وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں نفرت کے سوداگروں کا اوور ٹائم

جمعرات 16 ستمبر 2021 بھارت میں نفرت کے سوداگروں کا اوور ٹائم

(مہمان کالم)

رام پنیانی

ہندوستان کی متنوع تہذیب اور یہاں پائے جانے والے ’’کثرت میں وحدت‘‘ کا جو نظریہ ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ اس سرزمین پر مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے، مختلف مذاہب کے ماننے والے ، مختلف زبانوں کے بولنے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے بھکتی‘ صوفی سَنت اور تحریک آزادی نے اس سرزمین پر رہنے والی مختلف برادریوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کیا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے چند دہوں سے اور خاص طور پر چند برسوں سے ہندوستان کی اس تہذیب پر حملے کیے جارہے ہیں اور مختلف برادریوں کے تعلقات کو بگاڑنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔ چند دن قبل متھرا میں واقع وکاس مارکٹ کے سریناتھ دوسہ ا اسٹال میں توڑ پھوڑ کی گئی اور یہ کام نسلی تفریق کی تائید و حمایت کرنے والے نظریہ پر چلنے والوں نے کیا۔ ان غنڈوں نے سریناتھ دوسہ اسٹال کے مالک عرفان کو دھمکیاں بھی دیں اور یہ کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم نے اپنے اسٹال کا نام ایک ہندو نام پر رکھا ہے۔ ان لوگوں نے عرفان کو نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ ان سے وکاس مارکٹ سے نکل جانے کے لیے بھی کہا۔ یہ تو ایک واقعہ تھا، لیکن ہم اسی طرح کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف کئی ایک دل دہلادینے والے واقعات پیش ا?ئے ہیں۔ راجستھان کے سِکر میں ایک 52 سالہ رکشہ ڈرائیور کو گھسیٹا گیا۔ مارپیٹ کرتے ہوئے اس سے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے کے لیے کہا گیا۔ ان لوگوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس غریب کو یہ انتباہ بھی دیا کہ اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان نہیں چلا جاتا۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش کے ہندوئوں نے ایک چوڑی فروش تسلیم علی کو شدید زدوکوب کیا اور اس سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ چوڑیاں فروخت کرنے کے لیے ایک ہندو علاقے میں کیوں داخل ہوا؟ اْترپردیش کا تو برا حال ہے جہاں ہندوتوا ہجوم نے ایک رکشہ ڈرائیور کو پکڑ کر شدید مارپیٹ کی۔ وہ رکشہ ڈرائیور اپنی 9 سالہ بیٹی کے ساتھ جارہا تھا۔ اْن غنڈوں کے ہاتھوں باپ کو پٹتا دیکھ کر وہ معصوم لڑکی رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ باپ کو بچانے کے لیے اس سے لپٹ رہی تھی۔ اس کی چیخوں اور آہوں نے سارے بھارت کو رْلا دیا لیکن ان بے رحموں کو کسی قسم کا رحم نہیں آیا۔ اجمیر میں ایک مسلم گداگر کو‘ جو اپنے دو بیٹوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، فرقہ پرستوں نے پکڑ لیا اور مارپیٹ کی۔ حد تو یہ ہے کہ باپ کے سامنے بیٹے کے سر پر لاتیں ماریں اور بیٹوں کے سامنے باپ کو ذلیل کیا اور پھر اسے پاکستان جانے کے لیے کہا گیا۔ ان غیرانسانی واقعات کی فلمبندی کرتے ہوئے اسے سوشل میڈیا پر ایسے وائرل کیا گیا جیسے ان لوگوں نے بڑی بہادری کا کام کیا ہو۔ اسی طرح زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے وڈیوز خوب پھیلائے گئے۔
وقفے وقفے سے ہونے والے نسلی منافرت پر مبنی ان واقعات میں سے کچھ واقعات ہی منظر عام پر آئے ہیں جو صرف اس بات کا اشارہ ہیں کہ بے بس و کمزور اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ واقعات روز کا معمول بن گیا ہے۔ یہ واقعہ اچانک اور مختلف علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نفرت پیدا کرنے والی مشینیں آج کل اوور ٹائم کررہی ہیں اور یہ طاقتیں‘ صدیوں سے جن باہمی تعلقات کی آبیاری کی گئی تھی‘ اسے تباہ کرنے پر تْلی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ساری دنیا نے دیکھا کہ جدوجہد آزادی کے دوران ہندو‘ مسلم اتحاد کے بے مثال نمونے منظر عام پر آئے۔ اگر ہم موجودہ حالات پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ نفرت پچھلی دو صدیوں سے کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ دو صدیوں کے دوران فرقہ پرست طاقتوں نے فرقہ وارانہ ہم ا?ہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت کچھ کیا۔ فرقہ پرستوں نے ہندو‘ مسلم‘ دونوں کے خلاف اپنے بیانات کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا۔ تقسیم ملک کے بعدمسلم فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی اور اب ہندو فرقہ پرستی مسلسل نقطہ عروج پر پہنچ رہی ہے اور پچھلے چند برسوں سے اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تک یہ لوگ جارحانہ موقف اختیار کرچکے ہیں۔ ایسے بیانات دیے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے۔ مسلمانوں کو ’’بیرونی باشندے‘‘ کہا جارہا ہے۔ مسلم مغل بادشاہوں کو ’’ظالم‘‘ اور ’’لٹیرا‘‘ قرار دیا جارہا ہے اور ان کے تعلق سے لوگوں میں غلط باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ یہ طاقتیں مختلف میکانزم کے ذریعہ ظالمانہ کارروائیوں کو عام کررہی ہے جبکہ اس معاملے میں میڈیا کا ایک بڑا گوشہ بہت ہی زرخیز ثابت ہوا ہے۔ پچھلے دہوں کے دوران میڈیا کی جانبداری بھی بڑھ گئی ہے۔ میڈیا میں تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیونکہ یہ ایسا گوشہ ہے جن کی ملکیت ان آقائوں کے ہاتھوں میں ہے جو حکومت کے ساتھ خفیہ معاملات کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ان کے مقاصد مشترکہ ہیں۔ بھارتی میڈیا کے اس گوشے نے خود کو مسلم کمیونٹی کے خلاف جارحانہ انداز میں لاکھڑا کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی بے شمار مثالیں پیش کرسکتا ہے اور جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ہم اس کا نظارہ ’’مغل اعظم‘‘ جیسی ماضی کی فلموں سے لے کر حالیہ وقت کی ’’جودھا اکبر‘‘ سے کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ فرقہ پرستوں اور میڈیا کے گوشوں نے تبلیغی جماعت کو کووڈ انیس پھیلانے والے قرار دیا اور سب نے دیکھا کہ کس طرح میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو ان نسل پرستوں نے اپنا نشانہ بنایا۔ ایک طرح سے منصوبہ بند سازش کے ذریعے نسلی منافرت پر مبنی نظریہ پھیلایا جارہا ہے اور اب تو فرقہ پرست طاقتیں قرونِ وسطیٰ کے نفرت سازوں کو واپس لارہی ہے۔
جب اس نکتہ پر کرن تھاپر نے اخبار ’’ایشین ایج‘‘ کے لیے اپنے کالم میں روشنی ڈالی تھی‘ تب ان کے آرٹیکل کو روک دیا گیا۔ بعد میں ’’ستیہ ہندو‘‘ کے نیلو ویاس کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ اس ا?رٹیکل میں جموں میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام پر روشنی ڈالی گئی تھی اور جس کی شدت ہندو مخالف تشدد سے کچھ کم نہیں تھی۔ اصل نکتہ یہ نہیں کہ کونسی کمیونٹی سب سے زیادہ متاثر ہوئی بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ سارا برصغیر تقسیم ہند کے کربناک دور سے گزرا۔ نسلی منافرت پر مبنی ایجنڈا یہی چاہتا ہے کہ 14 اگست کو تقسیم کی ہولناکی کے دن کے طور پر منایا جائے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت کے لیے میدان تیار کیا جائے۔ اگر آپ دیکھیں تو تقسیم ہند پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حوالہ نہیں دیا گیا اور اگر دیا بھی گیا تو بہت ہی کم۔ بی جے پی کے دیگر ترجمان اب اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو خوش کرنے سے متعلق کانگریس کی پالیسی کے نتیجے میں ہی تقسیم کے ہولناک واقعات پیش آئے، لیکن وہ بھول گئے کہ تقسیم ملک کے وقت کوئی اور نہیں بلکہ سردار پٹیل ہی مرکزی وزیر داخلہ تھے اور سردار پٹیل کو ہی بی جے پی اپنا ہیرو بنانا کی کوشش کررہی ہے جس کے ذریعے وہ سیاسی فائدے حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کا سوال ہے ، یہ شکایت ہندو فرقہ پرست انیسویں صدی کے اواخر سے کررہے ہیں۔ جب ان فرقہ پرستوں نے کہا تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمان ارکان رکھے گئے ہیں، اور یہ الزام آج بھی مختلف شکلوں میں موجود تھے۔ ہمیں نسلی منافرت سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے اور اپنی مربوط و ہمہ جہتی تہذیب کو فراموش نہیں کرنا چاہئے تب ہی ہم اپنے بہتر مستقبل کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ نفرت کی دیواریں گرانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر