وجود

... loading ...

وجود
وجود

معاشی حالت اور ماہرین

بدھ 10 مارچ 2021 معاشی حالت اور ماہرین

ہر پاکستانی اپنے وطن کو مضبوط ،خوشحال اور ترقیافتہ دیکھنا چاہتا ہے مگرمحض خواب دیکھنے سے منزلیں نہیں ملتیں بلکہ محنت اور کوشش کرنا پڑتی ہے لیکن ہمارے ماہرین اِس طرف دھیان نہیں دیتے انتخابی کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے والے حضرات نے ہمیشہ یہی خوشخبری سنائی کہ ہم ملک کومعاشی لحاظ سے خوشحال اور مضبوط بنائیں گے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہورہا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ معاشی حالت مزید خراب ہورہی ہے اب تو حالات اِس نہج پر آچکے ہیں کہ قرض دینے والے ممالک یا اِدارے ہمیں رقوم دینے سے پس و پیش سے کام لینے لگے ہیں جس کا حل اثاثے گروی رکھ کر قرض لینے کی صورت میں تلاش کر لیا ہے لیکن ادائیگی کی سکت بھی ہے یا نہیں شایداِس پہلو پرتوجہ نہیں دی جا رہی ابھی حال ہی میں ا سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کا مجموعی قرضہ 365 کھرب 37ارب روپے ہوگیا ہے اگر ملکی معیشت کی طرف نگاہ دوڑائیں تو اِتنے بڑے قرض کے پہاڑ کی ادائیگی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن محسوس ہونے لگی ہے حالات یہاں تک دگرگوں ہو چکے ہیں کہ تجارت میں برآمدات کا حصہ کم جبکہ درآمدات کا بڑھ رہا ہے یہ تفاوت مستقبل قریب میں کم ہوتا دکھائی نہیں دیتا سے محبت ہے ۔

زرِ مبادلہ کے حصول کے ذرائع برآمدات،ترسیلاتِ زر،سرمایہ کاری اور قرض ہیں اگر ملکی برآمدات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو صورتحال اچھی نظر نہیںآتی گزشتہ کئی برس سے جمود طاری ہے پاکستان بیوروآف شماریات کے مطابق رواں برس جنوری میں دوارب چارکروڑ نوے لاکھ سے کم ہوکر فروری میں دوارب چودہ کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں مطلب برآمدات میں کمی 4.52 ہے اوردرآمدات میں کمی کے باوجود تجارتی خسارہ 10.64فیصدہوگیاہے بہتری کے امکانات بھی کم ہیں پاکستان کی کم ہوتی برآمدات میں بہتری کے لیے زرعی وصنعتی پیدوار بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن دعوئوں کے باوجود ابھی تک اِس حوالے سے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے صرف کپاس کی پیداوار دیکھ لیںماہرین کی عدم توجہی سے تیس برسوں میں ملکی کاٹن کی پیدوار سب سے کم ہوئی ہے لیے حالانکہ کپڑے ودھاگے کا روئی پر انحصار ہے پھربھی قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کپاس کی پیدوار میں مسلسل کمی خطرے کا الارام ہے باجود اِس کے ہنوز کسی نے توجہ مرکوز نہیں کی جبکہ بھارت دنیا کی پچیس فیصد کاٹن پیداکرنے والا دنیاکا سب سے بڑاملک بن گیا ہے چین 23 فیصد کے ساتھ دوسرے،امریکاپندرہ فیصد کے ساتھ تیسرے جبکہ برازیل دس فیصد پیدا وار کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر ہے اگر چاروں ممالک کی کاٹن پیدوار یکجا کریں تو یہ دنیا کی کل کاٹن کا تہتر فیصد بنتا ہے چاروں ممالک نے یہ منزل معیاری بیج اور سہولیات دے کر حاصل کی ہے اگر وطنِ عزیز کی طرف دیکھیں تو صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے یہ زوال 1982سے جاری ہے اگر کسانوں کودرپیش غیر معیاری بیج اور مہنگی ادویات جیسے مسائل حل کردیے جائیں تو پیدوارمیں بہتری ممکن ہے ویسے بھی پانی کی کمی کے شکار ملک کے کسانوں کا گنے و دیگر فصلوں کی طرف مائل ہونا پانی کے کم ہوتے زخائر کے لیے بہتر نہیں۔

ترسیلاتِ زر ماہانہ دوارب ڈالر سے ضرور بڑھ گئی ہیں اور پاکستان کا شمار ترسیلاتِ زروصول کرنے والے دنیا کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں ہونے لگا ہے جس سے زرِ مبادلہ کے زخائر مستحکم رکھنے میں مدد مل رہی ہے یہ بہتری عارضی سہارہ ہے اور اِسے کسی تبدیلی سے نتھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بھارت ،چین اور فلپائن جہاں حکومتیں تبدیل نہیں ہوئیں بلکہ پُرانا سیٹ اَپ ہی ہے پھر بھی مزکورہ تینوں ممالک پاکستان سے ذیادہ ترسیلاتِ زروصول کر رہے ہیں ہمارے تارکینِ وطن سالانہ اکیس ارب ڈالرپاکستان بھیجتے ہیںجس کی وجہ سے پاکستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے لیکن بھارت78.6 کے ساتھ اول نمبر پر ہے جبکہ چین 67.4کے ساتھ دوسرے اور فلپائن 33.8ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے بھارت اور چین کی تو آبادی پاکستان سے ذیادہ ہے لیکن فلپائن کی آبادی توہم سے بھی نصف یعنی محض گیارہ کروڑ ہے پھربھی اُس کا ترسیلاتِ زر میں ہم سے ذیادہ حصہ ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ کسی ماہر کی مہارت کامرہونِ منت نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی محنت اور اپنے خاندانوں سے محبت ہے وہ دن رات کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی وطن ارسال کر تے ہیںذراسی توجہ دیکر ہُنر مند افرادی قوت تیار کی جائے اورجو جس ملک جانا چاہتا ہے اُسے اُسی ملک کی زبان سکھانے پر کام کیا جائے تو بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم میں مزید اضافہ ہو سکتاہے مگر ہمارے ماہرین خراب معاشی حالت کے باوجود عملی طور پر کچھ کرنے کو آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستان جیساکمزور معیشت کا حامل زرعی ملک چینی ،گندم ،چائے سمیت دیگر اجناس درآمد کرکے زرِ مبادلہ کے مستحکم نہیں رکھ سکتا اِس لیے معاشی ماہرین کو منصوبہ بندی سے کام لینا ہوگا ملکی ضروریات کے لحاظ سے اجناس کی پیدوار پر توجہ دینا ہوگی تبھی مضبوط ،خوشحال اور ترقیافتہ پاکستان کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔

سرمایہ کاری کی طرف نگاہ دوڑائیں تو بھی صورتحال اچھی نظر نہیں آتی کیونکہ گزشتہ برس جولائی سے رواں برس جنوری تک سرمایہ کاری 755 ملین ڈالر تک سمٹ آئی ہے حالانکہ گزشتہ بر س کے اِسی دورانیے کا جائزہ لیں تو سرمایہ کاری کا حجم تین ارب چوالیس کروڑ ڈالر نظر آتا ہے بیرونی سرمایہ کاری میں اٹھہتر فیصد کمی کا زمہ دار کِسے ٹھہرائیں کیونکہ جواب میں ترسیلاتِ زر میں اضافے کو کارکردگی بتانا شروع کر دی جاتی ہے البتہ عالمی اِداروں سے قرض کے حصول کے لیے نارواشرائط تسلیم کرنے اور ملک میں بجلی ،تیل ،گیس مہنگی کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے حالانکہ منصوبہ بندی سے معاشی بہتری لانے کی بجائے قرض جیسے سہل طریقے پر انحصار ناکامی کا اعتراف ہے حالانکہ روزگار کے مواقع بڑھانے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر آپریشنل نہیں کیا اور زرعی پیدوار بڑھانے پر توجہ نہیں دی جاتی تو بے روزگاری ،مہنگائی اور بھوک افلاس میں اضافہ ہوگا جس کے سیاسی مضمرات ناخوشگوار ہوسکتے ہیں۔

ملک میں وسائل کی کمی نہیں نہ ہی ہُہنر مندوں کا فقدان ہے عسکری قیادت نے ملک کی حساسیت کا ادراک کیا اسی بنا پر قلیل وسائل کے باجود پاکستان دنیا کی دسویں بڑی عسکری قوت بن چکا ہے وائے افسوس کہ معاشی طاقت نہیں بن سکا اگر عسکری قیادت شب وروز کی محنت سے ملک کو نا قابلِ تسخیر بنا سکتی ہے تو سیاسی قیادت ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ اُسے کیا مجبوریاں درپیش ہیں بدعنوانی اور سہل کوشی ترک نہیں کی جاتی تو ملک واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی سکت کھودے گا ابھی قرض تین سو پینسٹھ کھرب سینتیس ارب ہے جس کی اقساط کی ادائیگی اور سودکے لیے مزید قرض لیا جارہا ہے جس سے قرض میں سالانہ گیارہ فیصدسے ذیادہ اضافہ ہوتاجارہا ہے اب اگر ادائیگی دشوار ہے تو کل کیسے سہل ہو سکتی ہے اغیار سے مستعار لیے معاشی ماہرین توحالات کی خرابی پر اپنے پسندید ہ ملک چلے جائیں گے اصل مسئلہ تو ملک کے باسیوں کو درپیش ہو گا جنھیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا پڑے گی اگر معاشی ماہرین محنت و لگن سے نتیجہ خیز پالیسیاں بنا کر عملدرآمد کرنے سے نہ صرف نیک نامی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ مضبوط،خوشحال اور ترقیافتہ پاکستان کے خواب کو بھی تعبیر مل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر