وجود

... loading ...

وجود
وجود

شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

بدھ 10 نومبر 2021 شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا

مسافر لاہور میں ہے، جہاں قرار وقیام کا احساس ہوتا ہے، مزارِ اقبال پر حاضری کو جی چاہتا ہے۔ مدت ہوئی جہاں حاضری نہیں دی۔ مسافر نے بادشاہی مسجد کے میناروں کو نظر بھر کردیکھا مگر بلندی تو یہاں قبر میں سوتی ہے۔رفعتیں تو یہاں گردن اُٹھا کر دیکھتی ہیں۔ موت نے اُن کے چہرے کو متبسم پایا ، وہ اپنی قبر میں سرخرو اُترے تھے۔کیا عجب کہ بادشاہی مسجد کے مینار روز جھک کر اُن کے لیے دُعا کرتے ہوں!!قوم 9 نومبر کو اُن کا یوم پیدائش مناتی ہے۔ بس مناتی ہے!!!
وہ قوم کتنی بدقسمت ہے جس میں اقبال پیداہوئے ہوں، اور اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی ہو۔علامہ کی فکر ہماری ذہنی زمین پر بودی جاتی تو ہمارا روزمرہ یہ نہ ہوتا۔عطاء اللہ شاہ بخاری گاہے مؤدب ہو جاتے۔ وہی بخاری جن سے نہرو ایسے ملتا، جیسے بیٹا باپ سے ملتا ہے۔شاہ جی کے خطاب اور تلاوت پر پورا برصغیر سر دُھنتا، اقبال سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے تو شاہ جی وجد میں آجاتے! کیا لوگ تھے۔ سال 1938ء کا تھا، مقام امرتسر!! شاہ جی کہہ سکتے تھے، وہ زیادہ جانتے تھے:اقبال کو انگریز سمجھ سکا نہ مسلمان۔انگریز سمجھ لیتا تواقبال بستر پر نہ مرتا، پھانسی کے پھندے پر ہوتا اور مسلمان سمجھ لیتے تو آج غلام نہ ہوتے”۔ جی چاہتا ہے، ادب سے عرض کیا جائے، انگریز سمجھ گئے تھے، مگر جانتے تھے کہ ان کی قوم ان کو سمجھ نہ پائے گی۔سو قوم کو تاریخ کی خجالت میں چھوڑنے کے لیے اغماض کا رویہ رکھا۔ تب ہی ،تب ہی ! آزادی میں بھی ہاتھ کرگئے۔ پوری قوم آزادی کے بھرم میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ ایک طبقۂ اشرافیہ ان پر راج کرتا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو اس قوم کا مخبر بن کر انگریزوں کا وفادار رہا۔ اب ٹیڑھے منہ سے انگریزی بولتاہے۔ زرعی، سیاسی، صنعتی، عسکری، عدالتی اشرافیہ میں رہ کر ایک دوسرے کو تحفظ دیتا ہے۔ اب بھی اقبال کہاں سمجھ آتے ہیں!علامہ 1907ء میں یہ امید رکھتے تھے!
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
مسافر علامہ کی قبر پہ سوچتا رہا! علامہ نکلے ، مگر وہ کارواں درماندہ ہی کیوں رہا؟ وہ اکتیس سال بعد 1938ء میں اپنی قبر میں جا اُترے تھے۔ ذرا پہلے وہ رباعی کہی جس میں درد مجسم ہوگیا تھا۔ آج بھی یہ شعر پڑھتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا درد ہے، اور کیا بے نیازی!
سرود رفتہ باز آید کہ ناید ؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے رازآید کہ ناید؟
(سرودِ رفتہ (خدا جانے) واپس آتا ہے یا نہیں، حجاز سے ٹھنڈی ہوا چلتی ہے یا نہیں، اس فقیر (اقبال) کی زندگی کا وقت ِ آخر آپہنچا،
کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں)؟
بانجھ زمین پر کہاں آئے گا؟ جہاں کا روزمرہ پست سیاست کی نذر ہے۔ جہاں تعصب حکمرانی کرتے ہیں۔ قومی شناخت کی ہر چیز پامال ہے۔ پست خیالات پر قوم کھڑی کی جائے، تو کوئی بڑا آدمی کیسے پیدا ہو،نئے خیال کا شگوفہ کیسے پھوٹے؟علامہ ہمارے عہد میں نہیں سماتے۔ وہ وقت کے رائج تصورات کو پیچھے چھوڑتے ہیں۔علامہ وقت کو زندگی کی تخلیقی قوت میں دیکھتے تھے اور گردش لیل ونہار کے شکار کو غلام سمجھتے تھے۔ ہم میں سے سب ہی ایسے ہیں۔اقبال کے ہاں لیل ونہار میں بسر ہونے والی زندگی کفن پوش ہے۔ مردہ!!وقت کو تلوار کہتے ہوئے فارسی میں کیا شعر کہے!
تو کہ از اصل زمان آگہ نہ ئی
از حیات جاودان آگہ نہ ئی
مسافر کے خیالات منتشر منتشر تھے، وہ علامہ کی قبر پر ارتکاز کا خواہش مند ہے۔ وقت اور زماں ومکاں کا تصور ایسا موضوع نہیں جو کسی کالم میں ٹھیک طرح سے تمہیداً بھی برتا جاسکے۔ علامہ اپنی زندگی کے آخر ِلمحات میں ”دگر دانائے رازآید کہ ناید”؟کہہ گئے۔ تب اُن پرآگہی کا کون سا لمحہ اُترا ہوگا؟ ذرا” اسرارِ خودی”کی تمہید کے وہ فارسی اشعار دُہرائیں!جسے اب اردو میں بھی منظوم کرلیا گیا:
میں نغمہ ہوں مجھے مضراب کی ہر گز نہیں پروا
کہ میں ہوں اس زمانے میں نوائے شاعرِ فردا
نظر سے عہدِ حاضر کی رہے اسرارِ حق پنہاں
یہ وہ بازار ہے جو میرے یوسف کے نہیں شایاں
علامہ اقبال نے اسی تمہید میں وہ خیالات باندھے ہیں کہ عظمتیں حیران ہوتی ہیں۔فطرت کی بلندی سے آسمانوں کے راز صحراؤں میں بکھیرنے والا شاعر ہی کہہ سکتا ہے کہ میں ممکنات کے کارخانے کے باطن سے تقویمِ زندگی کا راز کشید کرکے لایا ہوں۔ دانائے راز اپنی قوم کے لیے حیات کشا تمام راز لائے تھے مگر قوم خوابِ غفلت میں رہی۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے تب ہی تو کہااقبال کو مسلمان نے سمجھا ہی نہیں۔ حضرت اقبال کے خادمِ خاص علی بخش فرماتے تھے کہ علامہ خیالات میں محوہوتے، مراقبہ کہنا چاہئے جب وہ اپنے اوپر نازل خیالات کے تمام سروں کو پکڑنے کی کوشش میں دنیا ومافیا سے بے خبر ہوجاتے ہوں گے۔علی بخش کہتے ہیں ، پھر وہ اچانک سر اُٹھاتے،اور عالم کے پروردگار کی آخری کتابِ ہدایت طلب کرتے۔ گاہے دن میں تین تین مرتبہ قرآن پاک کھولتے۔ یقینا اپنے خیالات کی قرآن سے تائید پانے کی یہ جستجو ہوتی۔علامہ اقبال کے کلام میں تاثیر یوں ہی تو نہ تھی ۔
اُس روز اقبال بہت روئے تھے، وہ دسمبر 1931ء میں مصر تشریف لے گئے تھے۔ ایک صبح صاحب طریقت بزرگ سید محمد ماضی ابوالعزائم اپنے دو بیٹوں کے ساتھ علامہ سے ملنے ہوٹل تشریف لائے۔ وہ بادشاہوں سے ملنے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے تھے۔ مگر علامہ کی خدمت میں ہوٹل پہنچے۔ علامہ نے اُنہیں دیکھ کر ایک اضطراب سے کہا، آپ کیوں تشریف لائے، میںخود حاضر ہوتا۔ تب بزرگ نے ایک حدیث سنائی: خواجہ دوجہاںۖ کا ارشاد ہے، جس نے دین سے تمسک کیا ہو، اُس کی زیارت کو جاؤ گے تو مجھے خوشی ہوگی”۔ پھر فرمایا:میں اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے اس ارشاد کی پیروی میں چلا آیا ہوں۔ سید ابوالعزائم تشریف لے گئے تو اقبال بہت دیر تک روتے رہے کہ مجھ جیسے گناہ گا ر کو متمسک بالدین سمجھ کر خواجہ دوجہاں کے ارشاد کی اتباع کا گمان پیدا ہوا ۔ اقبال ایسے ہی تھے، بخدا ایسے ہی تھے۔درحقیقت برصغیر کے تمام بڑے آخری تجزیے میں میکانکی دماغ کے حامل ثابت ہوئے، جو باہر کی قوت سے حرکت کرتے رہے، یہ تنہا علامہ اقبال کا نامیاتی وجود تھا، جو اندر سے حرکت کرتا تھا۔ زبردست باطنی تجربات رکھتا تھا۔ اُن کا فلسفۂ خودی اسی وفور میں پھوٹا ہے۔ مسافر خیالات کی وادیوں میں گم ہے۔ لاہور میں بادشاہی مسجد کے مینار وں پر اب اندھیرا اُتر رہا ہے۔ مگر علامہ کی قبر میں ایک روشنی ہے۔اُن کے قریب خاموش کھڑے رہنے سے دماغ منور اور دل روشن ہوتا ہے۔مسافر کو یہاں قرار ہے۔ بادشاہی مسجد کے مینار شاید مسافر کی امید میں شریک ہوں، ہمارے ذہن صحرا کی ریت ہوئے تو کیا ہوا، یہ روشنی نسلِ نو کے دلوں میں ضرور اُترے گی، یہ ابرِ خوش ہنگام کہیں تو برس کر اپنے نخلستان پیدا کرے گا۔ اس پیچ وتاب ِ رازی اور سوز وسازِ رومی کی متاعِ بے بہا کا کوئی تو وارث نکلے گا!!
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر