وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیری آخری آرام گاہ پر اللہ کی رحمت ہو!

جمعه 08 جنوری 2021 تیری آخری آرام گاہ پر اللہ کی رحمت ہو!

وفا شعار رؤف طاہر رخصت ہوگئے! اے مرے خدا تو حافظے سے وہ سب محو کردے، جو میرے اور اس کے درمیان کہا سنا گیا۔ جس میں ہم نے اپنے قیمتی اور لذیذ ماہ وسال بِتائے۔ میرا رؤف طاہر وہ نہیں جو مستعار الفاظ میں دھڑے بندی کی تعزیت کا طالب ہو۔ وہ اس سے بے نیاز اپنے رب کے حضورسرخرو پہنچا!جہاں اُس سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ وہ جمہوریت کی طرف داری میں کہاں کھڑا تھا؟ اللہ کا دربار اس سے بے نیاز ہے۔ مگر نحوست بھری زندگی سے کنارہ کش ہونے والے برادرِ عزیر سے”متعصبانہ تعزیتیں“ کنارہ کرنے کو تیار نہیں۔ تُف اس دھڑے بندی پر اور افسوس ایسے تعزیتی حاشیوں پر، جن کے لکھنے والوں کو دوست کی موت بھی گروہی نفسیات سے بلند نہیں کرتیں۔
رؤف طاہر باہر کی دنیا سے پہچانے گئے، مگر وہ اپنی دنیا کے آدمی تھے۔ من کی دنیا، جہاں رب کائنات شہ رگ سے قریب ہوتے ہیں، جہاں زندگی باہر کے اثرات سے میلی نہیں ہوتی۔جہاں جذبات کجرو راستوں پر ہم آہنگِ تقدس رہتے ہیں۔

من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
دنیائے من کے ایسے آدمی اب نایاب ہوئے،رؤف بھائی کی تعزیت کے حاشیہ آراؤں سمیت جو بچے ہیں، وہ مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں، اُن کا ماجرا بقول شاعر
تمام صوفی وسالک سبھی شیوخ وامام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کُلاہ میں ہیں

کائنات کی تکمیل انسان سے ہوتی ہے، یہ کُل حسن و جمال کا نقطہئ عروج ہے۔ ہمارا رؤف اسی نقطے کی حسین تشریح تھا۔ وہ آہوں، کراہوں کو جذب کرکے مشکبو ہاتھوں سے رنج والم کی شکیبائی کرتا۔ اُس کے میٹھے نغمے صرف دوستوں کے کانوں میں رس نہ گھولتے وہ دھڑے اور دھڑلے میں بھی مہین کھنچی لکیروں کو نظرانداز کرتے ہوئے عناد کے کانوں کو بھی محبت کی بانسری کی دلنواز تانیں سناتا، پھر بھی! پھر بھی! جب بغض بعض نہ آتا۔ رؤف طاہر کے لیے لکھنے والے شف شف کیوں کر رہے ہیں؟کوئی بلند آہنگ کیوں نہیں ہوتا، پرویز رشید کانام کیوں نہیں لیتا؟حرصِ کرم ایسا بھی کیا کہ آئندہ کی کوئی ہڈی آدمی کو للچائے رکھے!

یہ سوال تو اپنی جگہ رہے گا کہ صحافی کی حد سیاسی طرفداری میں کہاں ختم ہوجاتی ہے؟ دھڑے بندی کی سیاست کا صحافت سے کتنا علاقہ ہے؟ سچائی کی کوئی گروہی تعبیر کتنی قابلِ تسلیم ہے؟ مگر طرفداری کے محور میں بھی آدمی کو مشخّص کرنے کے بعد اُس دائرے میں بھی انصاف نہ ہو توایسی لکنت زدہ زبانوں پر قفل کیوں نہیں لگتے؟رؤف طاہر کو ڈی جی پی آر کے اعلان کے باوجود کنارے بٹھا دیا گیا،تو کون آڑے تھا؟ کیا پرویز رشید نہیں؟ خواجہ سعد رفیق نے اچھا کیا کہ وہ مسلم لیگ نون کے واحد رہنما کے طور پر نمازِجنازہ میں شریک ہوئے۔ یہ اُن کے حق میں لکھے گئے کالموں کے مقابل کچھ حیا کا اظہار تھا۔ مگر کیا ریلوے کے شعبہئ تعلقاتِ عامہ میں رؤف طاہر مطمئن رکھے گئے؟ وہ صابر تھے، شاکی نہ تھے تو کیا شکایتیں بھی جواز نہ رکھتی تھیں۔ محفلوں میں رؤف بھائی کے قہقے سب سنتے تھے، افسوس اُن کانوں پر جنہیں سپاٹ سی خموشی نہیں سنائی دیتی تھی۔ جب حیات سم آلود لذتوں، غم آلود عشرتوں میں بے طالبِ حشم اور بے آرزوئے جاہ تکمیل پر اِصرار کرے، جہاں وفاداری مول تول میں تُلنے لگے، جہاں تعلق کی ثقافت پر سکے پہرے دار ی اور پرویز رشید ڈنڈا برداری کرے،وہاں بے نیازی چمنِ حیات میں تبسم کے پھول بھی بہ چشم نم کھِلاتی ہیں۔ مگر ٹوٹتے تارے سب کو نظر آتے ہیں آنکھ کے آنسو کون دیکھتا ہے؟

تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی
کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹ گیا

رؤف بھائی تعلق میں وقت کا ایثار اور خود زیاں کار بننے کے لیے ہمہ تن تیار رہتا۔ خود پر رحم کھانے اور رزق پر تردد کے لمحات میں مدیرِ نوائے وقت سے تنبیہ ہوئی کہ مجید نظامی کو سی این اے کی محفل میں اُن کی شرکت خوش نہیں آتی۔ برادرم رؤف طاہر نے دفتر میں کہا کہ دہائیوں پر پھیلی رفاقتوں کی مشکبو یادوں سے کون رشتہ توڑ سکتا ہے۔ پھر دفتر سے سیدھے ایوانِ اقبال جاپہنچے،جہاں لاہور کے دانشور دوستوں کی ہفتہ وار نشست جمعہ کو منعقد ہوتی۔ یہ لاہور کی اُس ثقافت میں رؤف بھائی کا چلن تھا، جہاں ادنیٰ مفادات کی خاطر تعلقات تو کجا، نظریات تک بدلنے کا چلن دکھائی دیتا تھا۔

بغداد کے صوفی نے کہا تھا، دنیا دل کے دروازے پر ہے، اندر آنے کی اِسے اجازت نہیں۔ رؤف بھائی زندگی میں اسی مسلک کے سالک تھے۔ عالم کے پروردگار نے جب روح پیدا کی، مکانِ انسان میں اُسے مکین کیا، تو اپنی تدبیر سے اِسے تمناؤں کی ایک پوشاک بھی دی۔ حرص و ہوس اُسی پوشاک کے پیوند ہیں۔ کیا برادرم رؤف طاہر اُس پوشاک کے بے حقیقت ہونے کا راز نہ پاگئے تھے؟ گاہے یہ خیال دل میں رہ رہ کر اُٹھتا جب اُنہیں رواجی پیچیدگیوں اور اُلجھنوں (Complex) سے آزاد دیکھتے۔ یاللعجب جرابیں الگ الگ، اور پھر بے نیازی بھی!!! ہمارے عہد کے درویش بھی اب زندگی کی بے کنار لذتوں کو سمیٹتے ہوئے اس کی توجیہ مذہب سے کر گزرتے ہیں۔ اس عہدِ ِنامسعود میں ہمارے رؤف بھائی! مسرت کو اشیاء کے تصرف میں دینے کے بجائے اس کی اصل حقیقت سے روشناس تھے۔ سچی مسرت اشیاء پر تصرف کے مرض میں مبتلا کرنے کے بجائے درحقیقت اُس سے بے نیاز کردیتی ہے۔ ہائے علامہ اقبالؒ نے کیا فرمایا:

کشادہ دست ِکرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے

کتنے لوگ ہیں جو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ رکھنے والی دنیا کو جاہ وحشم سے بے نیاز ہو کردیکھتے ہیں۔ یہ کیا کہ ایک شخص کی موت کو بھی نوازشریف سے گہرے تعلقات کی پرتوں میں لپیٹ کر دیکھا جائے! یہ کون سی تعزیت ہے؟ اُن کی زندگی میں جو نوازشریف تھا وہ اُن کے خیالات نے تراشا تھا، چنانچہ وہ ہمیشہ جاتی امراء کے نوازشریف میں اپنے اندر موجود نوازشریف کو ڈھونڈتا رہا۔ جدہ کے سرور پیلس میں وہ اُن کے قریب رہا، مگر اُن کے دل کے سرور پیلس میں مقیم نوازشریف کیسا تھا؟ وہ لندن میں موجود نوازشریف سے کتنا ملتا جلتا تھا، اِس کا اندازا اُن کے اُس تاسف میں ہوتا تھا جس کا تذکرہ وہ بھیڑ میں کم کم کرتا تھا۔ گاہے وہ اچانک الگ دکھائی دینے والے نواز شریف کی توجیہ اپنے من کے نوازشریف سے کرتا، پھر کھود کرید میں وہ مختلف نکلتا تو خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا۔ اِس طرزِ عمل کو بھی دھڑے بندی میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ رؤف بھائی نے اپنی آخری سانس تک نوازشریف سے اپنی وفاداری استوار رکھی، مگر اس خاندان کے کیا کہنے؟ جنہیں زر خرید سازگار ہیں، جو پرویز رشیدوں سے اب پہچانا جاتا ہے۔ اپنی مرکز اور صوبے کی حکومتوں میں جب رؤ ف بھائی کے گھر ڈکیتیاں ہوئیں تو ان حکومتوں نے چپ کی پراسرار چادر اوڑھے رکھی۔ وہ شخص جو جدہ میں نوکری کرنے گیا تو اپنی قناعت پسند بیوی کے ہاتھ کی آخری دوچوڑیاں بھی گنوا چکا تھا۔ جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ مادہ پرست دنیا کی تلاطم خیز موجوں میں ڈوبتی زندگی کو منجدھار سے نکالنے کی مشقت کا نتیجہ تھا۔ اس مشقت میں زندگی کے گُل، خار اور دن، رات میں ڈھل جاتے ہیں۔ ایسا مشقتی زندگی کی گاڑی کو ہانک لیتا ہے۔اپنی وفاداری کی قیمت اغراض کی تکمیل سے پوری نہیں کرتا۔ یہ کام لے پالکوں، موٹے پیٹوں کے لشکروں اور راتب خوروں کا ہے۔ جو شریف خاندان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چچورتے ہیں۔ پھر جمہوریت کی تقدیس کے گیت گاتے ہیں۔رؤف بھائی تو اس سے بے نیاز رہے، اُنہوں نے نوازشریف سے اپنے رشتے کو نبھایا تو اس کی کوئی قیمت نہیں رکھی۔ ایسے قیمتی لوگوں کی تاجر سیاست دانوں کو کیا ضرورت! ایک تعزیتی ٹوئٹ کافی ہے، باقی سب اضافی ہے۔ رؤ ف بھائی جب دنیا میں اس کے لیے نہیں جیے تو اب جہاں ہے وہاں اس رشتے نے کون سی یاوری کرنی ہے؟

رؤف بھائی نے دنیا میں دل نہیں لگایا، اُسی دل پر حملے کے وقت ہمارے رؤف بھائی پر کیا گزری ہوگی، معلوم نہیں۔ مگر اُن سے دل کا تعلق رکھنے والوں کے دل کی دھڑکنیں اب بھی قابو میں نہیں۔ میرے خدایا! کوئی اور نہیں مگر تُو،تو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے،اُن کے بھی جن کے لیے وہ لڑتا تھا اور جن کے دلوں میں خاک اڑتی تھی۔ غالب نے خدائی اسکیم میں انسانوں کو خاک میں پنہاں ہوتے ہوئے لالہ وگل میں نمایاں ہوتے دیکھا تھا۔ ہمارے رؤف بھائی بھی جب لحد میں اُترے ہوں گے تو کہیں کوئی کلی چٹکی ہوگی، کوئی غنچہ مہکا ہوگا، کوئی شگوفہ پھوٹا ہوگا،کسی درخت پر کسی پھول نے انگڑائی لی ہوگی۔ اے من کی دنیا کے مسافر تیری آخری آرام گاہ پر اللہ کی رحمت ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر