وجود

... loading ...

وجود
وجود

آپ کا اعتبار کون کرے

منگل 16 فروری 2021 آپ کا اعتبار کون کرے

سیموئل بیکٹ کا واسطہ عمران خان ایسے لوگوں سے رہا ہوگا، کہا:دنیا میں اشکوں کی تعداد ایک سی رہتی ہے“۔ ڈراما نگار کو یہ فقرہ حکومتوں کی جانب سے انسانوں کی تقدیر اور دکھوں میں کمی نہ لانے کے حوالے سے سوجھا تھا۔ عمران خان کی چال میں بھی اشک وہی بہتے ہیں جو عہد زرداری اور دورِ نوازشریف میں بہتے تھے۔ مہنگائی، بربادی، نامرادی،وہی وعدے، وہی پھندے، وہی ہتھکنڈے۔پھر ہماری ریاضت ِ نیم شبی کی صبح کہاں ہے؟

دریا نے اب اُلٹے سمت بہنا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں دو اہم مگر خطرناک پھلجڑیاں چھوڑیں۔ ملک کا مستقبل 5 سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا۔ عمران خان نے مدت کے ساتھ طرزِ حکمرانی کا مسئلہ بھی دھیمے سُروں میں چھیڑتے ہوئے کہا کہ ”چین کے اندر جو ہوا وہ معجزہ ہے، دنیا کی تاریخ میں اتنی تیزی سے ترقی کہیں نہیں ہوئی اور چین کے اس معجزے کا راز یہی ہے کہ ان کی طویل مدتی منصوبہ بندی ہے“۔ظاہر ہے وہ چین کی جس طویل مدتی منصوبہ بندی کا ذکر کر رہے ہیں وہ براہِ راست طویل مدتی اقتدار کے آمرانہ طرزِ حکمرانی سے جڑا ہے۔ چین کی اپنی تاریخ وتہذیب ہے۔اُ س کی ترقی کی جڑیں بھی گہرے امتحانات کی اُسی تاریخ و تہذیب میں ہیں۔چھ ہزار سال کی تاریخ رکھنے والا چین صدیوں تک ترقی یافتہ قوم اورمشرقی ایشیا کے تہذیبی مرکز کے طور پر دنیا کی تسلیم شدہ حقیقت رہا۔ چین نے اپنے نظمِ مملکت کو اپنی تاریخ و تہذیب کے اسی بطن سے تخلیق کیا۔ جس میں وزرائے اعظم وصدور کے انتخاب کا اپنا طریقہئ کار ہے۔ یہ مغربی جمہوریتوں سے مستعار نظام نہیں۔ نہ اس میں مغربی فلاحی تصورات کی وہ جگالی ہے جو ہمارے وزیراعظم عمران خان اکثر بعض مغربی ممالک میں اسلام کے فلاحی تصورات کی جھلک کے طور پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ مشکل ترین کام وہ اتنی آسانی سے کیسے کرلیتے ہیں؟وزیراعظم کی جانب سے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے پانچ سال ناکافی قرار دینے اور اُسلوب حکمرانی کے لیے چین کی طرف للچائی نگاہوں سے دیکھنے کی اس حالیہ کوشش میں خطرے کی کئی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ دوسری طرف اس میں عمران خان کی ناکامی کا ایک اعتراف بھی موجود ہے۔

عمران خان کی جانب سے اقتدار کی مدت یا نوعیت کی بحث اُن کی ناکام حکومت کے بعد انتہائی ناموزوں لگتی ہے۔ درحقیقت عمران خان نے اپنا نہایت قیمتی وقت ضائع کردیا۔ وہ تین سال میں کچھ بھی فرق ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ نہ نظم حکمرانی میں بہتری لاسکے اور نہ عوام کو کوئی راحت پہنچا سکے۔آج کی ہی بات لیجیے!پیٹرولیم مصنوعات چار سے ساڑھے پانچ روپے فی لیٹر مہنگی کرنے کی تیاری ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ڈھائی ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات میں چھٹی مرتبہ اضافہ ہوگا۔وزیراعظم عمران خان نے تین دن میں تین مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ عمران خان کی یہ خوبی کمال کی ہے، وہ انتہائی بے نیازی سے مہنگائی ہونے دیتے ہیں، پھر انتہائی ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ساتھ میں ایک اعلان بھی کہ مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں قدیم زمانے میں ملا نصیرالدین کیا کرتے تھے۔مگر ملانصیرالدین کی تو باتیں ہی تھیں، اس لیے ہنسی بھی آتی ہے مگر یہاں تو یہ باتیں بھگتنا بھی پڑتی ہیں، چنانچہ عوام کے پاس رونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستا نہیں رہا۔ عمران خان نے حریفوں کو زیر کرنے کا بیکار ہدف سامنے رکھا۔ اقتدار یافت کرنے کے بعد حریفوں کو انتقامی ذہنیت سے نہیں کارکردگی سے زیر کیا جاتا ہے۔ وہ یہ دونوں کام بھی کرسکتے تھے، جس کا اُن کے پاس موقع، ماحول، بھی تھا اور گنجائش و حمایت بھی۔مگر وہ کارکردگی تو کیا دکھاتے، جو مرکزی ہدف ہی نہیں تھی، وہ اپنے حریفوں کوزیر کرنے کی اصل مگر غلط ترجیح کو بھی پورا کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔ چنانچہ اب اقتدار کے تیسرے برس وہ محسوس کررہے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی باگ اُن کے ہاتھ میں نہیں، اُن کے پا س پیش کرنے کو کوئی فردِ عمل نہیں۔ اگر پاکستانی تاریخ کی سفاک حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو درحقیقت وہ شدید خطرات کی دھند میں ہیں۔ اقتدار کا آخری یعنی پانچواں برس کسی حکمران کے لیے مثالی ثابت نہیں ہوتا۔ وہ آخری برس کارکردگی کے نام پر کچھ بھی دکھانے کا اس لیے اہل نہیں ہوتا کیونکہ سرکاری مشنری جانے والے وزیراعظم کی رخصتی اور آنے والے حکمران کے تیوروں سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ حکومتی مشنری دانستہ تساہل، تجاہل اور تغافل میں چلی جاتی ہے اور نئی حکومت کے انتظار میں رہتی ہے۔ یوں نظم مملکت ٹھپ رہتا ہے۔عمران خان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حکومتی مشنری کو نظمِ مملکت کے بوسیدہ اور کہنہ ادوار سے کاٹ کر نئے عہد کی بشارت کا یقین نہیں دلا سکے۔ حکومتی مشنری بدعنوان سیاسی و عسکری اشرافیہ کے ساتھ خود بھی ایک شراکت دار ہے۔ چنانچہ وہ عمران خان کے دعووں، وعدوں اور منصوبوں کو کامیاب بنانے کے بجائے اس میں ایک رکاؤٹ ہے۔ اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ سرکاری مشنری کے اہم پرزوں نے ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ سازباز کرکے حکومت کی بہت سی ناکامیوں کو یقینی بنانے میں ایک سازشی کردار ادا کیا ہے۔ اب ایسی سرکاری مشنری سے یہ امید رکھنا کہ وہ اقتدار کے آخری دو برسوں میں حکومت کی کامیابی کا ”مغالطہ“ پیدا کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب بنائے گی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔وزیراعظم اصلاح احوال کی ابتدائی کوششوں کو بھی منظم کرنے میں ناکام ہوگئے، پھر اُنہوں نے ریاست کے تمام فشاری اور متحرک گروہوں کو اپنا حریف بنالیا۔ ایسے میں صرف اسٹیبلشمنٹ کا سہارا کتنی دیر اور دور تک اُن کی مدد کرسکے گا؟

درحقیقت کسی بھی وزیراعظم کو اپنی کارکردگی کی سمت کا تعین ابتدائی سو دنوں میں کرنا ہوتا ہے اور اس میں کامیابی کی تصویر اقتدار کے تیسرے او رچوتھے برس دکھانی ہوتی ہے۔ عمران خان کا تیسر اسال اگست میں ختم ہوگا اور تیسرے کی طرح چوتھے سال کے لیے بھی کسی منصوبے کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ البتہ کچھ وزارتوں کے متعلق یہ سرگوشیاں جاری ہیں کہ اس میں جنم لینے والے اسکینڈلز کب اور کیسے سامنے آتے ہیں؟ عمران خان حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی تو کم ازکم کسی مثالی حکومت کی شفافیت کا کوئی تاثر ہی پیدا کرنے میں کامیاب رہتی۔ مگر وہ ایسا بھی نہیں کرسکی۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ واضح کردیا ہے کہ کرپشن کے اشاریے گزشتہ سال کے مقابل زیادہ بدتر ہیں۔ گویا کارکردگی کے میدان میں عمران خان اب کسی بڑی تبدیلی پر قادر دکھائی نہیں دیتے۔

حالات کے اس خوار و خجل پس منظر میں وزیراعظم عمران خان نے نہایت چابکدستی سے اب بحث کا رخ اقتدار کی مدت ونوعیت کی جانب موڑ دیا ہے۔ عمران خان کے مدینہ کی ریاست کے سرمدی تصورکا پانی اب چین کے نظام میں موجود دستوری آمریت پر مرنے لگا ہے۔ یاد کیجیے! عمران خان کرپشن، کرپشن کی جگالی کرتے ہوئے ہمیں بار بار، بتکرار اور بصداِصرار حضرت عمرؓ کا وہ واقعہ سناتے تھے جس میں اُن سے کوئی کرتے کا حساب مانگتا ہے۔ سب سے پہلے عمران خان کو اپنے حالیہ اقتدار کے کرتوں کا حساب دینا چاہئے پھر اُنہیں اقتدار کی نوعیت یا مدت پر سوال اُٹھانا چاہئے۔ وہ اپنے ہی اعلان کردہ معیارات پر خود کو پرکھنے کے لیے پیش کرنے کوتیار نہیں۔ مگر اب باتیں طویل مدتی اقتدار اور چین طرزِ حکمرانی کی کررہے ہیں۔ اُن کے یہ تصورا ت بھی ناقص ہیں، اس کا جائزہ آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں نکتہ صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پانچ سال کو اپنے لیے ناکافی قرار دے کر طویل مدت اور آمرانہ اُسلوب حکمرانی پر اِصرار نے یہ واضح کردیا ہے کہ عمران خان کو خود بھی یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وہ پانچ سال میں حکومت کو کامیاب تو کیا دکھا پائیں گے، اس کا کوئی مغالطہ بھی پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے۔ داغ دہلوی یہ کیا کہہ گئے:
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر