وجود

... loading ...

وجود
وجود

لارنس آف عربیا, وہ وقت جب سمندری طوفان نے بحری جہازکوآگھیرا

جمعرات 29 اکتوبر 2020 لارنس آف عربیا, وہ وقت جب سمندری طوفان نے بحری جہازکوآگھیرا

فوجی وردی میں ملبوس نیلی آنکھوں والایہ نوجوان مسلمانوں کے مقدس ملک جارہاتھا،اس کے سفرکی غایت عرب سلطنت کاقیام تھا
عربوں کے پاس چند ہی بندوقیں تھیں اور وہ بھی اتنی پرانی تھیں کہ پہلی ہی بار کے چھوٹنے میں ان کے پھوٹ جانے کا اندیشہ تھا

(قسط نمبر: 9)
یہ صورت حال تھی کہ پردہ اٹھا۔ لارنس ڈرامائی طور پر بغاوت عرب میں داخل ہو چکا تھا۔ بعض دلچسپ قصے یوں بھی مشہور ہیں کہ اس نے پندرہ روز کی رخصت چاہی اور چونکہ اس کے ہمیشہ کے ساتھی اس سے اکتا گئے تھے اس لیے رخصت فوراً منظور کر لی گئی۔ اس قصہ کے سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رخصت سے واپس ہی نہ ہوا بلکہ ٹھہرا رہا اور اس طرح اپنی مہم شروع کی۔ یہ قصہ دلچسپ تو ضرور ہے لیکن بیشتر قصوں کی طرح حقیقت اس سے بھی عجیب تر ہے۔ جو باتیں ممکن الوقوع تھیں ان کا ذکر اس نے اپنے بعض دوستوں سے کیا تھا۔ چند مہینوں تک وہ باضابطگی اور احتیاط کے ساتھ پردہ کے پیچھے کام کرتا رہا جس کا منشاء فوجی کارروائیوں کے ذمہ دار بڑے بڑے جرنیلوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ اگر وہ اس کو عربستان بھیج دیں تو مقصد فتح کے حصول میں وہ تھوڑی بہت مدد کر سکتا ہے۔ ان عہدہ داروں کے یقین میں کچھ نہ کچھ وزن ہو گا ،تب ہی تو انھوں نے اس فولاد جیسی نیلی آنکھوں والے ضدی نوجوان کی طرف سے فکر مند ہونے کے بجائے اس کو اپنے مشن پر رواہ ہونے کی اجازت دے دی۔ عمر رسیدہ ماہروں کی اس ’’شوقین سپاہی‘‘ کے منصوبے میں کوئی بات نظر آئی ہو گی۔ ارباب اقتدار نے خاص فوجی خدمت سے اس کی تبدیلی اس طرف کر دی جس کو ایک طرح خفیہ خدمت کا محکمہ کہا جا سکتا ہے۔
اگرچہ وہ عربوں میں توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اب وہ اس مقدس ملک کو جا رہا ہے جس کے دروازے تمام بے دینوں پر بند ہیں۔ یہ بے دین، اپنے تصور میں یقین رکھتا تھا کہ یہاں اسے دو امور انجام دینے ہیں۔ پہلا کام ایک لیڈر کی تلاش تھا پھر اس کو یہ یقین دلانا کہ عرب کے آپس کے لڑنے مرنے والے قبیلے اپنی برسوں کی خوں ریز لڑائیوں کو بھول کر آپس میں متحد ہو سکتے ہیں اور ترکوں کو ملک سے نکال باہر کر سکتے ہیں جنھوں نے اس ملک کو اتنے عرصہ تک لوٹا ہے۔ ملک پر ترکوں کی گرفت مضبوط تھی۔ ملک کی واحد ریلوے لائن پر انھی کا قبضہ تھا اور رائفل کی مار سے بھی کم کم فاصلہ پر ان کی مستحکم چوکیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان کے پاس جدید بندوقیں اور رائفلیں بھی تھیں۔
عربوں کے پاس چند ہی بندوقیں تھیں اور وہ بھی اتنی پرانی کہ پہلی ہی بار کے چھوٹنے میں ان کے پھوٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ ان کے ہتھیاروں میں پرانی وضع کی بھرمار بندوقیں اور ایسی بندوقیں بھی شامل تھیں جن کو چقماق سے اڑایا جاتا تھا۔ نیزے تھے اور خنجر۔ عرب پیدائشی قزاق تھے۔ لڑائی لڑائی کی خاطر لڑنے کی بجائے لوٹنا، چرانا اور آگ لگانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ جب لڑنے سے تھک جاتے تو عموماً گھر لوٹ جاتے۔ لارنس یہ سب جانتا تھا اس پر بھی اکتوبر 1916ء میں وہ اپنے خوابوں اور ناقابل تسخیر ارادہ سے لیس ہو کر وہ عرب کے ساحل کی طرف چل پڑا۔ مدد کا کوئی وعدہ اس سے نہیں کیا گیا تھا۔ سوائے اپنے منصوبہ کے اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔عربستان کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ لارنس سوئیز سے روانہ ہوا، کشتی سست رفتاری سے خلیج میں چلنے لگی۔ لارنس پر فکر انداز میں ان پتھریلے ساحلوں کی طرف دیکھنے لگا جن میں اس کی ابتدائی دنوں کی آوارہ گردی کے مناظر پوشیدہ تھے۔
دو سال قبل وہ عقبہ سے ریگستان سینا کے وسط تک زائرین کے راستہ پر چلتا ہوا پہنچا تھا۔ اسی وقت سے اس ریگستان نے اس کا دل موہ لیا تھا۔ اب وہ پہلی بار مسلمانوں کے مقدس ملک کو جا رہا ہے۔ اس سفر کی ایک غایت سلطنت عرب کا قیام بھی ہے۔
کشتی کے ملاح ان عجیب مسافروں کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔ خصوصاً اس شخص کو دیکھ کر جو فوجی وردی پہن کر بھی سپاہی نہ معلوم ہوتا تھا۔ انھوں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ اپنے ساتھی سے بہت کم گفتگو کرتا ہے اور اکثر اوقات اپنے خیال میں محو رہتا ہے۔
ملاحوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟۔
کسی نے جواب دیا۔ جدہ۔‘‘
کس لیے؟
اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اختتام سفر پر بھی وہ نہ سمجھ سکے کہ اس کے سفر کی غایت کیا تھی۔ بحرقلزم کا یہ سفر نمایاں واقعات سے خالی ہے۔ مسٹر اسٹورز کو حیرت تھی کہ لارنس آخر کرنا کیا چاہتا ہے۔ ان کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ اس کو گفتگو پر آمادہ نہ کر سکیں۔
گرمی بہت شدید تھی اتنی شدید کہ سانس لینا تک دوبھر ہو گیا۔ جب رات آئی تو کچھ سکون ملا اور ممکن ہوا کہ کشتی کے چھوٹے عرشہ پر قدرے سکون کے ساتھ چند قدم چل پھر سکیں، ہر روز یہی نقشہ رہتا۔
کشتی اس سمندر کے چکی تال پر جو طویل طویل لیکن سست رفتار اتار چڑھاؤ کے ساتھ جلتے ہوئے سورج کے نیچے لہریں لے رہا تھا، آہستہ لیکن ہموار رفتار سے دھواں اڑاتی چلی جا رہی تھی۔ اس وقت عرشہ پر کھڑے ہونے یا کسی سلاخ کے باہر جھکنے کی کوشش کرنا محض حماقت تھی اس لیے کہ گرمی کی حدت سے جسم کا گوشت جل اٹھتا۔ دن کے وقت وہ عرشہ گھر کے سایہ کے آگے دو یا تین کمبلوں کی موٹائی کا پردہ ڈال لیا کرتا تو وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ سایہ بھی ہٹتا جاتا تو وہ خود بھی اس کے ساتھ ہٹنے لگتا۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ انگریزی نام اور انگریزی یونیفارم کے باوجود لارنس کسی عرب کی طرح پاؤ سمیٹ کر بیٹھنے میں آرام محسوس کرتا۔
ان کے جدہ پہنچنے سے ایک دن قبل موسم میں کچھ تغیر رونما ہوا۔ آسمان یکایک سیاہ اور تیرہ تار حد تک نیلگوں ہو گیا۔ جو طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہے۔
ایک دن تکلیف میں گزرا۔ بدشگون جھلائی ہوئی ہوا جہاز کے ماتھے پر پانی اڑاتی رہی۔ سمندر میں تموج عظیم تھا جس سے کبھی کبھی پانی کے تھپیڑے کشتی کے عرشہ پر بھی پڑنے لگتے تھے۔
ایک گونج کے ساتھ ہوا کا جھکڑ خلیج پر سے گزر گیا۔ موجیں بلند ہوئیں اور ان کے ساتھ کشتی بھی ابھری۔ کشتی جب موجوں کے اتار کے ساتھ سطح پر آتی تو اس کا پنکھا لہروں کو دھکیل کر آگے بڑھتا ہوا نظر آتا۔ اس ہولناک سمندر میں کشتی پانی کو چیرتی دشوای کے ساتھ راستہ پیدا کرتی چلی جا رہی تھی۔ سطح آب پر وہ ایسی معلوم ہوتی گویا کتاتیرتا ہوا پانی سے باہر آ رہا ہے۔
طوفان جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے گزر گیا۔ اب وہ پھر خاموش سمندر میں بڑھے جا رہے تھے۔صبح میں لارنس سلاخوں کے اوپر سے سمندر کو دیکھا کرتا جس پر تیزی سے بلند ہونے والے سورج کی شعاعیں ابھی ابھی پڑنے لگتی تھیں۔ اس پر ایک چوڑی چکلی قوس قزح کا دھوکہ ہوتا جس میں تیل کے چھتے آڑے ترچھے نقش و نگار بنے ہوتے۔
کہیں کہیں گشت لگاتی ہوئی شارک مچھلی کا پر یا سوسماروں کی ٹکڑیاں خاموش سطح آب میں لرزش پیدا کر دیتیں۔ سمندر سے روشنی کی زندہ لکیریں نمودار ہوتیں اور آنکھ جھپکنے میں نظر سے غائب ہو جاتیں قلانچیں مارتی ہوئی مچھلیاں نیچے چھپے ہوے خطرہ کے ڈر سے بھاگ جاتی تھیں۔
کسی ایسی ہی صبح میں یہ سیدھی سادی کشتی عہد قدیم کے نارزمنوں Norsemen کے اس بادبانی جہاز سے مشابہ معلوم ہوتی جو نامعلوم مہموں پر کسی خیالی سمندر میں سفر کرتے تھے۔
جب معلوم ہوا کہ جدہ قریب ہے تو مسٹر اسٹورز آگے کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ بات انھوں نے لارنس سے بھی کہی لیکن اس اطلاع نے لارنس میں کوئی ہیجان پیدا نہیں کیا۔ اس کے چہرہ کی متانت علی حالہ قائم رہی البتہ اس کی تیز نیلگوں آنکھوں میں چمک تھی، پھر وہ بھی بند ہو گئیں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر