وجود

... loading ...

وجود
وجود

موٹا۔پا

بدھ 15 ستمبر 2021 موٹا۔پا

دوستو، اس سال معاشیات کا ’اگنوریبل پرائز‘ المعروف ’آئی جی نوبل پرائز‘ ایک ایسی تحقیق پر دیا گیا ہے جس میں سیاست دانوں کے موٹاپے اور کرپشن میں تعلق ثابت کیا گیا ہے۔یہ تحقیق پچھلے سال مونٹ پیلیئر بزنس اسکول، فرانس کے پاولو بلاواٹسکی نے 15 ملکوں کے 299 سیاست دانوں پر کی تھی جس سے معلوم ہوا تھا کہ جن ممالک میں حکمران طبقے کے سیاست دانوں میں موٹاپا عام ہوتا ہے، وہاں کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے۔ان ممالک میں آرمینیا، آذربائیجان، بیلارس، ایستونیا، جارجیا، قازقستان، کرغیزستان، لاتویا، لتھوانیا، مالدووا، روس، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرین اور ازبکستان شامل تھے۔بلاواٹسکی کی اس انعام یافتہ تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ’’اکنامکس آف ٹرانزیشن اینڈ انسٹی ٹیوشنل چینج‘‘ میں پچھلے سال شائع ہوئے تھے۔ ’اگنوریبل پرائز‘ (Ig Nobel Prize) گزشتہ اکتیس سال سے ہر سال ایسی سائنسی تحقیقات پر دیا جارہا ہے جو بظاہر مضحکہ خیز اور ہنسا دینے والی ہوں لیکن دراصل بہت سنجیدہ اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بھی ہوں۔
اب واپس چلتے ہیں خبر کی طرف پروفیسر ڈاکٹر بلاواٹسکی نے اپنی تحقیق میں 15 ممالک کے 299 سیاست دانوں کے چہروں کی سامنے سے کھینچی گئی تصاویر جمع کیں، جو 2017 میں لی گئی تھیں۔اس کے بعد ایک خاص کمپیوٹر پروگرام استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہر سیاست دان کا ’باڈی ماس انڈیکس‘ (بی ایم آئی) معلوم کیا۔یہ سافٹ ویئر بطورِ خاص اسی مقصد کیلیے بنایا گیا ہے جبکہ اس کی کارکردگی بھی بہت اچھی اور قابلِ بھروسہ ہے۔بی ایم آئی‘ کسی شخص کے قد اور وزن میں تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جسے موٹاپے کی پیمائش کا عالمی معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔پروفیسر بلاوٹسکی نے ان تمام سیاست دانوں کا انفرادی بی ایم آئی معلوم کیا، جس کی بنیاد پر انہوں نے 2017 کے دوران ہر ملک کی سرکاری کابینہ میں شامل سیاست دانوں کا انفرادی بی ایم آئی آپس میں جمع کیا اور حاصل ہونے والے ’مجموعی بی ایم آئی‘ کا جائزہ لیا۔اس تجزیئے سے انہیں معلوم ہوا کہ جن ملکوں کی سرکاری کابینہ (یعنی حکومت) اپنے مجموعی بی ایم آئی کے لحاظ سے ’’زیادہ وزنی‘‘ تھی، ان ملکوں میں کرپشن بھی اتنی ہی زیادہ رہی تھی۔کس ملک میں کتنی کرپشن ہے؟ یہ جاننے کیلیے پروفیسر بلاوٹسکی نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس، کرپشن کنٹرول کیلیے سرکاری اقدامات سے متعلق ورلڈ بینک کا عالمی انڈیکس، اور بین الاقوامی ’انڈیکس آف پبلک انٹیگریٹی‘ سے استفادہ کیا۔اس تحقیق سے صرف اتنا ہی معلوم ہوا کہ جن ممالک میں حکمران طبقے کے سیاستدانوں میں موٹاپا زیادہ ہوتا ہے، ان ملکوں میں کرپشن بھی اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ایسا کیوں ہے؛ اور کیا یہ بات دنیا کے تمام ملکوں کیلیے درست ہے؟ یہ جاننے کیلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
بچپن میں جب اکثریت کی ناسمجھی کی عمر ہوتی ہے تو ہم ’’موٹاپا‘‘ کو۔۔موٹا۔پا۔۔ سمجھا اور پڑھا کرتے تھے۔ جس طرح پنجابی میں چھوٹے بھائی کو ’’نکا۔پا‘‘ اور بڑے بھائی کو ’’وڈا۔پا‘‘ کہتے ہیں، ہم سمجھتے تھے کہ موٹے بھائی کو ’’موٹا۔پا‘‘ کہتے ہوں گے۔۔موٹاپا کم کرنے کے لیے ایک موٹے آدمی کو ڈاکٹر نے گھڑ سواری کا مشورہ دیا۔کچھ دن بعد ڈاکٹر نے اپنے مریض سے ٹیلی فون پر پوچھا ” کچھ فرق پڑا؟۔۔ موٹے آدمی نے جواب دیا۔ ” میں تو نہیں البتہ گھوڑا بے حد دبلا ہو گیا ہے۔ ایک موٹی خاتون ڈاکٹر کے پاس گئیں اور اپنا موٹاپا دور کرنے کے لیے مشورہ مانگا۔۔ڈاکٹر نے جواب دیا سر کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھما دیا کریں۔خاتون نے پوچھا، دن میں کتنی بار؟ ڈاکٹر مسکرا کر کہنے لگا۔۔صرف اتنی بار، جتنی بار کوئی آپ کو مزید کھانے کے لیے کہے۔۔ایک شخص نے موٹاپے سے تنگ آ کر فاسٹ فوڈ سے توبہ کی ایک دن بچوں نے ضد کی پیزا کھانے کی وہ انھیں ریسٹورنٹ لے گیا بچے کھانے لگے وہ سائیڈ پر بیٹھ گیا اگلے دن فیس بک کھولی توان کی تصویر کسی نے اپلوڈ کی اور لکھا تھا۔۔بے حس لوگ امیر کے بچے پیزا کھا رہے ہیں اور ڈرائیور حسرت سے دیکھ رہا ہے۔۔ڈاکٹر نے تنگ آکر مریض سے کہا۔۔تمہارے موٹاپے کا ایک حل ہے۔ مریض نے جلدی سے پوچھا۔۔وہ حل کیا ہے ڈاکٹر صاحب؟؟ڈاکٹر بولا۔۔تم روزانہ ایک روٹی کھاؤ۔۔مریض نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔۔یہ روٹی کھانا کھانے سے پہلے یا کھانا کھانے کے بعد۔۔؟؟ڈاکٹرصاحب کی باتیں سن کرایک مریض کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ زندگی چاہتے ہو تو روٹی سے پرہیز کرو کیونکہ روٹی کھانے سے چربی بڑھتی ہے جس سے موٹاپا ہوجاتاہے اور موٹاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے۔مریض نے ڈرتے ڈرتے اُن سے پوچھا کہ پراٹھا کھا لیا کروں؟ وہ چلا اُٹھ۔۔۔پراٹھا۔۔یعنی کولیسٹرول‘ شوق سے کھاؤ لیکن ہارٹ اٹیک کے لیے تیار رہنا۔مریض نے ایک جھرجھری سی لی ۔۔ڈاکٹر صاحب پھر نان کھا لیا کروں؟‘‘ انہوں نے میز پر مکا مارا۔۔نان کھاؤ تاکہ نان اسٹاپ موت آئے۔۔
آج تک مٹاپے کو ایک عذاب سمجھا جاتا ریا ہے۔ اسے سو بیماریوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ لیکن جدید ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ اصل میں مٹاپا ایک نعمت ہے۔ ریسرچ میں ثابت کیا گیا ہے کہ مٹاپا بیماریوں کی جڑ نہیں بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا سبب ہے۔۔جدید تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ اگر آپ 3 سے پانچ کلو اورویٹ ہیں تو آپ کے ٹی بی اور الژھمیئر سے بچنے کے چانسز 80 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔۔اگر آپ 7 سے 15 کلو مقررہ پیمانے سے زائد وزن رکھتے ہیں تو 50 فیصد چانسز ہیں کہ آپ نمونیہ، ٹائیفائڈ اور یرقان کا شکار نہیں ہونگے۔۔اگر آپ 16 سے 25 کلو اورویٹ ہیں تو 60 فیصد چانسز ہیں کہ آپ کو کڈنی، پروسٹریٹ، کولون اور مثانے کا کینسر نہیں ہوگا۔۔اور اگر آپ 25 کلو سے زیادہ اورویٹ ہیں تو خوشخبری سن لیں۔ اس سے آپ کی نگاہ تیز ہوگی، گنج پن آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اور نزلہ زکام اور کھانسی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔۔اس جدید ریسرچ کے لیے تعاون کیا ہے، وارث نہاری، جاوید نہاری،محفوظ شیرمال ،دہلی ربڑی ہاؤس، رحمت شیریں، وحید کباب ہاؤس، غوثیہ نلی بریانی، بنوں پلاؤ، شاہین شنواری ریسٹورینٹ، دعاریسٹورنیٹ، کراچی پراٹھا ہاؤس،چارمنگ انڈے والا برگر،چاچا کڑاہی سینٹر،حبیب مال پورہ،ایم سلیمان مٹھائی والا(میمن مٹھائیوں کا مرکز)،بلوچ فالودہ،حاجی بریانی سینٹراور رضوان ناشتہ ہاؤس(حلوہ پوری اور چنے) اور جید ا لسی والے نے، جن کا پیغام ہے۔۔کھاؤ ،پیو،عیش اڑاؤ۔۔موٹاپے کی ٹینشن بھگاؤ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔موٹاپے کا شکار تمام ہی لوگ ہمیشہ ڈاکٹرسے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا کھائیں؟؟ کبھی یہ نہیں پوچھتے کہ کیا نہیں کھائیں؟خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر