وجود

... loading ...

وجود
وجود

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ

منگل 09 نومبر 2021 شاعر مشرق علامہ اقبالؒ

علامہ عماد الدین عندلیب
یہ آج سے تقریباً دو سو ٗ سوا دو سو سال قبل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے کہ کشمیری برہمنوں کے ایک خاندان نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت سے اس خاندان میں تقویٰ و طہارت اور خشیت و للہیت کا رنگ غالب ہوگیا تھا ۔اسلام قبول کرنے کے بعد کشمیری بر ہمنوں کایہ نومسلم خاندان کشمیر سے ہجرت کرکے غیر منقسم (برطانوی) ہندوستان کے مشہور صوبہ ٗ صوبہ پنجاب کے معروف شہر سیالکوٹ میں آکر آباد ہوگیاتھا۔ اس نو مسلم خاندان میں ایک شخص شیخ نور محمدنامی بھی تھے، جو بڑے دین دار اور اللہ والے تھے ۔ان کے گھرمیں مؤرخہ 09 نومبرسنہ 1877 ء جمعہ کے روز ایک بچے نے جنم لیا ،جس کا نام گھر والوں نے محمد اقبال رکھا۔ محمد اقبال جب تھوڑے بڑے ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کے والد شیخ نور محمد انہیں دینی تعلیم دلوانے مولانا غلام حسن کے پاس چھوڑ آئے ، جہاں وہ محلہ شوالہ کی مسجد میں لوگوں کو قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے ۔ محمد اقبال نے بھی یہاں آکر قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ۔ چنانچہ یہیں سے علامہ اقبال کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے ۔
علامہ اقبال نے جب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرلی تو ان کے والد شیخ نور محمد نے انہیں اپنے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں واقع میر حسن کے مکتب میں آپ کو داخل کروادیا ، علامہ اقبال نے یہاں رہ کر تقریباً تین سال تک اردو ، فارسی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعدعلامہ اقبال نے انگریزی تعلیم اپنے شہر کے اسکول میں حاصل کرنا شروع کردی اور وہاں کا امتحان امتیازی درجہ میں پاس کرکے آپ نے شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا ، کچھ عرصہ وہاں پڑھتے رہے ، پھر اس کے بعد سیالکوٹ سے لاہور جاکر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فلسفہ ، عربی اور انگریزی مضامین اختیار کرکے B.A کی سند حاصل کی ۔ بعدازاں مارچ 1899 ء میں فلسفہ میں M.A کا امتحان دیا اور پورے صوبۂ پنجاب میں اوّل پوزیشن حاصل کی ۔ اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا مگر آپ مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔
نومبر 1899 ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم درس علامہ اقبال کو حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے ، بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ ، شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت وہاں شریک تھے ، سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا ۔ اقبال چوں کہ بالکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پکارا گیا ، غزل پڑھنی شروع کی ، جب اس شعر پر پہنچے کہ ؎

موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

تو اچھے اچھے اساتذہ ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے اور ان پر سکتہ طاری ہوگیا، وہ بے اختیارعلامہ اقبال کو داد دینے لگ گئے ، یہیں سے بحیثیت شاعر علامہ اقبال کی شہرت کا آغاز ہوا اور مشاعروں میں باصرار بلائے جانے لگے۔
1899 ء میں M.A پاس کرنے کے بعد علامہ اقبال مؤرخہ 13 مئی 1899 ء کو تاریخ ، فلسفہ اور سیاسیات کے لیکچرارکی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور میں مقرر ہوگئے جہاں وہ تقریباً چار سال تک رہے۔ اورینٹل کالج لاہور میں مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد 1903 ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج میں علامہ ا قبال کا تقرر ہوا جہاں پہلے آ پ انگریزی کے استاذ مقرر ہوئے اور بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے ، لیکن اس دوران آپ نے طلبہ و اساتذہ میں اپنے علم و فضل کا لوہا منوالیا اور محکمۂ تعلیم کے ذمہ داروں کا اعتماد اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔
25 دسمبر 1905 ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا اور فلسفہ و معاشیات کی ڈگریاں حاصل کرکے تین سال تک وہیں لندن میں مقیم رہے ، اس مدت میں پروفیسر آرنلڈ کی عدم موجودگی میں لندن یونی ورسٹی کے شعبۂ عربی میں تدریسی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے اور میونخ جاکر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ حاصل کی اور پھر لندن آکر قانون کا اعلیٰ امتحان پاس کرکے کامرس کالج لندن میں استاذ مقرر ہوگئے اور پھر سیاسیات و اقتصادیات میں امتیاز پیدا کرنے کے بعد 1908 ء میں اپنے وطن کی طرف واپس لوٹے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے۔علامہ اقبال نے یہ کل امتیازات محض 32,33سال کی عمر ہی میں حاصل کرلیے تھے۔
1910ء میں طرابلس اور بلقان کی جنگیں چھڑگئیں جن کے اثرات سے علامہ اقبال برے طرح متاثر ہوئے اور ان کے قلبی احساسات ٹوٹ ٹوٹ سے گئے ، جس کی وجہ سے ان کے دل میں مغربی تہذیب اور یورپی سامراج کی شدید نفرتوں نے جنم لیا ، ان کے رنج و غم نے علامہ اقبال سے وہ پرجوش نظمیں کہلوائیں جو مسلمانوں کے غم میں گرم آنسو اور مغرب کے خلاف تیر و نشتر تھیں۔
1914ء میں جب یورپ میں جنگ عظیم کا لاوا پھوٹا اور عالم اسلام جن حالات و حوادث سے دوچار ہوا انہوں نے علامہ اقبال کو ایک درد مند شاعر ، ایک مجاہد داعی ، ایک فلسفی حکیم اور دیدہ ور مبصر بنا دیا جو حالات سے مستقبل کا اندازہ لگالیتے اور حقائق و عبر کو نظم کا لباس پہنادیتے تھے۔
1930 ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کے خطبہ صدارت میں علامہ اقبال نے پہلی بار پاکستان کا نظریہ پیش کیا اور پنجاب کے مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے اور 1931,32 ء کی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں نمائندگی کی ۔ 1932 ء میں شاہ نادر خان شہید ؒ کی دعوت پر اُس علمی وفد کے ساتھ افغانستان گئے جس میں سر راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندویؒ بھی شریک تھے ۔ بادشاہ نے بہت اخلاص کے ساتھ راز دارانہ گفتگو کی اور اپنا دل کھول کر رکھ دیا ، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کافی دیر تک محو گفتگو رہے اور روتے رہے ۔
علامہ اقبال محض ایک شاعر اور ادیب ہی نہیں بلکہ ایک سچے اور پکے عاشق رسول بھی تھے ،جس کی ایک ہلکی سی جھلک اس واقعہ سے آشکارا ہوجاتی ہے کہ ایک روز علامہ اقبال کے دوست حکیم احمد شجاع آپ کے مکان پر پہنچے تو آپ کو بہت زیادہ فکر مند، مغموم اور بے چین پایا ، حکیم صاحب نے گھبرا کر دریافت فرمایا : ’’ خیر تو ہے ؟ آپ آج خلاف معمول بہت زیادہ مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں ؟‘‘۔ علامہ اقبال نے خاص اندازمیں نظریں اوپر اٹھائیں اور غم انگیز لہجے میںفرمایا : ’’احمد شجاع ! یہ سوچ کر میں اکثر مضطرب اور پریشان ہوجاتا ہوں کہ کہیں میری عمر نبی پاک ا کی عمر مبارک سے زیادہ نہ ہوجائے۔ ‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا اور علامہ اقبال کی عمر 60 سال تک ہی محدود رہی۔
مبلغ اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ دنیا میں تین زبانیں ایسی ہیں جن سے ادب کی خوش بو مہکتی ہے ٗعربی، فارسی اور اردو ۔میں نے ان تینوں ادبی زبانوں سمیت انگلش کے اشعار کا بھی مطالعہ کیا ہے ، انگلش کے اشعار کا تو میں دعویٰ نہیں کرتا (لیکن صحابہ کرام ؓکے بعد) بقیہ تینوں ادبی زبانوں عربی ، فارسی اور اردو کے شعرا کے حق میں میںیہ دعویٰ ضرورکرتا ہوں کہ ان کا کوئی بھی شاعر علامہ اقبال کی ہم سری نہیں کرسکا ،جس نے قرآن اور حدیث کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرکے ظلمت و جہالت کی چادر تانے ابدی نیند سونے والی مسلم قوم کو اپنا شاعرانہ نغمہ سناکرغفلت و لاپرواہی کی نیند سے بیدار کیا اور انہیں یہ پیغام دیا کہ

؎
نہیں تیرا نشیمن ’’قصر سلطانی‘‘ کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال نے اپنے جن اشعار میں قرآن مجید کی ترجمانی کی ہے اس کی چند ایک مثالیں آپ بھی ملاحظہ فرمایئے : قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح و تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { أشداء عليٰ الکفار رحماء بینھم (ألفتح) } ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر انتہائی مہربان اور نرم دل ہیں ۔علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے ؎

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن

ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { وفي أنفسکم أفلا تبصرون ( ألذاریات) } یعنی اور خود تمہارے اندر (بھی کئی نشانیاں ہیں) سو کیا تم کو سوجھتا نہیں؟علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے ؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال عرصہ دراز سے لاحق مختلف قسم کے امراض و عوارض کا مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار ان کی ہمت نے جواب دے دیا اور وہ صاحب فراش ہوگئے ، لیکن اس زمانہ میں بھی شعر گوئی ، تصانیف اور ملاقاتوں کا سلسلہ برابر جاری رہا ، حتیٰ کہ اپنی وفات سے تقریباً دس (۱۰) منٹ پہلے علامہ اقبالؒ نے یہ اشعار کہے:

سرودے رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید

ترجمہ: گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے یا نہیں؟حجاز سے بادِ نسیم دوبارہ آتی ہے یا نہیں؟ اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا ہے! کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے یا نہیں؟
اور پھر اپنی شاعرانہ زندگی کا مشک کی مہر لگا یہ آخری شعر کہا:

نشانِ ’’مرد مؤمن ‘‘ باتو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست

ترجمہ: ایمان دار شخص کی ایک نشانی میں تجھے بتاتا ہوں! جب اس کے مرنے کا وقت آتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔
اور بالآخر عالم اسلام کا یہ عظیم اسلامی فلاسفر ، شاعر مشرق ،مصورِ پاکستان ،مفکر اسلام، عاشق رسول ، دنیائے علم و ادب کی چہچہاتی بلبل ، قرآن و حدیث کا بہترین ترجمان ، برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا عظیم لیڈر ، کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والا، بھٹکے ہوئے آہوؤں کا رخ سوئے حرم پھیرنے والا، مسلمانوں کایہ نامور عبقری سپوت تقسیم ہند سے پہلے ہی اپنی حیات مستعار کی چھ دھائیاں دیکھنے کے بعد بعمر 60 سال مؤرخہ21 اپریل 1938 ء کو اپنا شاعرانہ نغمہ گاتے گاتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا اور بادشاہی مسجد لاہور کے متصل اپنے ہی ایک مقبرہ ’’ مزارِ اقبال‘‘میں ابدی نیند سوکر محو استراحت ہوگیا :

بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر