وجود

... loading ...

وجود
وجود

سارے موسم بدل گئے ،انسان کب بدلے گا؟

پیر 08 نومبر 2021 سارے موسم بدل گئے ،انسان کب بدلے گا؟

 

ہمارے کرہ ارض پر اَن گنت مخلوقات بستی ہیں،جن کا اگر کوئی شخص آج کے جدید سائنسی دور میں بھی شمار کرنا چاہے تو نہیں کرسکتاہے۔ لیکن کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے کرہ ارض کے مستقبل پرمعدومی اور بربادی کے جتنے بھی سنگین خطرات منڈلارہے ہیں ،اُن سب کا سبب صرف اور صرف ایک مخلوق انسان ہے۔ جی ہاں! حضرت ِ انسان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات زمین کے تہہ میں ،اُس کی گہرائیوں اور فضائے بسیط میں قدرتی ماحول پر اثرانداز ہوئے بغیر فقط اپنی زندگی بسر کرتی ہے مگرانسان اپنے طرز زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرآسائش اور نفع بخش بنانے کے لیے زمین کے فطری ماحول کو تباہ برباد کرنے کے درپے ہے۔ انسان کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے کرہ ارض عالمی درجہ حرارت میں بڑھوتری، فضائی آلودگی ، آبی ذخیروں کی کمی، گلیشیئرز کی تباہی ، جنگلی حیات کی معدومی اور موسمیاتی تنوع کے خاتمہ جیسے سنگین ماحولیاتی مسائل کا شکار ہوچکاہے۔
عالمی ادارہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سخت ترین موسم یعنی انتہائی گرمی کی لہریں اور تباہ کُن سیلاب اب دنیا بھر میں معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔ 2021 کی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت، شدید موسمی حالات، سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔ 2002 سے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ 2021 میں عالمی سطح سمندر میں بھی سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔یہ بات عام طور پر کم و بیش ہم سب ہی کو معلوم ہے کہ انسانی سرگرمیوں نے دنیا بھر کے ماحول کو خطرناک حد تک متاثر کیا ہے ۔بطور خاص جس طرح ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک صنعتی ترقی کی آخری حدود کو چھونے کے لیے جس کثرت کے ساتھ ایندھن جلارہے ہیں ۔ اُس سے پیدا ہونے والی مہلک فضائی آلودگی کے سبب گرین ہاؤس گیسز یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گرمی کو زمین کی فضا میں ہی روک لیتی ہیں جس سے ہماری دنیا کا درجہ حرارت معتدل موسم کی آمد پر بھی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگتاہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اسی عجیب و غریب رویے کے متعلق سوشل میڈیا پر کیا خوب پوسٹ زیر گردش ہے کہ ’’پتہ نہیں پاکستان میں کون سا موسم آگیاہے، مچھر بھی کاٹ رہے ہیں ،کمبل بھی اوڑھ رہے ہیں ،پنکھے بھی چل رہے ہیں ، نہانے کے لیئے گرم پانی ، پینے کے لیئے ٹھنڈ پانی ،زکام ہورہاہے، سویٹر بکسے میں بند پڑے ہیں ، نومبر آچکا ہے، بارش آ نہیں رہی ہے اور مونگ پھلی بازار میں آچکی ہے‘‘۔یاد رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی یہ گھمبیر صورت احوال صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اُفق پر چھائی ہوئی ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا ماحولیاتی مسائل کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو یہ خوب صورت زمین جسے انسان اپنا گھر قرار دیتاہے ایک ایسے قید خانہ میں تبدیل ہوجائے گی،جہاں ہر قسم کی زندگی کے لیے نشوونما ناممکن ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ ماحولیاتی مسائل کے حل کی ذمہ داری کسی ایک یا دو چار ممالک پر نہیں ساری دنیا پر عائد ہوتی ہے ۔ کیونکہ کرہ ارض کو درپیش ماحولیاتی تباہی میں ہم سب کا ہی کچھ نہ کچھ منفی کردار ضرور شامل رہا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اس وقت دنیا بھر سے حکومتی نمائندگان دنیا کو درپیش ماحولیاتی مسائل کا قابلِ عمل حل تلاش کرنے کے لیے موجود ہیں ۔گلاسگو، اسکاٹ لینڈ ،برطانیہ میں منعقدہ کانفرنس آف پارٹیز کو مختصراً ’’کوپ 26‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ’’کوپ 26 ‘‘کا بنیادی مقصد وحید ہماری دنیا کو درپیش سنگین ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے۔واضح رہے کہ ’’کوپ 26‘‘ کا سلوگن ’’ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ہے ‘‘۔
’’کوپ 26‘‘برطانیا میں منعقد ہونے والا اپنی نوعیت کا اب تک کا سب سے بڑا بین الاقوامی ایونٹ ہے جس میں دنیا بھر سے 25ہزار سے زائد مندوبین گلاسگو شہر پہنچے ہیں جن میں عالمی رہنمائ،سائنس دان،سماجی رہنما،دانشور، تاریخ داں اور اعلیٰ کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ماہرین توقع ظاہر کررہے ہیں ’’کوپ 26‘‘ کا یہ بین الاقوامی اجتماع ،عالمی درجہ حرارت کو 1.5C سے اوپر بڑھنے سے روکنے اور زمین اور لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے کلیدی اقدامات اُٹھانے کا سبب بنے گا۔فی الحال ماحولیاتی بہتری کے لیء کانفرنس کے میزبان ملک برطانیانے دیگر ممالک کے مقابلے کئی قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مثال کے طور پر دنیا کی معیشت کا تقریباً 70 فیصد اب خالص صفر کے اہداف میں شامل ہے، جب برطانیا نے COP26کی صدارت سنبھالی تھی تو یہ شرح 30فیصد سے بھی کم تھی۔
’’کوپ 26‘‘ کانفرنس کے سلوگن کے متعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ’’ اگر ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنا ہے تو ہمیں کسی بھی صورت عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا ہوگا اور حکومتوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر سختی سے قابو پانا ہوگا‘‘۔ بعض ماہرین کی جانب سے امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ گلاسگو میں ہونے والی یہ کانفرنس ہماری زمین کو درپیش ماحولیاتی مسائل کا تلاش کرنے میں اہم ترین کردار اداکرسکتی ہے۔ جبکہ کچھ دیگر سائنسدانوں کے خیال میں اب بہت دیر ہو چکی ہے اور’’کوپ 26‘‘ کانفرنس میں طے کیاگیا ہدف حاصل کرنا اَب ممکن نہیں رہا۔
کیونکہ اگر آپ کسی دن باہر نکلیں تو درجہ حرارت میں آدھے ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق شاید آپ کو محسوس بھی نہ ہو مگر اس کے ہمارے عالمی ماحول پر بہت بڑے اور ممکنہ طور پر تباہ کُن اثرات ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ انیسویں صدی کے اختتام پر دنیا جتنی گرم تھی، اب اس سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکی ہے اور اس موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات پوری دنیا پر صاف محسوس کیے جا رہے ہیں۔اگر عالمی درجہ حرارت کو سنہ 2100 تک صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا گیا تو قطبی علاقوں میں موجود برف کی تہیں اور گلیشیئرز پگھلنا تو جاری رکھیں گے۔مگر اس سطح تک درجہ حرارت کو محدود رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں کی شدت کم کر سکیں گے اور سطحِ سمندر میں اضافے کے باعث کروڑوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بھی بچا سکیں گے۔علاوہ ازیں ہم دنیا بھر میں پانی کا ضیاع بھی 50 فیصد تک کم کر سکیں گے۔
سائنس دانوں کا اصرار ہے کہ اگر ’’کوپ 26‘‘ کانفرنس میں طے کیے ہدف جلد حاصل نہ کیے جاسکے تو دنیا بھر میں گرم سمندروں میں موجود مرجان کی تمام چٹانیں برباد ہو جائیں گی اور سیلاب پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور مہلک ہو جائیں گے۔جس کی وجہ سہے بڑی تعداد میں جانور اور پودے اپنا قدرتی ماحول کھو دیں گے اور کئی ممالک ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں زیادہ گرمی کا سامنا کریں گے۔واضح رہے کہ تین ڈگری اور اس سے زیادہ گرمی کا ہمارے سیارے پر تباہ کُن اور خوفناک اثر ہو گا ۔بظاہر چیزیں ایک سادہ سی وجہ کے باعث اتنی حوصلہ افزا نہیں لگ رہیں، اور وہ یہ کہ گذشتہ 25 کوپ کانفرنسیں بھی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج روکنے میں ناکام رہی تھی اور گزشتہ تین دہائیوں میں تمام تر کوششوں اور عالمی گفت و شنید کے باوجود ہمارا سیارہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکا ہے۔رواں سال جرمنی میں سیلابوں کے باعث 200 افراد ہلاک ہوئے، سرد ترین ممالک میں سے ایک کینیڈا میں ہیٹ ویو آئی اور یہاں تک کہ سائیبیریائی آرکٹک میں بھی موسم گرم رہا۔ سائنس دان اس حوالے سے واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے زمین کو تباہ کُن درجہ حرارت سے بچانا ہے تو 2030 تک لازماً کاربن گیس کے اخراج کو نصف کرنا ہوگا۔
دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے شکار ہونے کا قوی اندیشہ پایا جاتاہے ۔بالخصوص پاکستان کے سب بڑے شہر کراچی کے متعلق عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے ایک رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا گیاہے کہ ’’ اگر سطح سمندر میں اضافے کا موجودہ سلسلہ جاری رہا تو کراچی 2060تک مکمل طور پر زیر آب آ سکتا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ کراچی میں رواں برس درجہ حرارت پہلے ہی 74 سال میں سب سے زیادہ رہا ہے۔درجہ حرارت میں اضافہ کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہا تو 2030 تک ساحلی طوفان کی وجہ سے املاک کو پہنچنے والے نقصانات اور سمندر کی سطح میں اضافہ دس گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ چونکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے۔اس لیے 2100تک بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مطلب یہ ہے کہ ہندوکش اور ہمالیائی رینج کے ساتھ 36فیصد گلیشیئر ختم ہو جائیں گے۔ نازک صورتحال کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اب باقی عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ’’کوپ 26‘‘ موسمیاتی تبدیلی سمٹ کی میزبانی کرنے والے ملک برطانیا پہلے ہی پاکستان کے ساتھ مل کر کرہ ارض کے سرسبز مستقبل کام کرنے لیئے متفق ہوچکے ہیں ۔ یعنی برطانیا اور پاکستان نے یہ مشترکہ ہدف طے کیا ہے کہ 2030 تک پاکستان میں خدمات انجام دینے والی کمپنیوں کو کاربن گیس کا اخراج نصف کرنے اور 2050 تک صفر درجے تک پہنچانے پر آمادہ کردیا جائے گا۔ حیران کن طور پر دونوں ممالک کی کوششوں سے اَب تک 28 بڑی ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں اس مہم کا حصہ بننے پر کامل اتفاق بھی کرچکی ہے۔رواں برس برطانیہ 7ملین پاؤنڈ گرانٹ فنانسنگ اور تکنیکی مدد بھی پاکستان کو فراہم کرے گا تاکہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔
جبکہ اس سال کے شروع میں برطانیہ نے لاہور میں صاف ستھری اینٹوں کی پیداوار کے طریقوں کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا پروگرام شروع کیا تھا جس سے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے، سموگ کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں برطانیہ پاکستان کو جدید موسمیاتی فنانسنگ آلات تیار کرنے بشمول نیچر پرفارمنس بانڈزمیں مدد کے لیے فنڈز دینے کے ساتھ اگلے 5سالوں میں پاکستان میںموسمیاتی تبدیلی کے لیئے مزید سرمایہ کاری کرنے کا بھی ارادہ رکھتاہے۔یقینا اِن مستحسن اقدامات سے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے میں کافی آسانی میسر آسکے گی۔ نیز وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے پاکستان بھر شجر کاری کی جو قومی مہم شروع کی ہے۔ اُسے بین الاقوامی سطح پر خوب سراہتے ہوئے کہا جارہاہے کہ ’’پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عملی طور پر قائدانہ کردار بحسن و خوبی ادا کررہاہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر