش کو فی الحال ناکام بنادیاہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی جنھوں نے متھرا کے امن وامان کو غارت کرنے کی کوشش کی اور ایک فرقہ کی عبادت گاہ کو ناپاک کرنا چاہا۔شاہی عیدگاہ میں کرشن بھگوان کی مورتی نصب کرنے کاپروگرام چونکہ بابری مسجد کی شہادت کے دن رکھا گیا تھا،اس لیے پولیس اور انتظامیہ نے اس پر خاص نظر رکھی۔قابل غور بات یہ ہے کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملے میں گھی ڈالنے کاکام خود ریاست کے نائب وزیراعلیٰ کیشوناتھ موریہ نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ’’ایودھیا میں مندر کی تیاری ہے اور اب متھرا کی باری ہے۔‘‘یعنی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد متھرا کی شاہی عید گاہ کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو بابری مسجد کے ساتھ ہوا تھا۔
یہ ایک ایسے شخص کا بیان تھا جس نے آئین کا حلف اٹھاکر نائب وزیراعلیٰ کی کرسی حاصل کی ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ یہ قانون ایودھیا جیسے مزید تنازعات کو پیدا نہ ہونے کے خطرات کو ٹالنے کے لیے نرسمہا راؤ کے دور حکومت میں 1991میں بنایا گیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر ٹرسٹ کو سونپی تھی تو اس وقت آرایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے یہ کہا تھا کہ اب ملک میں ایودھیا جیسا کوئی دوسرا تنازعہ پیدا نہیں ہوگااور اس سلسلے کو یہیں ختم کیا جاتا ہے۔مگر فسطائیت کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ وہ زبان سے جوکچھ کہتی ہے اس کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔
یو پی کے نائب وزیراعلیٰ کیشوناتھ موریہ کی طرف سے متھرا کی شاہی عیدگاہ کا مسئلہ اٹھانا کوئی اتفاقی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بی جے پی کی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے اور وہ اس کے ذریعہ وہ یو پی اسمبلی کے انتخابات میں ہندو رائے دہندگان کو راغب کرنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کیشو ناتھ موریہ کے بیان کے بعد متھرا کی عیدگاہ پر راجیہ سبھا میں بھی ایک بی جے پی ممبر نے سوال کھڑا کیا۔بی جے پی ممبرپارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ نے کہا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ ۱۹۹۱ کوواپس لیا جائے۔ اس سوال کو راجیہ سبھا میں پوچھنے کی اجازت کے معاملے میں کافی ہنگامہ بھی ہوا۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ تاریخی مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک دراصل ہندوستان سے مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔یہ تحریک صرف مسجدوں کا نام ونشان مٹانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس ملک میں مسلم تہذیب کی جتنی بھی نشانیاں ہیں، وہ اس وقت خطرے میں ہیں۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دور اقتدار کی سب سے بڑی حصولیابی یہی ہے کہ انھوں نے اپنی ریاست میں مسلمانوں کو بالکل حاشئے پر پہنچادیا ہے۔انھوں نے کئی ایسے شہروں کے نام تبدیل کردئیے ہیں جو مسلم ناموں سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔ مزید کئی شہروں کے نام ابھی تبدیل کئے جانے ہیں، جن میں اعظم گڑھ، علی گڑھ اور سلطان پور جیسے شہر بھی شامل ہیں۔
بی جے پی لاکھ اس بات کا دعویٰ کرے کہ وہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے ایجنڈے پر گامزن ہے، لیکن درحقیقت وہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرکے یہاں ہندو راشٹر بنانے کی راہ میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم شناختوں پر پے درپے حملے کئے جارہے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کا وجود مٹانے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔شرپسندوں کا سب سے بڑا نشانہ وہ تاریخی عمارتیں ہیں جنھیں ملک کے مختلف حصوں میں مسلم بادشاہوں نے تعمیر کرایا تھا۔حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد قوت الاسلام کے اندرمورتی رکھنے اور وہاں پوجا پاٹ کی اجازت دینے سے متعلق عرضی خارج کی ہے۔اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ مسجد قوت الاسلام کو جین اورہندو مندروں کے ملبے پر بنایا گیا ہے، لہٰذا یہاں پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے۔ درخواست گزاروں کا دعویٰ تھا کہ محمدغوری کی فوج نے قطب مینار کمپلیکس کے اندر۲۷جین اور ہندو مندروں کو مسمار کردیا تھااور ان کے ملبے پر قطب مینار کے علاوہ ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی۔درخواست گزاروں نے ٹرسٹ بنانے کی اجازت اور مندر کے اندر بتوں کی پوجا کرنے کا حق طلب کیا تھا۔عدالت نے مذکورہ عرضی کو خارج کرکے دانش مندی کا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ آگے اس قسم کے مزید معاملے سامنے نہیں آئیں گے۔ شرپسند ہر وقت اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ انھیں کب موقع ملے اور وہ مسلم شناختوں کو مٹانے کے درپہ ہوں۔
متھرا کی شاہی عیدگاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجدوں پر شرپسندوں کی نگاہیں شروع سے ہی لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ رام جنم بھومی مکتی آندولن کے وقت یہ نعرے بڑے زوروشور سے لگائے جاتے تھے کہ ’’ایودھیا تو ایک جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘یہ اور اس قسم کے دوسرے نعروں کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی بھی طرح مسلم فریق کو جھکنے پر آمادہ کیا جائے اور وہ بابری مسجد سے اپنی دستبرداری کا اعلان کردے۔ اس وقت بعض مسلم دانشوروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ بابری مسجد سے دستبرداری کے ساتھ دیگر عبادت گاہوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دور اندیش لوگوں کی اس وقت بھی یہی رائے تھی کہ بابری مسجد محض ایک عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کے دفاع کی ایک علامت ہے۔ اگر مسلمان اس سے دستبردار ہوگئے تو اس سلسلے کے مزید مطالبات سامنے آئیں گے اور ان کا جینا دشوار کردیا جائے گا۔ شکر اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے تمام تر نقصانات کے باوجود بابری مسجد سے دستبرداری کا فارمولا منظور نہیں کیا اور حکومت کو اسے حاصل کرنے کے لیے عدالت کی پناہ لینی پڑی۔عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کی اراضی حاصل کرنے کے بعد اب دوسری عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ جسٹس گوگوئی کے فیصلے کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس نے شرپسندوں اور مسلم دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار دے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر