وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاست کی لاٹھی اور کرپشن کا سانپ

جمعرات 28 جنوری 2021 سیاست کی لاٹھی اور کرپشن کا سانپ

سندھ حکومت کی وفاق کے ساتھ نہیں نبھ سکتی ۔کم ازکم گزشتہ بارہ برس کا ’’سیاسی مشاہدہ ‘‘تو یہ ہی بتاتا ہے کہ وفا ق میںپاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پھر تحریک انصاف کی ۔بہر صورت وزیراعلی سندھ اور وزیراعظم پاکستان کے مابین مختلف سیاسی و انتظامی معاملات پر سیاسی نوک جھونک تسلسل کے ساتھ جاری ہی رہتی ہے اور سندھ حکومت، وفاق کے ساتھ کسی ایک قومی مسئلہ پر بھی قدم سے قدم ملا کر چل نہیں پاتی۔اَب تو خیر سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دیرینہ سیاسی حریف جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان ہیں لیکن جب ماضی قریب میں محترم آصف علی زردادی کے سیاسی حلیف ، ہم نوالہ و ہم پیالہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان ہواکرتے تھے ،تب بھی سندھ حکومت کی وفاق سے ہر چھوٹے ،بڑے انتظامی معاملے پر شکوے اور شکایات ختم ہونے کا نام نہیںلیتی تھیں۔ بس فرق فقط اتنا پڑا ہے کہ اُس وقت وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حوالے سے ذرائع خبریں دیا کرتے تھے کہ وہ کسی بھی وقت وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کرسکتے ہیں جبکہ آج کل ویسی ہی خبریں ،پیپلزپارٹی کے معتمد ترین ذرائع وزیرداخلہ شیخ رشید کے حوالے سے دے رہے ہیں کہ ’’ وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کے حالیہ دورہ سندھ اوراہم حلقوں سے ان کی ملاقاتوں کوپیپلزپارٹی کی جانب سے انتہائی باریک بینی سے مانیٹرکیا گیا ہے جس میں اس بات کے قوی شواہد ملے ہیں کہ کسی بھی وقت وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری ہوسکتی ہے‘‘۔اُڑتی ،اُڑتی سی اس خبر کو کچھ مہمیز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر بحری اُمور علی زیدی کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی سے ملتی ہے۔ وگر نہ اعلی سطح کے اجلاس میں ،دو اعلی سطح کی شخصیات کے درمیان بدزبانی و بدتہذیبی کا واقعہ رونما ہوتا ہی کیوں ؟۔اَب اگر واقعہ پیش آ ہی چکا ہے تو یقینااس کے کچھ نتائج بھی نکلیں گے اور بعض سیاسی تجزیہ کاروںکے نزدیک وہ ممکنہ نتیجہ ،وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتار ی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتاہے ۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ سندھ کے منتظم اعلیٰ کی گرفتاری کے بعد جس طرح کے سیاسی و انتظامی مضمرات کا سامنا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور سیاسی جماعت کو پاکستان بھر میں بالخصوص سندھ میں کرنا پڑ سکتاہے ،کیا ایک لمحہ کے لیے بھی اُس ممکنہ غیر معمولی صورت حال کی پیش بندی کے متعلق تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سوچ و بچار کی زحمت گوارا کی ہے؟۔ کیونکہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما ،حکومتی مشیر ، حکومتی وزیر کی گرفتاری اور ایک صوبہ کے وزیراعلیٰ کو پابند سلاسل کرنے کے درمیان زمین اور آسمان کا تفاوت پایا جاتاہے ۔ اگر اس تیکنیکی آئینی فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تو عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو لینے کے بجائے ،اُلٹا دینے نہ پڑ جائیں اور مخالفین کے سر سے آسمان کھینچنے کے فراق میں کہیں ان کے اپنے پاؤں کے نیچے سے ہی زمین نہ کھسک جائے ۔ دراصل سیاست میں کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اُس اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جوابی ردعمل کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہوتاہے۔شاید اسی لیے سیاست کے اُستاد نصیحت کرتے ہیں کہ’’ چائے کی پیالی میں فقط اتنا ہی طوفان پیدا کرنا چاہئے کہ بعدازاں آپ سکون سے بیٹھ کر چائے بھی پی سکیں اور آپ کے کپڑے بھی خراب ہونے سے محفوظ رہیں‘‘ ۔اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے آئینی و سیاسی بحران کے تمام مضر نتائج و عواقب پر اچھی طرح سے غور و فکر فرمالیا ہے تو پھر سو بسم اللہ ! کرلیجئے ،وزیراعلی سندھ کو گرفتا ر ۔

دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی نیب کے ہاتھوں ممکنہ گرفتاری، کے پیش نظر پیپلزپارٹی نے بھی سندھ اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی اور نیاوزیراعلی سندھ لانے کا فیصلہ یکسر مسترد کرتے ہوئے۔اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت کو سیاسی اشاروں کنایوں میں واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نیب حراست میں رہتے ہوئے بھی وزیراعلی سندھ کی حیثیت سے بدستور حکومتی اُمور انجاد یتے رہیں گے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کے آئینی ماہرین کی جانب سے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ پرجرم ثابت ہونے تک بطوروزیراعلی کام کرنے کاقانونی راستہ موجود ہونے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس کے بعدپیپلزپارٹی کی اعلی ترین قیادت نے بھی مراد علی شاہ کو گرفتاری کے بعد بھی سندھ کا وزیراعلیٰ رقراررکھنے کی توثیق کردی ہے۔اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ واقعی نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں تو پھر صرف وفاقی حکومت اورسندھ حکومت کے سیاسی و انتظامی تعلقات ہی کشیدہ نہیںہوں گے بلکہ صوبہ سندھ میں ایک وسیع ترآئینی و سیاسی بحران بھی پیدا ہوجائے گا۔ جسے یقینا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بطور ’’احتجاجی ہتھیار‘‘ کے وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی ۔ کیا سندھ میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس احتجاجی و سیاسی بحران سے بحسن و خوبی نمٹ سکے گی؟۔

ہماری ذاتی رائے میں وزیراعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کے بعد اگر سندھ حکومت قائم رہتی ہے تو پھر سندھ میں رونما ہونے والی بحرانی سیاسی صورت حال سے نمٹنا تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے از حد مشکل ہوجائے گا۔ تاآنکہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا اقدام نہ اُٹھایا جائے اور سندھ میں گورنر راج لگانا تو آسان ہوگا لیکن اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں اِسے طویل مدت تک برقرار رکھ پانا وفاقی حکومت کے لیے کم و بیش ناممکن ہی ہوگا۔ اس لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے بہتر راستہ تو یہ ہی ہے کہ فی الحال وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری سے حتی المقدور گریز ہی کیا جائے اور جب ایک ماہ بعد سینٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کو اکثریت حاصل ہوجائے (جس کے واضح امکانات پائے جاتے ہیں ) تو پھر آئین پاکستان میں موجود غیر ضروری ترمیما ت کا خاتمہ کرکے اور کچھ ضرور ی ترمیما ت کر نے کے بعد کرپشن کے خلاف حسب ِ منشا کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا جائے ۔اس طرح وفاقی حکومت کی ’’سیاسی لاٹھی ‘‘ بھی نہیں ٹوٹے گی اور ’’کرپشن کا سانپ ‘‘ بھی مرجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

عمران خان کا مستقبل وجود هفته 11 مئی 2024
عمران خان کا مستقبل

شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر