وجود

... loading ...

وجود
وجود

امام غزالیؒ کی شخصیت اور تصانیف

جمعرات 26 اگست 2021 امام غزالیؒ کی شخصیت اور تصانیف

مولانا ندیم احمد انصاری
امام غزالی رحمہ اللہ(1058 تا 1111ء)ایک عظیم فلسفی اور مشہور عالمِ اسلام ہیں، جن کی متعدد کتابیں بشمول احیاء العلوم الدین وغیرہ عربی و اردوکے علاوہ متعدد زبانوں میں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ہم یہاں موصوف کا مختصر تعارف اور ان کی تصنیفات کے مطالعے سے متعلق چند باتیں عرض کریں، اس لیے کہ فی زمانہ غلط سلط اور بے بنیاد باتوں کو عمدہ باتوں کے ساتھ جوڑ کر چلانا عام ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی غلط باتیں معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ صدیوں پہلے کسی عالمِ دین نے کوئی عمدہ تصنیف پیش کی، لیکن آج مترجمین نے اس کے ساتھ ایسی ایسی کارستانیاں کیں کہ اللہ کی پناہ! ہاں بعض غیر محتاط باتیں قدما سے بھی ان کی تصنیفات میں در آئی ہیں۔محقق علماےمتقدمین کی قدر کی جانی چاہیے، لیکن ان کی تصنیفات کا مطالعہ محقَق علما کی نگرانی ہی میں کرنا چاہیے۔
تعارف اور تعلیم
امام غزالی رحمہ اللہ کا نام محمد، کنیت ابو حامد، والد کا نام بھی محمد تھا۔ طوس کے ضلع میں ۴۵۰ھ میں طاہران میں پیدا ہوئے۔ والد کی وصیت کے مطابق جو ایک مخلص علم دوست اور غریب مسلمان تھے، اُن کے ایک صوفی دوست نے تعلیم کا انتظام کرنے سے معذرت کی اور کسی مدرسے میں داخل ہو جانے کا مشورہ دیا، چناں چہ وہ ایک مدرسے میں داخل ہو کر تعلیم میں مشغول ہو گئے۔
امام غزالیؒ کے اساتذہ
امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنے وطن میں شیخ احمد الراذکانی سے فقہِ شافعی کی تعلیم حاصل کی، پھر جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی سے پڑھا۔ اس کے بعد نیشاپور جا کر امام الحرمین کے حلقۂ درس میں شامل ہوئے اور تھوڑی ہی مدت میں اپنے رفقا میں جو ۴۰۰/ کی تعداد میں تھے، ممتاز ہو گئے اور اپنے نامور استاد کے نائب بن گئے۔ امام الحرمین ان کی تعریف میں فرماتے تھے کہ غزالی رحمہ اللہ بحرِ زخار ہے۔امام الحرمین کے انتقال کے بعد نیشاپور سے نکلے، اس وقت ان کی عمر ۲۸/ سال تھی، لیکن وہ بڑے بڑے کبیر السّن علما سے زیادہ ممتاز اور باکمال سمجھے جاتے تھے۔
مدرسۂ نظامیہ کی صدارت
درس و تدریس سے فارغ ہونے کے بعد امام غزالی رحمہ اللہ نظام الملک کے دربار میں پہنچے۔ نظام الملک نے ان کی شہرت اور ممتاز قابلیت کی بنا پر انھیں بڑے اعزاز و اکرام سے دربار میں رکھا۔ یہاں اہلِ کمال کا مجمع تھا، علمی مباحثے اور دینی مناظرے، درباروں اور مجلسوں یہاں تک کہ تقریباتِ شادی و غمی کا ایک ضروری عنصر تھے۔امام غزالیؒان مباحثوں میں سب پر غالب رہتے تھے۔ ان کی نمایاں قابلیت دیکھ کر نظام الملک نے ان کو مدرسۂ نظامیہ کی صدارت کے لیے منتخب کیا، جو اس وقت ایک عالم کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور منتہائے ترقی تھا۔ اس وقت ان کی عمر ۳۴/ سال سے زیادہ نہ تھی۔
بغداد میں امام غزالیؒ کی دھوم
۴۸۴ھ میں وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے اور نظامیہ میں درس شروع کیا۔ تھوڑے ہی دن میں ان کے درس، حسنِ تقریر اور تبحرِ علمی کی بغداد میں دھوم مچ گئی۔ طلبہ و علمانے استفادہ کے لیے ہر طرف سے ہجوم کیا۔ ان کی مجلسِ درس مرجعِ خلائق بن گئی۔ تین، تین سو منتہی طالبِ علم اور سو سو امرا و رُؤسا اس میں شرکت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی عالی دماغی، علمی فضیلت اور طاقت ور شخصیت سے بغداد میں ایسا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ ارکانِ سلطنت کے ہم سربن گئے اور بقول ایک معاصر (شیخ عبد الغافر فارسی) کے ان کے جاہ و جلال کے سامنے امرا اور وزرا اور خود بارگاہِ خلافت کی شان و شوکت بھی ماند پڑ گئی۔
امام غزالیؒ کا تجدیدی کارنامہ
امام غزالی رحمہ اللہ نےجو مجددانہ کام انجام دیا، اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛۝۱ فلفسہ اور باطنیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ اور اسلام کی طرف سے ان کی بنیادوں پر حملہ۝۲  زندگی و معاشرت کا اسلامی و اخلاقی جائزہ اور ان کی تنقید و اصلاح۔امام غزالیؒ ’تہافت الفلاسفہ ‘کی تمہید میں لکھتے ہیں : ہمارے زمانے میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جن کو یہ زعم ہے کہ ان کا دل و دماغ عام آدمیوں سے ممتاز ہے ، یہ لوگ مذہبی احکام و قیود کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے سقراط و بقراط ، افلاطون و ارسطو کے پُر ہیبت نام سنے ، اور ان کی شان میں ان کے مقلدوں کی مبالغہ آرائیاں اور قصیدہ خوانی سنی ، ان کو معلوم ہوا کہ ریاضیات ، منطقیات ، طبیعیات و الٰہیات میں انھوں نے بڑی موشگافیاں کی ہیں ، اور ان کا عقل و ذہن میں کوئی ہم سر نہ تھا۔ اس عالی دماغی اور ذہانت کے ساتھ وہ مذاہب اور ان کی تفصیلات کے منکر تھے اور ان کے نزدیک ان کے اصول و قواعد فرضی و مصنوعی ہیں ، بس انھوں نے بھی تقلید ’ انکارِ مذہب کو اپنا شعار بنا لیا اور تعلیم یافتہ اور روشن خیال کہلانے کے شوق میں مذاہب کا انکار کرنے لگے ، تاکہ ان کی سطح عوام سے بلند سمجھی جائے اور وہ بھی عقلا و حکما کے زمرے میں شمار ہونے لگیں ، اس بنا پر میں نے ارادہ کیا کہ ان حکما نے الٰہیات پر جو کچھ لکھا ہے ، اس کی غلطیاں دکھاؤں اور ثابت کروں کہ ان کے مسائل اور اصول بازیچہ ٔ اطفال اور ان کے بہت سے اقوال و نظریات حد درجے مضحکہ خیز بلکہ عبرت انگیز ہیں۔
امام غزالی کی دو ممتاز خصوصیتیں
امام غزالیؒ کی دو خصوصیتیں بڑی ممتاز ہیں؛ اخلاص، علوِّ ہمت۔ ان کے اخلاص کا اعتراف موافق و مخالف سب کو ہے، اور وہ ان کی تصنیفات کے لفظ لفظ سے ٹپکتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اگرچہ ان کے ناقد ہیں اور ان کی بہت سی چیزوں سے ان کو اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان کو کبار مخلصین میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی تاثیر اور مقبولیت کی اصل وجہ ان کا یہی اخلاص ہے، اسی اخلاص نے ان سے اقلیمِ علم کی مسندِ شاہی ترک کروائی اور برسوں دشت و بیاباں کی خاک چھنوائی اور باوجود طلبی و اصرار کے بادشاہوں کے دربار اور اپنے وقت کے سب سے بڑے اعزاز سے روگرداں اور بے نیاز رکھا۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ آخری چیز جو صدیقین کے قلب سے نکلتی ہے وہ حبِّ جاہ ہے، ان کی آخری زندگی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس مقام سے محروم نہیں رہے۔علوِ ہمت ان کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے۔ انھوں نے علم و عمل کے دائرے میں اپنے زمانے کی سطح اور اپنے ہم عصروں کی کسی منزل پر قناعت نہیں کی۔ وہ علم و عمل کے جس ترقی یافتہ مقام پر پہنچے، ان کے کانوں میں یہی صدا آئی ؎
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
علومِ نقلیہ میں بھی وہ اپنے زمانے اور اپنے معاصرین کی عام سطح سے بہت بلند ہیں۔ فقہ و اصولِ فقہ میں انھوں نے جو تصنیفات کیں ، صدیوں تک علما ان کی شرح و تحشیے میں مشغول رہے ، پھر اپنے زمانے کے رواج اور علماے نقلیات کے دستور کے خلاف انھوں نے علومِ عقلیہ کی طرف توجہ کی اور منطق و فلسفےکا اس طرح مطالعہ کیا کہ بقول قاضی ابو بکر بن العربی فلسفے کے جگر اور فلاسفہ کے شکم میں اتر گئے اور پھر ان کی تنقید و تردید میں ایسی کتابیں لکھیں ، جن سے اس کی عمارت ایک صدی تک متزلزل رہی۔
عمل کے سلسلے میں اپنی ذہنی ، علمی ، اخلاقی اور روحانی ترقی و تکمیل کا انھوں نے کوئی گوشہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ علمی تبحّر اور جامعیت و کمال کے ساتھ اپنے وقت کے ایک مخلص و مبصر شیخِ طریقت شیخ ابو علی فارمدی (م ۴۷۷ھ) سے بیعت کی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی ، پھر اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس کے مقاصد و غایات کو پہنچے اور اذواقِ صحیحہ سے لذت آشنا ہوئے ۔[ماخوذ از تاریخِ دعوت و عزیمت]
امام غزالیؒ کی کتابوں کا مطالعہ
احیاء العلوم الدین میں بعض روایتیں ضعیف اور بعض موضوع ہیں، جیسا کہ علامہ عراقیؒ نے اس کی تخریج میں نشان دہی کی ہے، اس لیے عوام کو اس کے مطالعہ کرنے کے لیے پہلے کسی محقق عالم سے مشورہ کرنا چاہیے، یہی حال کیمیاے سعادت وغیرہ کا بھی ہے۔اس لیے جو مسائل اصلاح سے متعلق ہیں، ان پر عمل کرنا شیخ کی اجازت سے جائز ہے او رمذہب کے خلاف مسائل پر عمل کرنا جائز نہیں اور ان کا مطالعہ عالم کے لیے جائز ہے، غیر عالم کو ناواقفیت کی وجہ سے احتیاط چاہیے۔[دیکھیے فتاویٰ محمودیہ مع حاشیہ]


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر