وجود

... loading ...

وجود
وجود

چہرے پہ یقیں کا نور نہیں

بدھ 30 ستمبر 2020 چہرے پہ یقیں کا نور نہیں

سیاست موقع کا کھیل ہے، مگر سیاست دانوں نے اسے موقع پرستی کاکھیل بنادیا ۔ موقع بہ موقع اپنے لیے راستے کشادہ کرنا کوئی بُری بات نہیں، مگر موقع بہ موقع اپنا اُلو سیدھا کرنا ہرگز درست نہیں۔ میاں نوازشریف گزشتہ چار دہائیوں سے سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ دوپہر کو سیر ہو کر کھانے کے بعد لسی گھٹکانے کے شوقین کو کچھ دانشور، سیاست دان سے زیادہ مدبر سمجھنے لگے ہیں۔ یہاں ’’دانش‘‘ کورونا وباکی طرح چُھوتی بیماری ہے۔ مگر نوازشریف کے مقامِ مدبری کو ایسے ہی فروغ نہیں ملا، اس میں دستر خوانی قبیلے کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اِسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیٹ کا ہاتھ ہے۔ نوازشریف کا خاندان کبھی بھی اپنی دولت پر فیاضی کا مظاہرہ نہیں کرتا، آپ نے لندن میں شہباز شریف کو ٹیکسی ڈرائیور سے سکوں کا حساب لیتے ہوئے ایک ویڈیو ضرور دیکھ رکھی ہوگی۔ شریف خاندان اپنے حاشیہ برداروں کو حکومت میں نوازتے ہیں۔کچھ تنخواہ داروں کو پالنا ضروری ہوتا ہے، جن سے بہرحال اپوزیشن کا میلہ اور سماجی میڈیا پر رونق لگائے رکھنا ہوتی ہے۔ مگر فیاضی ایک کارِ دگر ہے۔ جہاں دولت سے مناصب تک ہر چیز نچھاور ہوسکتی ہو، وہ عیاشی تو حکومت میں سرکاری خزانے اور صوابدیدی کھاتوں سے ہی ممکن ہے۔ اس فضا میں ایسے لوگ فراوانی سے ملتے ہیں جو درباری مزاج رکھتے ہیں، اور تین کو تیرہ ، لسی کو جام جم اور کسی کو بھی مدبر بنانے کے منفعت بخش کھیل میں جُتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ مقام مدبری حضرت میاں نوازشریف پر طاری ہے، جن کی ایک تقریر سے قبیلۂ دستر خوانی پاکستان میں انقلاب کا سورج چڑھانے میں مصروف ہے۔انقلاب کا سورج ایسے تو نہیں چڑھتا مگر دسترخوانی قبیلہ ساتھ رہے تو ہتھیلی پہ سرسوں ضرور جم جائے گا۔
یہ بھی خوب ہے کہ نواز شریف کے خطاب سے ایک عدد خمینی برآمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انقلاب کا سورج ماوزے تنگ کے لانگ مارچ نے دیکھا تھا، آج چین دنیا کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ یہاں انقلابی شیر کی واحد خوبی یہ ہے کہ لسی پیتا ہے، زنداں جاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے، گوشۂ عافیت ڈھونڈتا ہے، جب عافیت کے دنوں میں موڈ بدلنے کی ہوک اُٹھتی ہے تو ایک عدد مستعار الفاظ کی تقریر جھاڑتا ہے اور پھر ہاتھ پاؤں جھاڑ کر اپنی راہ لیتا ہے۔ آگے دستر خوانی قبیلے کا کام شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کی جنبش سے اس کے دروبست کو جیسے چاک و گردش دے۔ ازل سے ہم یہی کرتے آئے ہیں۔ مستعار کردار کو مستعار الفاظ سے سینچنے کے اس کام کے دام بھی بہت اونچے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ایسے لوگ دکھائی کتنے نیچے دیتے ہوں۔
اب یہ بھی دیکھیے! لسی پیتے، اونگھتے کو ٹھیلتے، شیر کی انقلابی دھاڑنے ہمیں ابتدائی دنوں میں ہی کیا کیا مناظر دکھادیے۔ ابھی مستعار الفاظ کی گونج فضا میں موجود تھی، بھاڑے کی تقریر پر ہم ایسوں کے کمزور عقائد بھی متزلزل ہونے لگے تھے، کیا واقعی ماند یادداشتوں میں سے کوئی اُجاگر ہورہا ہے؟ کیا واقعی خوزستان کے قلعے کے قیدیوں نے بغاوت کردی ہے؟ وہ زمین وآسمان پھونک کر خلقِ خدا کو راج کرانے میدان میں اُترنے والے ہیں؟غلاموں کی بھاگ دوڑ غلط فہمی پیدا کررہی تھی کہ جیسے طاقت وروں کے محلات پر آسمان ٹوٹنے ہی والا ہے! مگر اس تقریر کے سورج نے ابھی دوسرا غروب بھی نہ دیکھا تھاکہ پردے کے پیچھے اور رات کی تاریکیوں میں جب انقلابیوں کے سونے اور چمگاڈروں کے جاگنے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے، کچھ سائے حرکت میں آئے اور پنڈی کے اُس دروازے پر پہنچے جہاں سے ہر دوسرے دن شیخیاں بگھاڑتے ہمارے شیخ رشید نکلتے ہیں۔ یہ کیا اے پی سی کے کوزہ گروں اور ہنروروں کے ہنر بھی وہاں پلیٹوں کی کھڑکھڑاہٹ اور سرگوشیوں کی سرسراہٹ میں طالب ِ امداد ہیں !!کیا کوزۂ انقلاب ہمت اُدھار مانگتاہے؟
اے پی سی کے رہنماؤں کا ہنر ایک عشائیے کے بعد حرکت میں آیا، مگر اس کا انکشاف اے پی سی کے بعد ہوا۔ جس نے اعلامیے کے الفاظ کو گونجنے سے پہلے ہی گونگا بنادیا۔ اسی دوران ایک دوسری خبر نے تو ہوش ہی اڑادیے۔ سابق وزیراعظم کی جس تقریر نے ہمارے عقیدے کو متزلزل کیا تھا، فوراًہی آئینہ دل سے زنگِ کفر کو دور کرنے کی احتیاج پیدا کرگیا۔ یہ کیا!سابق لیفٹیننٹ جنرل غلام عمر کے صاحبزادے زبیر عمر ملاقاتوں کی رنگ رلیوں میں انقلاب کی سودے بازی کررہے ہیں؟ کیا قلعۂ فراموش بھی برائے فروخت ہے؟یہ کیا جس خیال کو فوجی لشکروں کے روکے نہ رُکنا تھا، وہی خیال آگے بڑھنے سے پہلے فوجی لشکروں سے ’’دے تالی‘‘ کی تال میل کررہا تھا۔سابق گورنر زبیر عمر کی ملاقات کے پیرایے سے ایک ایسا سیاق وسباق بھی اُبھرتا ہے جسے انقلاب کی بازگشت میں ابھی توجہ نہیں ملی۔ ملاقاتیں گھر گھر ہورہی ہیں اور واقعات پے در پے اُبھررہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کون پوچھتا کہ پسِ پردہ ملاقاتیں تو کبھی شہباز شریف کرتے تھے، نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی بت کدۂ اوہام کی کن ویرانیوںسے نبرد آزما تھے کہ اُنہیں زبیر عمر پر انحصار کرنا پڑا؟ٹہریے! ابھی شہباز شریف کی گرفتاری ٹل رہی تھی۔ ملاقاتیں جب ہورہی تھیں تب پردۂ غیب میں شہبازشریف کی گرفتاری کے امکانات طلوع بھی نہیں ہوئے تھے۔ پھر ! پھر ایسا کیا تھا کہ سقوطِ ڈھاکا کے یکے از ذمہ دار یحییٰ خان کے معتمدِ خاص کے صاحبزادۂ خاص پر نگاہِ التفات ٹہری۔ کیا اعتماد کا بحران پیدا ہوچکا تھا؟ انقلاب آفرین تقریر سے قبل اس ملاقات کے اسرارورموز الگ سامانِ غورو فکر بھی رکھتے ہیں۔مگر دستر خوانی قبیلے کے کیا کہنے !ایسے سوالات و نکات اُٹھائے کہ توجہ کہیں دوسری طرف بھٹک ہی نہ سکے۔ انقلاب آفرین تقریر کے پسِ پردہ جاری ملاقاتوں کے سامنے آنے کے بعد شاعر کی زبان میں مسئلہ تو یہ پیدا ہوا تھا :۔

شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد

ملاقاتیں سامنے آئیں ، تو یار لوگوں نے نکتہ اُٹھایا کہ پھر باقی کیا رہے گا۔ اجلاس بے نقاب ہوں گے تو نقاب میں کیا رہے گا؟ اِن کے متعلق کہانیاں ہیں تو اُن کے متعلق کہانیاں کیوں سامنے نہیں آئیں گی؟ ایک صاحب تو یہ بھی لکھ گئے کہ انتخابات سے پہلے کی ملاقاتوں کے احوال سیاسی جماعتوں کے محفوظات میں کہیں افشاء ہونے کو بے قرار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان رہنماؤں کی اتنی ہی لغزشیں تھیں جو سامنے آئیں اور اب جو کچھ ہیںوہ دوسرے فریق کا ہی ہے؟ جن کی پوری زندگیاں اُدھار سیاست پر گزری ہوں، اُن پر انقلاب کی عیاشی سجتی نہیں۔ اُنہیںکُھلنے کھولنے سے زیادہ چھپنے چھپانے کی فکر ہوتی ہے۔پاکستان میں سب سے بُرا وقت نظام سے زیادہ خیال پر آیا ہوا ہے۔ یہاں جمہوریت کو اتنا خطرہ نہیں جتنا خیالات کے نام پر خود خیال کو ہے۔ یہاں لن ترانیوں کو انقلاب کی تمہید سمجھا جانے لگا ہے۔ اور اُسے فوجی لشکروں کے مقابل ظفریاب حالت میں دکھانے کا چلن پیدا ہوگیا ہے۔ خیال پر ایسا زوال کبھی نہیں آیا۔حرف، حرمت آشنا نہ ہو، الفاظ پر کردار کی گواہی نہ ہو، لفظ عمل کی آبرو نہ رکھتے ہو تو زبان کوثرو تسنیم سے دھوآئیے، اعتبار نہیںپاتی۔ خیال نمو نہیں پاتا، قلعہ فراموش ، تاریخ میں ناقابل فراموش کی سند نہیں پاتا۔ایسے خیالات فوجی لشکروں کے مقابل کھڑے نہیں ہوتے ،بس ڈیل اور ڈھیل کے بندوبست کے کام آتے ہیں۔ کسی زبیر عمر کے لیے رات گئے پنڈی کے دروازے کھولنے یا دروازہ بندہونے کی صورت میں پیدا ہونے والی مایوسی سے کہے گئے الفاظ انقلاب کی سرخی نہیں بدہضمی کی اُبکائی واُکلائی ہے۔ مفاہمت کی آواز کو انقلاب کی راہ کھوٹی کرنے کی خیال آرائی سے جنم لینے والے خاندانی اختلافات کی ہنڈیا میںجو کچھ بھی پکا ہے، اُسے ایک طرف رکھیں۔ اب شہباز شریف گرفتار ہیںاور انقلاب آزاد ، چلیں انقلاب لاکر دکھائیں!!!

واعظ کا ہر اک ارشاد بجا،تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرورِ عشق نہیں ،چہرے پہ یقیں کا نور نہیں


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر