وجود

... loading ...

وجود
وجود

مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل گیم

اتوار 16 اگست 2020 مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل گیم

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا ’’سفارتی معاہدہ‘‘ جسے’’ امن معاہدے ‘‘سے تعبیر کیا جارہا ہے۔کیا مشرق وسطیٰ کے سماجی ،سیاسی ا و رمعاشی مستقبل بالخصوص فلسطین کاز کو ایسے کسی معاہدے کی ضرورت ہے یا نہیں اس بحث سے ہٹ کر اتنا ضرور ہوا ہے کہ اسرائیل عرب دنیا میں خود کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو یقینا فلسطین کی آزادی و خود مختاری اور ’’ بیت المقدس ‘‘ کی حرمت کے لیے زہر قاتل ہوسکتی ہے ۔بہر کیف مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جبکہ مسلم ممالک ترکی اور ایران کی جانب سے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی گئی اور ترکی نے متحدہ عرب امارات سے اپنے سفارتی تعلقات معطل کرنے پر غور شروع کردیا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر جوموقف سامنے آیا ہے اس میں پالیسی لائن واضح نہیں ہے جبکہ ماضی میں اسرائیل سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح اور دو ٹوک رہی ہے جو کسی صورت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔یہاں یہ واضح رہے کہ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات قائم رہے ہیں لیکن عرصہ دراز سے ان میں غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ سعودی عرب کے حوالے سے بھی یہ رپورٹس سامنے آتی رہیں ہیںکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ’’خاموش مفاہمت‘‘ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری 2020میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی شہریوں کو سعودی عرب میں آنے کی اجازت دی جارہی ہے جس میں مسلم اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ یہودی اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو کاروبار کے سلسلے میں سعودی عرب آ جاسکتے ہیں اور اس بار انھیں براہ راست اسرائیلی پاسپورٹ پر’’ ویزا ‘‘ جاری کرنے کی بات کی گئی تھی کیونکہ اس خبر سے پہلے مسلم اسرائیلی شہری اردن اور مصر کے ذریعے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لیے سعودی عرب آتے رہیں ہیں ۔اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں سفارتی اعتبار سے مضبوط کرنے میں جہاں امریکا کا ہاتھ موجود ہے وہاں مشرق وسطیٰ کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اسے اسرائیل کے قریب لانے پر مجبور کررہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی ’’پراکسی وار‘‘بھی اسرائیل کو غیر معمولی فائدہ پہنچارہی ہے ۔
بلا شبہ اس وقت امریکا کا مشرق وسطیٰ کی سیاسی و معاشی صورتحال پر مکمل کنٹرول ہے اور ایسے میںمشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کا نام نہاد ’’امن منصوبہ ‘‘ اسرائیل کو کس قدر سفارتی تقویت فراہم کرسکتا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے جبکہ امریکی حلقوں بالخصوص اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عرب ممالک میں سے ممکنہ طور پر’’ بحرین ‘‘ وہ اگلا ملک ہوگا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہا ہے لیکن ان خبروں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہائوس کے مشیر جیرڈ کشنر دعویٰ کررہے ہیں کہ عرب ممالک کی ایک قطار ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ بہرکیف معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگلے برس مارچ میں اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیںاور ان انتخابات میں اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہوکو ممکنہ طور پر کامیابی دلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے تاکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میںبالا دستی قائم کرنے کے امریکی منصوبے کا تسلسل قائم رکھا جاسکے۔ اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیںتو ایسے میں دیگر اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہونگے جبکہ فلسطینی ریاست کا تحفظ اور بیت المقدس کی آزادی کا فلسفہ ہر ایک مسلمان کے جذبہ ایمانی کا خاصہ ہے ۔ بہر کیف مشرق وسطیٰ کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ کھلی حقیقت ہے کہ مسلم ممالک میں ’’اتحاد‘‘ کا فقدان ہے جس کا فائدہ امریکا ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی خوب اٹھارہا ہے اگر مسلم ممالک میں بروقت اتحاد قائم نہیں ہوسکا تو وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل مشرق وسطیٰ کا نیا تھانیدار ہوگا یعنی یہودیوں کے ’’گریٹراسرائیل‘‘ کے خواب پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔لہذا وقت کاتقاضا یہی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے ایک’’ پلیٹ فارم ‘‘پر جمع ہوں تاکہ ایک ایسی متحد آواز میں اسلام دشمن قوتوں کو للکارا جاسکے کہ جس سے ان پر’’تاریخی لرزہ طاری ‘‘ہوجائے جیسا کہ ماضی میں اس حوالے سے مسلمانوں کو جو مقام ،حیثیت اور پہچان حاصل تھی ۔بہر کیف اب معاملہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی ’’عظمت رفتہ کی بحالی ‘‘کاہے اور اس کے لیے یقینا ترکی اور ایران میں پائے جانے والے’’ قوم پرستی ‘‘کے فلسفے کوخاصی اہمیت حاصل ہے جوکہ خالصتاً مذہبی و نسلی تناظر میں آٓگے بڑھ رہا ہے جبکہ عرب کو اب اس سوچ سے بھی باہر نکلنا ہوگا جو اسے ’’عرب اور عجم ‘‘کی تفریق پر اکھساتی ہے ۔ بہر کیف متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایک ایسے فریب کی مانند ہے جو اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا ہے کہ اس سے ممکنہ خطرات بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل یہودیوں کی ایک’’ گھس بیٹھیا ریاست‘‘ ہے جو فلسطین میں آباد ہوئے اور اس پر قابض ہوگئے یعنی کوئی ایک خاندان کسی دوسرے خاندان کے گھر میں گھس جائے اور حق ملکیت کا دعویٰ کردے جبکہ بعد میں وہی گھس بیٹھیا خاندان جھگڑا نمٹانے کے لیے یہ تجویز دے کہ آدھا گھر تم رکھ لو اور آدھا میں رکھ لیتا ہوں ،ایسا ہی کچھ 1948سے اسرائیل فلسطین کے ساتھ کرتا آیا ہے اور اس کے بعد اس کے مشرق وسطیٰ میں توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اسی طرح اسرائیل نے امن کے نام پر عرب ممالک کو ایک ’’عظیم فریب‘‘میں مبتلا کر رکھاہے جسے بھاڑے کے مصالحت کار امریکا کی آشیر باد حاصل ہے ۔جہاں تک اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی بات ہے تو اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کا اسرائیلی ریاست کے وجود کے حوالے یہ دو ٹوک موقف ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’ اسرائیل امت کے قلب میں گھونپا گیا ایک خنجر ‘‘ ہے ، یعنی بابا ئے قوم نے سیدھے الفاظ میں اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا ہے ۔ بہر کیف امت مسلمہ کو اب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو سیاسی و معاشی طور پر مضبوط بنانے میں کامیاب ہوسکے بصورت دیگر مغربی دنیا بالخصوص امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو معاشی اعتبار سے مفلوج کردے گا جو فکری اور سماجی اعتبار سے بھی ایک بڑی تباہی سے کم نہیں ہوگی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے لیے ایک دوسرے کی تیکنیکی اور معالی اعتبار سے غیر معمولی معاونت کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل گیم کو ناکام بنایا جاسکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر