وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

پیر 17 مئی 2021 ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ کیا ہم میں ایک شرمناک سقم اور کرب ناک خلل پیدا ہو چکا؟ ہماری خوشیاں مصنوعی اور غم نمائشی ہوگئے۔ ہمارے قہقہے زہر آلود اور آنسو بے درد دکھائی دینے لگے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

کسی قوم کا زوال ایک واقعے کے طور پر بعد میں سامنے آتا ہے، مگر حقیقی طور پر اس سے کہیں پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ کیا یہ شروع نہیں ہوگیا؟ہماری قومی بحثیں اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس قوم نے عید کا پہلا دن ایسے منایا کہ آج عید نہیں ،اور دوسرا دن ایسے کہ کل واقعی عید ہی تھی۔ عید سے ایک روز پہلے ہم بحث کررہے تھے کہ چاند نظر آنہیں سکتا تھا، پھر اعلان کیسے ہوگیا، بھلا چاند کا اعلان رات ساڑھے گیارہ بجے بھی ہو سکتا ہے؟ عید کے دوسرے دن ہم لوگوں کو چاند دکھا رہے تھے کہ یہ دوسرے دن کا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ہر کسی نے عید کے چاند پر اپنے چاند چڑھائے۔ایک چاند کے اعلان پر ملک میں تمام سیاسی اور مذہبی عصبیتیں جاگ گئیں۔ مفتی منیب الرحمان نے اچانک فتویٰ صادر فرمایا کہ ایک روزہ قضا ہوگا۔ کل تک چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ہوتے ہوئے اُن کا ارشاد ہوتا تھا کہ سرکاری اعلان ہی حتمی ہے۔ کوئی دوسرا انفرادی طور پر اپنا چاند نہیں چڑھا سکے گا۔ وہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی جانب سے چاند دیکھنے کے اہتمام اور اعلان کو ریاستی رٹ کے خلاف قرار دیتے تھے۔ اب وہ چیئر مین رویت ہلال کمیٹی نہیں رہے تو خود بھی مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہی بن گئے۔ اُن کے خیال میں چانددکھائی نہیں دیا تھا۔ اب اُن کا انحصار اُس سائنس کے حساب پر تھا، جسے وہ فواد چودھری کے وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے مذہبی استدلال سے رد کرتے تھے۔ رویت چاند کی مذہبی تشریح کے خلاف فواد چودھری سائنسی طور سے رویت چاند کے آئندہ حساب کو تقویم میں ڈھالنے پر مُصر تھے، جو مستقبل میں سالہا سال تک موثر رہتا۔ فواد چودھری کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا ادارہ ایک ازکارِ رفتہ شے ہے جسے جدید سائنس نے بے افادہ کردیا ، وہ ایک قدم آگے بڑھ کر اسے بے توقیر بھی کرتے تھے۔ مگر غضب خدا کا مفتی منیب الرحمان کے پاس اپنے فتوے کے لیے وہی چاند کی عمر کا حساب کتاب تھا، جو اپنی اصل میں سائنسی تشریح ہے۔ گویا مفتی منیب الرحمان کے اندر ایک مفتی پوپلزئی نہیں بلکہ اُس روز فواد چودھری بھی سما گیا تھا۔ انسانی نفسیات کی یہ گتھی بھی اب مختلف تجربات میں سلجھ گئی ہے کہ اکثر حریف لڑتے ہوئے ایک دوسرے جیسے ہی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مفتی منیب الرحمان کا فتویٰ اُس رویت ہلال کمیٹی کے خلاف تھا جس کے چیئرمین ہوتے ہوئے وہ ایسے ہی فتووں کو دیگر فقہی نکات سے رد کرتے تھے۔ مفتی منیب اپنے فتوے میں اپنے ماضی کے خلاف کھڑے تھے، اور اُن کے فتووں کے الفاظ میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

مفتی منیب پر کیا موقوف! پھر ایک دوسرا فتویٰ بھی آیا۔ یہ چاند کے اعلان پر اعتماد کے لیے تھا۔ اس فتوے کے تحت روزے کی قضا ضروری نہ تھی۔ اعلان درست تھا۔ اس میں یاد کرایا گیا کہ ماضی میں بھی اسی نوع کی گواہیوں پر چاند چڑھائے گئے۔ گویا اگر چاند کے ساتھ کوئی چاند ماری کی گئی ہے تو ماضی میں یہی حرکتیں مفتی منیب الرحمان کی ذاتِ گرامی قدر سے بھی سرزد ہوئیں۔ اس فتوے میںچمنِ شریعت میں کھلنے والے پھولوں کی خوشبو نہیں بلکہ فرقہ وارانہ تعصب کا تعفن اُٹھ رہا تھا۔ہماری مذہبی بصیرت، معیارِ شریعت اور فقہی منزلت تعصب اور جاہ طلبی کی قَے کے سواکچھ نہیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟اس دوران میں ایک صاحب حافظ طاہر اشرفی نے اچانک بیان داغا کہ ہم نے اکیس سال بعد قوم کو ایک عید کا تحفہ دیا۔ حافظ طاہر اشرفی ایسے لوگ جس حکومت میں ہو، اُسے اپنی ساکھ کے لیے ویسے بھی کافی محنت کرنا پڑتی ہے، مگر عمران خان کی جو حکومت ہے، اس میں طاہر اشرفی جیسے لوگوں کوبھی اپنی ساکھ کی پروا رہنی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ طاہر اشرفی نے رویت ہلال کمیٹی کی ’’چاند چڑھائی‘‘ کو اپنی سرپرستی میں لینے کی کوشش کیوں کی؟ اس طرح یوں لگا کہ رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھ رہی تھی اور حافظ طاہر اشرفی کی حکومت کمیٹی کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اکیس سال بعد قوم کو ایک عید کا تحفہ دینے کے بیان سے یہ سوال زیرگردش آیا کہ کیا ہم چاند دیکھ رہے تھے یا ’’تحفہ‘‘ تیار کررہے تھے۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مسجد قاسم علی خان سے عید کا اعلان پہلے ہی ہوچکا تھا۔ اگر یہ ایک عید کا تحفہ تھا تو مفتی پوپلزئی اعلان نہ کرتے، اور رویت ہلال کمیٹی یہ اعلان کرتی۔ رویت ہلال کمیٹی نے پیروی کی تھی ، قیادت نہیں۔ یہ اتفاق نہیں بلکہ دُم پکڑ کر دَم لینے کی کوشش تھی۔ حافظ طاہر اشرفی ایسے لوگ بازی گر ہوتے ہیں، حکمت کار نہیں۔ افسوس قوم کے اجتماعی معاملات کن ہاتھوں میں ہیں؟ ہم بھی کیالوگ ہیں؟

سوال یہ ہے کہ ایک چاند کے اعلان پر اس نوع کے مباحث کیوں جنم لیتے ہیں؟ یہ سادہ سی بات نہیں۔ قوم کے ریاست پر اعتماد کا معاملہ ہے۔ غور کیجیے! یہ بحثیں نشاندہی کرتی ہیں کہ عوام یا شہری حکومتوں کی جانب سے چاند کے اعلان پرلوگ عید تو منا لیتے ہیں مگر وہ حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اگر انہیں چاند کے اعلان کے لیے کوئی متبادل بندوبست ملے تو وہ رویت ہلال کمیٹی کو نظر انداز کردیں۔ حکومت کے اعلان کی بھی پروا نہ کریں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سادہ چاند کا معاملہ نہیں۔ حکومتوں کے ظاہر وباطن سے جڑا سب سے سنگین پہلو ہے۔ شہریوں کا حکومت اور ریاست پر اعتماد کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ یہ براہِ راست ریاست یا حکومت کی ساکھ سے جڑا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سات دہائیوں میں ریاست اور اُسے چلانے والے حکمرانوں یا طاقت کے مراکز نے کون سی ساکھ بنائی ہے؟ان تمام قوتوں نے قوم سے جھوٹ بولنے کے علاوہ کیا کِیا ہے؟قوم کے ساتھ خیانت کے علاوہ ان کی فردِ عمل میں رکھا کیا ہے۔ انتہائی حساس اور قومی نوعیت کے معاملات میں بھی ہمارے حکمرانوں اور طاقتور مراکز نے خیانت کی ایک مکروہ تاریخ بنائی ہے۔ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان سے آج تک ہماری قومی طاقت کے مراکز کسی ایک معاملے میں بھی عوام کے لیے اعتماد افزاء فضا پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ عوام خوامخواہ یہ نہیں سمجھتے کہ حکومتیں جھوٹ بولتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ چاند کا اعلان بالکل درست ہوا ہو، پھر بھی قومی تاریخ سے بننے والا عوامی ذہن حکومتوں سے بدگمانی رکھنے کا جواز رکھتا ہے۔ جہاں امریکا سے تعلقات کی تاریخ قومی حمیت کی قیمت پر بنائی گئی ہو، سقوط ڈھاکا ہوا ہو، مسئلہ کشمیر دہائیوں سے ہمارے انحراف کی قیمت ادا کررہا ہو، بھارت سے نفرت اور درونِ خانہ ایک تال میل رکھی گئی ہو، جہاں امریکا کی خوشنودی کے لیے مسلم بھائیوں کا خون تحفتاً پیش کیا جاتا ہو، جہاں توہین رسالت ﷺ کے معاملے میں بھی مکروہ سیاسی اہداف رکھے گئے ہو، جہاں سیاسی جماعتوںپر گرفت کے لیے مذہبی اختلافات کو جنم دیا گیا ہو، احتجاج کی سرکاری سرپرستی کی گئی ہو، قتل وغارت گری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، وہاں ایک چاند کے معاملے پر سیاست کیوں نہیں کی جاتی ہوگی؟ چاند کے معاملے میں عوامی اعتماد کی کمی دراصل ریاست کی ساکھ سے جڑی ہے۔ ایک حکومت مسلمانوں کے عظیم اور مذہبی تہواروں کی حقیقی خوشیوں کو بھی مناسب اعتماد نہ دے سکے، وہ ہماری زندگیوں میں دخیل کیسے ہوسکتی ہے، اس پر عوام لعنت نہ بھیجے تو کیا کریں؟ کیا ہمارے طاقت ور حلقے کبھی یہ سوچتے ہوں گے کہ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر