وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا اور اہم شخصیات کا مجرمانہ کردار

منگل 16 جون 2020 کورونا  اور اہم شخصیات کا مجرمانہ کردار

ہر تجربہ ایک قیمت چاہتا ہے، اور یہ قیمت ہر اس شخص کو ادا کرنی ہوتی ہے، جو کچھ پانا چاہتا ہے،پانے کی جستجو اور کھو جانے کا افسوس ، احساس زیاں کازخم مندمل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ایک یاد ہی رہ جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن اس وقت قرنطینہ میں ہے، اور اکھڑی اکھڑی سانس لے رہی ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں اور استحصالی طبقے کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے درپے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عوام کو کورونا کے خوں آشام عفریت کے سامنے یوں نہ چھوڑ دیا جاتا۔ پاکستان کے ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں اور میڈیا نے وہ ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کڑے اور آزمائش کے لمحات میں انھیں ادا کرنا چاہیئے تھا، ہر ایک نے اپنی راہ اور اپنا چلن جدا گانہ ہی رکھا، اوپر سے علما اور دین دار طبقہ جسے اس وقت عوام کو صحیح راہ دکھانا تھا وہ بھی بدقسمتی سے اپنی راہ کھو بیٹھا ہے۔
لوگ اس وقت ایک گہری صدماتی کیفیت میں ہیں۔ پے در پے ایسی اطلاعات جن میں زندگی روٹھ رہی ہو۔ عوام کو شدید بے چین کر رہی ہیں، بالخصوص جب امید کی کوئی کرن بھی نظر نہ آرہی ہو۔ ایسی روشنی کی کرن اور امید افزاء اور مثبت باتیں ہیں، انھیں یا تو اس طرح ہائی لائٹ اور اجاگر نہیں کیا جارہا یا دانستہ انھیں چھپایا جا رہا ہے،ملک میں سیاسی عنصر اپنا ایجنڈا لے کر چل رہا ہے، انھیں حکومت ، حزب اختلاف، اپنے لیڈر، اپنا موقف، اپنی رائے ، ایک دوسرے پر الزامات سے فرصت نہیں ہے، وہ لوگوں کی قسمتوں پر سیاہی پھیر رہے ہیں۔ ایسے تبصرے ، رائے، تجزیئے پیش کیے جارہے ہیں ، جو عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ احتیاط اور احتیاط سماجی دوری فاصلہ رکھنے اور تنہائی اختیار کرنے کے پیغامات کی برسات ہے۔ لیکن کیا ملک کی نوے فیصد سے زائد آبادی کو وہ مادی وسائل ، ضروریات، تحفظ اور صحت اور دوا کی سہولیات دستیاب ہیں، جن کے ذریعے یہ احتیاط اور سماجی دوری اختیار کی جاسکے۔
سب سے زیادہ ناگفتہ پا صورت حال اسپتالوں کی ہے، لوگ معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن اسپتالوں کلینک اور دوا خانے بند پڑے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں رات کو اگر کسی پرائیوٹ اسپتال کے ایمرجینسی میں بھی جانا پڑے تو وہاں بارہ بجے کے بعد تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔ میڈیکل اسٹور شر شام ہی سے بند ہوجاتے ہیں، اگر کسی کو ہنگامی صورت حال میں دوا کی ضرورت ہو تو اسے دوا بھی نہیں مل سکتی، کھانے پینے کی اشیاء والی دکانوں کو رات گئے تک اجازت ہے تو میڈیکل اسٹور کو بند کرنے کا کیا جواز ہے۔ او پی ڈی جہاں جہاں ممکن ہے، وہاں انھیں معمول کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے، جو اسپتال ایسا نہیں کر رہے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیئے۔ عام مریضوں کو اچھوت نہ بنائیں، ہر بخار اور کھانسی یا اور کسی مرض والے کو کورونا سے نہ ڈرائیں، اس کی تسلی، حوصلہ افزائی، دوا دارو کا بندوبست کریں۔
سندھ میں اس وقت موسم بہت شدید ہے، لوگ گرمی سے بے حال ہیں، بجلی کی صورت حال بہت اچھی نہیں ہے، لوڈ شیڈینگ، منٹینینس کے نام پر گھنٹوں بجلی غائب ہوجاتی ہے، کیا حکومت، میڈیا، حکام نے اس پر کوئی توجہ دی، اس پر کوئی ہنگامی لائحہ عمل مرتب کیا۔ پانی کی فراہمی بہت سے علاقوں میں پوری طرح نہیں ہے، بہت سی جگہ پر سرے سے پانی نہیں ہے، اس پر کوئی لائحہ عمل ، اس پر قابو پانے کی کوئی تدبیر، میڈیا ایک قوال پارٹی کی طرح مصرعہ اٹھاتا ہے اور پھر سب اس لے کو اونچا کرتے رہتے ہیں، کبھی وینٹی لیٹرز اور کبھی بیڈ کی کمی کا رونا، سوال یہ ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کی نوبت نہ آنے کے لیے ہم نے کیا کیا ہے۔اربوں روپے کے فنڈز کہاں گئے، کیا سہولیات دی گئی، کیا انتظامات کیے گئے۔
ملک کے ادیب ، دانشور، لکھاری، صحافی، عالم ، مساجد کے امام، اخبارات کے کالم نگار، ٹی وی پر تبصرہ کرنے والے، اوپینین لیڈر، سوشل میڈیا کے بلاگر، ایکٹیویسٹ، اسٹیٹس اور پوسٹ ڈالنے والے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ جو مایوسی کو بہت تیزی سے پھیلا رہے ہیں، لوگوں کی صحت خراب کر رہے ہیں، ذہن پراگندہ کررہے ہیں، ایک موت کی اطلاع جب سینکڑوں پوسٹ اور تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر آتی ہے توآٓپ کیا محسوس کرتے ہیں۔ موت اور زندگی اللہ کی جانب سے ہے۔ اس بات پر مسلمان کا ایمان ہے۔ تو پھر اتنا اظہار افسوس، اتنے رنج و غم، اس قدر شور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ سے رحم اور عاجزی کی درخواست کریں، مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ ایسے صدموں سے ہر ایک گزر رہا ہے۔ ایک دوسرے کی دلگیری کریں، اللہ کی رحمت کا اشارہ دیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے میں نے اس بارے میں کوئی پوسٹ نہیں ڈالی۔ لیکن اگر یہ تمام لوگ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، اپنی گفتگو، اپنی تحریر، اپنے تجزیئے، اپنے تبصرے، میں امید کی کرن دکھائیں، مثبت خبروں کو اجاگر کریں، زندگی کا خوب صورت پہلو دکھائیں، سیاہی اور اندھیرے کا نقشہ دکھانا بند کردیں تو حالات میں بڑی حد تک بہتری آسکتی ہے۔جو ہونا ہے وہ تو اب بھی ہورہا ہے، لیکن خوف اور ڈر کے ساتھ، لیکن اگر امید دلائی جائے، راستے سجھائے جائیں، کامیابی کی کہانیاں سنائی جائیں، جو کورونا کے تجربے سے گذرے ہیں، اور الحمد للہ صحت یاب ہوئے ہیں، ان کی اسٹوری شیئر کی جائیں، جن لوگوں نے ہمت اور جرات اور بہادری سے اس وبا کا سامنا کیا ہے، جنہوں نے لوگوں کو اپنا پلازما دے کر زندگی اور صحت کا عظیم تحفہ دیا ہے، ان کی کہانی، ان کے تجربات، ان کی مثالیں سوشل میڈیا، ٹی وی اخبارات پر اجاگر ہوں تو حالات پر بہت فرق پڑے گا۔ اخبارات میں ہر روز مرنے والوں کی تعداد کو نمایاں سرخیوں میں بیان کیا جاتا ہے، کیوں نے سرخیوں میں ہر روز صحت یاب ہونے والوں کے اعداد پہلے اور متاثرین اور جان بحق ہونے والوں کے اعداد غیر نمایاں شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر میڈیا اور اخبارات نے یہ رویہ نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ اخبار کو ہاتھ بھی نہ لگائیں گے، اور ٹی وی سے دور ہوجائیں گے، اور سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر