وجود

... loading ...

وجود
وجود

سینیٹ الیکشن اور بلوچستان

جمعرات 04 فروری 2021 سینیٹ الیکشن اور بلوچستان

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 29 جنوری کو پنجاب کے شہر ساہیوال میں کامیاب جوان پروگرام کے تحت چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل ہی ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ بات درست ہے مگر سوال یہ ہے کہ ریٹ صرف حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والا کوئی رہنماء لگارہا ہے یا مجموعی سیاسی ماحول کے اندر یہ قبیح فعل رائج ہے۔ ویسے عمران خان کی حکومت سے جڑی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔ حزب اختلاف کو پیچھے دھکیلنے کی بجائے اگر عوام کی بہبود اور مسائل پر مزید توجہ دی جائے تو یہ ان کی آئندہ سیاست کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔سینیٹ انتخابات میں خرید و فروخت کی گیم ختم کرنا عمران خان کے کاندھوں پر عائد اہم فریضہ ہے۔ ایسا کرنے میں کامیاب ہوں گے تو بلا شبہ مثبت اور شفاف سیاسی جمہوری ماحول کو فروغ ملے گا۔ دیکھا جائے توموجودہ سینٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا اسی خرید و فروخت کی پیداوار ہیں۔ سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے اندر وہ سارا تماشا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ان سے ملی دوسری جماعتوں کے اشتراک کا نتیجہ ہے۔تب پیپلز پارٹی نے ن لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور دوسری جماعتوں کی رضا کے برعکس اپنی جماعت کے قد آور رہنماء رضا ربانی کو مسلم لیگ ن کا نمائندہ کہہ کر ان پر بلوچستان کے صادق سنجرانی کو ترجیح و فوقیت دے کر کامیاب کرایا۔ حالاں کہ صادق سنجرانی کا سینیٹر بننا بھی دولت کا کرشمہ تھا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی 27 جنوری کو فرما چکے ہیں کہ بلوچستان میں سینیٹ ٹکٹوں پر کبھی خرید و فروخت نہیں ہوئی۔ جام کمال خان بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر ہیں جسے اب تک سینیٹ ٹکٹوں کے لیے 80 کے قریب درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ ان میں نیشنل پارٹی کے سینیٹر اشوک کمار کی درخواست بھی شامل ہے، ان کا تعلق نیشنل پارٹی سے تھا، انہوں نے 2020ء میں پارٹی فیصلے کے برعکس آرمی چیف مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کے حق میں ووٹ دیا، نیشنل پارٹی نے جماعتی پالیسی کیخلاف جانے پر اسے فارغ کردیا تھا، انہوں نے پارٹی ٹکٹ کیلئے جواز بھی یہی پیش کیا ہے کہ انہیں اس بناء پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

 

دیکھا جائے تو اشوک کمار نے ضمیر فروخت کیا ہے، ’باپ‘ پارٹی اگر سمجھتی ہے کہ ان کی جماعت جمہوری اصولوں پر قائم ہے تو ضمیر کا سودا کرنیوالے شخص کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے۔ بلوچستان وہ بد نصیب صوبہ ہے کہ جہاں سینیٹ ٹکٹیں در پردہ فروخت بھی ہوئی ہیں اور سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کے ووٹ بھاری رقوم سے خریدے بھی گئے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے آنیوالے سرمایہ دار بھی یہاں سرمایہ لگاکر کامیاب ہوچکے ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی دراصل جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے گناہ کی پیداوار ہے۔ ان جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ بن کر صوبے میں ن لیگ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرائی، عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے، یہ جماعتیں گویا اس 6 ماہ کی حکومت میں بلواسطہ شریک رہیں، اہم محکمے ان کے تصرف میں دیئے گئے، ان کے لوگ نوازے گئے۔اس حکومت کے دوران مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات آن پہنچے، پھر بھانت بھانت کے لوگ سرمائے کے بل بوتے اور اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر سینیٹرز کامیاب کرائے گئے۔ پیپلز پارٹی عدم اعتماد کے گناہ اور سینیٹ انتخابات میں اراکین بلوچستان اسمبلی کے خرید و فروخت میں شامل رہی۔ تب ہی تو حاصل بزنجو مرحوم نے بلوچستان کے ان امیدواروں پر عسکری گروپ کی پھبتی کسی تھی۔ چناں چہ اس ضمن میں نوازشات مخفی لوگوں پر بھی ہوئیں، جو لوگ سینیٹر بننے سے رہیں، انہیں حکومت میں اسپیشل اسسٹنٹ اور دوسرے ذرائع سے کھپایا گیا تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں، یہاں تک کہ صوبے میں نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر میں بھی خطیر رقم کی تقسیم ہوئی۔یہ پیسہ ان لوگوں نے لیا جو اس وقت بھی ’باپ‘ پارٹی کے اندر اہم مناصب پر بیٹھے ہیں، اچھا خاصہ حصہ ماسٹر مائنڈ بھی حاصل کرگئے، معلوم نہیں جام صاحب کیوں انجان بننے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ آنیوالے مارچ میں سینیٹ الیکشن میں نئی کہانیاں بننے کے امکانات بھی بہت روشن ہیں۔ لہٰذا ان مکروہات پر دلالت نہیں کرنی چاہئے۔ جام کمال اس پہلو پر خاموش رہنے کی حکمت عملی اپنائے اور صوبے کے اندر گورننس پر توجہ مرکوز رکھیں۔پہلو یہ بھی مد نظر رہے کہ بیشک بیورو کریسی کی جہاں خامیاں ہوں دور کریں، مگر بحیثیت مجموعی بیورو کریسی کو مختلف اطراف کے غیر آئینی دبائو سے نکالیں تاکہ صوبے کے اندر کار سرکار میں خلل و تعطل نہ رہے۔ نیب کی وجہ سے افسران و سرکاری ملازمین کام اور اقدامات سے خوفزدہ ہیں۔چیف سیکریٹری کیپٹن (ر) فضیل اصغر کی کئی جانب سے کردار کشی اور ٹرائل ہورہا ہے مگر اس غیر شائستہ محاذ کی بجائے خود جام کمال کی جانب سے اعلیٰ افسران کی ہتک کی باز گشت ہے۔ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی میں ہونے والے اجلاسوں میں اعلیٰ افسران کی تضحیک کی باتیں نکل آئی ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری عبدالرحمان بزدار کو اجلاسوں میں ایسے ہی ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پھر انہیں منصب سے ہٹایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر