وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی ’’اعلانیہ قربت ‘‘کیا گل کھلائے گی؟

پیر 24 اگست 2020 اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی ’’اعلانیہ قربت ‘‘کیا گل کھلائے گی؟

ٓ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)،اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہا ہے ،دنیا پر سکتہ طاری ہوگیا ہے ۔خاص طور اسلامی دنیا پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا ہے ۔ اسلامی ممالک جو پہلے ہی سفارتی و سیاسی معاملات پر ایک دوسرے سے سخت شاکی تھے۔ اس خبر نے تو اُن کے رہے سہے سفارتی اوسان کا بھرم بھی خطا کرکے رکھ دیاہے۔ ایران اور ترکی جیسے ممالک نے تو واشگاف الفاظ میں متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ قائم ہونے والے تعلقات کو شرمناک قرار دے کر مذمتی بیانات جاری کردیئے ہیں ۔جبکہ سعودی عرب جیسے اہم ترین اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ یو اے ای کی طرز کسی ممکنہ معاہدہ کا امکان رد کرتے ہوئے، اپنے سفارتی لبوں سے ایک بڑا سا حرفِ انکار ادا کر ڈالا ہے، شاید سعودی عرب خطہ کے حالات کا باریک بینی سے مکمل جائزہ لے کر ہی متحدہ عرب امارات کے اقدام کے انسداد کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کرے گا ۔ رہی بات پاکستان کی تو وہ بھی اس غیرمتوقع خبر کی پرزور الفاظ میں مذمت کرکے اپنا سارا وزن مظلو م فلسطینیوں کے پلڑ ے میں ڈال چکا ہے۔یقینا آج یا کل پاکستان بھی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین بننے والے سفارتی اتحاد کے خواب کو چکنا چور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی کاوش ضرور انجام دے گا۔
اِس حسن ظن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو روزِ اول سے آج تک اسرائیل کے وجود کا سرے سے ہی منکر رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا یہ موقف اسرائیل کے متعلق فلسطین کے موقف سے بھی زیادہ مضبوط اور اٹل ثابت ہوا ہے ۔کیونکہ فلسطینی تو پھر بھی کسی نہ کسی سیاسی صورت حال کے دباؤ میں آکر یا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی مجبوری میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا زہریلاگھونٹ قطرہ قطرہ پیتے رہے ہیں لیکن پاکستان کسی بھی حیثیت میں، کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر نمایاں اور صاف صاف لفظوں میں تحریر ہوتا ہے کہ ’’ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ ہر ملک کے لیے قابل قبول ہے‘‘۔پاکستانی پاسپورٹ پر لکھی ہوئی یہ سطر ہی پاکستانی کا اسرائیل کے متعلق اُصولی نظریہ دنیا بھر کے سامنے بیان کرتی ہے ۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ اپنے اس نظریہ کی دنیا بھر میں تشہیر سے پاکستان کبھی بھی نہیں ہچکچایا۔ فی الحال اگر پاکستان کچھ بول نہیں رہا تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ پاکستانی حکومت اور عوام اِس اعلان پر غمزدہ یا دکھی نہیں بلکہ پاکستانی اربابِ اختیار کی اولین کوشش یہ ہے کہ اپنی دلیرانہ اورمخفی سفارتی کوششوں سے زیادہ زیادہ اسلامی ممالک کو اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان قائم ہونے والے معاہدہ کے مضر اثرات سے آگاہ کرکے ، اسرائیل کے خلاف اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ بظاہر یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک جس نے بھی اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں ۔وہ اسلامی ممالک ہمیشہ ہی سے زبردست خسارے میں رہے ہیں ۔ جیسے 1979 میں مصرکی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے مصر کا خیال تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے سے اُس کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔ مگر افسوس اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا انعام مصر کوشورش ،انارکی اور انورسادات کی لاش کی صورت میں ملا ۔ اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد نے امن معاہدہ کی آڑ میں مصر کی گلی ،گلی میں وہ طوفان بدتمیزی بپا کیا کہ برسوں سے تہذیت کا گہورا اور امین کہلانے والی سرزمین میں لہلاتے کھیت اور فصلوں کے بجائے دہشت گردی ،لاشوں اور خون کی کاشت ہونے لگی۔اسرائیل سے امن معاہد ہ کرنے سے قبل مصر بلادِ عرب میں زبردست سیاسی و سفارتی حیثیت رکھتا تھا لیکن اسرائیل نے چند دہائیوں میں ہی مصر کو سیاسی و سفارتی طور پر اُس اپاہج شخص کی طرح بنادیا ہے ، جوکسی اور کی تو کیا خاک مدد کرے گا ،خود اپنے لیے کچھ کرنے جیسا نہیں رہا۔
لطیفہ ملاحظہ ہو کہ اسرائیل کے ساتھ ایسا ہی ایک معاہدہ 1994 میں اُس ترکی نے بھی کیا تھا، جس نے آج یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کے بعد سب سے پہلے مذمتی بیان جاری کیاہے۔لیکن 1994 میں اسرائیل سے متعلق طیب اردوان کی رائے 2020 سے بہت زیادہ مختلف تھی ،اُس وقت طیب اردوان کا بھی خیال تھا کہ اسرائیل کو اعلانیہ تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دفاعی شراکت داری کرنے سے ترکی بھی اہلِ مغرب کی آنکھ کا تارا بن سکتاہے ۔مگر بدقسمتی سے طیب اردوان کی خوش فہمی بھی صرف خوش فہمی تک ہی محدود رہی اور ترکی نے مغربی ممالک کی آنکھ کا تارا تو خیر سے کیا بننا تھا ،اُلٹا یہ ہوا ہے کہ ترکی نے اسرائیل سے جو جدید ترین جنگی جہاز اور دیگر سازو سامان اپنے ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے خریدا ،اُس میں میں بھی ایسے خفیہ آلات نصب کرکے پروگرامنگ کردی گئی تھی کہ اُن کی فوج ان ہتھیاروں سے ترکی کی بغل میں موجود اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کو بھی نشانہ نہیں بناسکتے تھے ۔ گویا اسرائیل نے اپنے ساتھ تعلقات بنانے کے صلہ کے طورپر ترکی کو اپنی دانست میں جنگی جہاز نہیں بلکہ جنگی کھلونے دے کر بہلا دیا ۔ صرف یہ ہی نہیں اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد اور صیہونی مالیاتی اداروں نے ترکی میں شورش اور انارکی پھیلانے کے لیے کردوں کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے ۔ آج بھی حالت یہ ہے کہ ترکی میں اسرائیلی دندناتے پھرتے ہیں اور ترکی کی حکومت لاکھ کوشش کی باوجود بھی اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرپاتی ۔بہرحال اچھی بات یہ ہوئی کہ طیب اردوان نے اسرائیل کے ساتھ حاصل ہونے والے اپنے تلخ تجربہ سے بروقت سیکھ حاصل کرلی اور یہ نصیحت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پلے سے باندھ لی کہ اسرائیل پر اعتبار کرنا اپنے پاؤں پر اپنی مرضی سے کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔
اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات باضابطہ طورپر قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔نیز یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے جس نے ایسا اقدام اُٹھایا ہے۔یہ فیصلہ اچانک یا عجلت میں ہرگز نہیں کیا گیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارتی و دفاعی تعلقات برسوں سے قائم چلے آرہے تھے ۔ بس اُن تعلقات کا اعلان آج کیا گیا ہے ۔ اس اعلان سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہوگاکیونکہ اِس معاہدہ میں فلسطین کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔سوائے اِس کے کہ اُن پر اسرائیل کی جانب سے ہونے والے منظم ظلم و ستم میں کچھ مزید اضافہ کردیاجائے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس معاہد ہ کے ثمرات کے نتیجہ میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کو کیا کچھ حاصل ہوگا؟۔ جیسا کہ اِس معاہدہ کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ترجمانوں کی جانب سے بڑھ چڑھ کر بلند وبانگ دعوے کیے جارہے ہیں ۔ ایک اماراتی اہلکار نے تو ترنگ میں آکر میڈیا پر یہ بھی فرمادیا ہے کہ ’’اسرائیل کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہونے کے بعد انٹرنیٹ پر یو اے ای میں سب سے زیادہ اسرائیل میں موجود ہوٹل سرچ کیے جارہے ہیں اور اماراتی لوگ بے چین ہیں اسرائیل جانے اور اسرائیلیوں سے ملنے کے لیے‘‘۔بہرکیف اماراتی اہلکار جو چاہے دنیا کو باور کراتے پھریں ،ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں لیکن اسرائیل کا ماضی تو یہ بتاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور حقیقی طور پر حکمرانی کرنے والے شیخ محمد بن زید کے لیے یہ معاہدہ ایک جوئے سے کم نہیں ہے ، جس میں ان کی جیت کے امکانات صفر سے بھی کم ہی ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل جس طرح مصر اور ترکی کے ساتھ اپنے کیے گئے معاہدوں سے مکر گیا تھا ۔اگر ایسی ہی کوئی ملتی جلتی صورت حال متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو معاہدہ میں درج اہم ترین شرط جیسے مغربی کنارے کو مزید الحاق نہ کرنے کے وعدے سے مکر گئے تو اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی یہ’’سیاسی حرکت‘‘ اماراتی شیخ کے لیے کس حد تک شرمناک ہوگی ،اس کا فی الحال انداز ہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات اعلانیہ تسلیم کرنے پر فوری طورپر یہ نقصان تو ہوا ہی ہے کہ خطہ میں متحدہ عرب امارات تنہا دکھائی دے رہا ہے ۔جبکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع پر جس طرح سے اماراتی شیخ کی تذلیل کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جارہاہے ۔ وہ بلاشبہ لائق عبرت ہے۔ ذرائع تو یہ بھی خبر دے رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی عوام میں بھی اِس فیصلہ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتاہے ۔اَب وہ الگ بات ہے کہ یو اے ای کی عوام اُس طرح سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے جس طرح کی سہولت دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو حاصل ہے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کی جاسوسی کے لیے زبردست قسم کا نظام تشکیل دیا ہوا۔ جس کی مدد سے اسرائیل دشمن خیالات کا اظہار کرنے والوں کی کڑی چھان بین کی جاتی ہے اور اکثر بیشتر انہیں گرفتار کرکے سخت سے سخت سزائیں بھی دے دی جاتی ہیں ۔ لیکن ان تمام تر حفاظتی انتظام کے باوجود بھی متحدہ عرب امارات کی سرکار کو خدشہ ہے کہ اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف اُن کی عوام کے اذہان میں ایک لاوا پک رہا ہے ۔ جوکسی بھی وقت آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ کر سب کچھ اپنے ساتھ بہاکر لے جاسکتاہے۔ ہمیں تو ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ ہی وہ واقعہ نہ ہو جو اماراتی عوام کو اپنے حکمرانوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی زنجیروں کو خس و خاشاک کی مانند توڑنے پر مجبور کردے۔
ہماری ناقص رائے میں اسرائیل کے نزدیک بین الاقوامی سیاست کی بساط پرمتحدہ عرب امارات کی حیثیت ایک پیادہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اِس بار متحدہ عرب امارات کے مہرہ کو پیٹنے کے لیے آگے بڑھا دیا گیا ہے ۔یعنی متحدہ عرب امارات ایک’’سفارتی سیڑھی‘‘ ہے جس پر چڑھ کر اسرائیل اپنے صیہونی عزائم کی سمت ایک نیا قدم آگے کی جانب بڑھانا چاہتا ہے اور جیسے ہی اسرائیل بلادِ عرب میں اپنے بڑھے ہوئے قدم جمالے گا تو متحدہ عرب امارات کی سیڑھی کو سیاسی آگ کے دریا میں جلنے کے لیے پھینک دیاجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر