وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین کے بدلتے ہوئے سُرخ ،سُرخ تیور

پیر 15 جون 2020 چین کے بدلتے ہوئے سُرخ ،سُرخ تیور

چین کا پرچم سُرخ رنگ کا ہے ،جس پر بائیں کونے میں اُوپری جانب زرد رنگ کے پانچ ستارے بنے ہوئے ۔ چین کے پرچم میں سُرخ رنگ خونی انقلاب کی علامت ہے ،جبکہ پرچم پر موجود پانچ ستارے چینی معاشرہ میں پائے جانے والے مختلف عوامی طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔چین نے یہ پرچم 01 اکتوبر 1949 کو بطور اپنی قومی پہچان کے اختیار کیاتھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے اپنے پرچم سے عیاں ہونے والے انقلابی و خونی مزاج کے یکسر برعکس ہمیشہ ہی سے دنیا بھر میں اپنا تاثر ایک اُمن پسند ،صلح جواور تنازعات سے کوسوں دُور رہنے والی معصوم قوم کا قائم کرنے کی کوشش کی ۔ گزشتہ چاردہائیوں سے جب دنیا بھر کے اکثر قابل ذکر ممالک پراکسی وار، سفارتی سازش اور جاسوسی کے ذریعے ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے میں مصروف عمل تھے ۔وہیں فقط چین ہی ایک ایسا ملک تھا جس نے اقوام عالم میں سیاسی و سماجی رُسوخ حاصل کرنے کے لیے دیگر ممالک کی طرح مذموم ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بجائے تجارت اور صرف تجارت بڑھانے کا بالکل جداگانہ راستہ اختیار کیا۔ عالمی تنازعات سے دُور رہنے کی پالیسی نے چین کے بارے میں اکثر اقوام کو یہ رائے قائم پر مجبور کردیا کہ ’’چین تو کسی بھی ملک کے ساتھ عسکری محاذ پر اُلجھنے کی نہ تو کوئی خواہش رکھتا ہے اور نہ ہی صلاحیت ،بلکہ وہ صرف عالمی تجارت کی بنیاد پر ہی سپرپاور بننے کا خواب دیکھ رہاہے‘‘۔اِس فکری مغالطہ نے بے شمار ممالک کو چین کے داخلی و سرحدی معاملات میں جارحانہ مداخلت کرنے پر اُکسایا اور کئی ممالک نے تو چین کی پراسرار خاموشی سے شہہ پاکر کھلے ،دبے لفظوں میں چین کو تجارتی و سفارتی میدان میں شکست فاش دینے کی دھمکیاں بھی دینا شروع کردیں۔
قبل اس کے کہ یہ گیڈر بھبھکیاں ،چین کے خلاف کسی بھی قسم کی عملی کارروائیوں میں بدل جاتیں کہ اچانک ہی چین نے اپنا برسوں پرانا مزاج بدلنا شروع کردیا اور انقلاب کا سُرخ رنگ جو کل تک صرف چین کے پرچم پر ہی نظر آتا تھا ،آج کل اُسی انقلاب کی خون آشام سُرخی چینی قیادت کی آنکھوں میں بھی صاف صاف دکھائی دینے لگی ہے۔چینی قیادت کے نئے اور جارحانہ تیور عالمی منظر نامے کا جو متوقع مستقبل دکھارہے ہیں ، اُس کے وسوسے اور اوہام چین کے حریفوں کی نیندیں مکمل طور پر اُچاٹ کرچکے ہیں۔چینی رہنماؤں کی گفتگو جو کبھی شیریں قوام کا مرقع ہوا کرتی تھی ،آج کل اُس میں میں طنز کی کاٹ اور تلخ نوائی کے اظہار کرنے والے جملے در آئے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک چینی رہنما سے سوال کیا گیا کہ چین کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی ہواوے اور امریکا کی سب سے بڑی کمپنی ایپل کا معاملہ کیا ہے؟‘‘۔ تو اِس سوال کے جواب میں چینی رہنما انتہائی معصومیت سے گویا ہوئے کہ ’’اپیل کسی بھی صورت ہواوے کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتی کیونکہ ہواوے کا تو شناختی نشان ہی ایک ایسا سیب ہے ،جس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں،اَب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ہووائے مستقبل میں اپیل کے ساتھ کیا کچھ کرنے والا ہے‘‘۔یعنی طنز و ترشی میں ڈوبے ہوئے جملہ کا مفہوم سادہ لفظوں میں ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آج سے 33 برس قبل ہی ہواوے کمپنی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی چین کے نزدیک امریکا کی سب سے بڑی موبائل کمپنی ایپل کے شناختی نشان سیب کی قاش قاش بکھیرنا تھا اور ہواوے یہ کام انتہائی خاموشی کے ساتھ کم و بیش مکمل ہی کرچکی ہے ۔ خاص طور پر 5 جی کے استعمال نے تو اپیل فون کمپنی کے مستقبل میں قائم رہنے پر ہی سنجیدہ قسم کے سوالات اُٹھادیئے ہیں۔
چینی پرچم پردکھائی دینے والے سُرخ رنگ کی انقلابی و جارحانہ سُرخی چینی قیادت کی آنکھوں اور لہجے میں ہی نہیں اُترچکی ہے بلکہ چین کے عملی اقدمات میں بھی انقلاب ِ چین کا خونی رنگ صاف چھلکتا ہوا نظر آرہاہے ۔ جس کی گہری شدت اور حدت کو اگر صحیح معنوں میں محسوس کرنا ہے تو ذرا ایک نظر چین اور بھارت کے سرحدی علاقہ لداخ پر ڈال لیجئے۔ جہاں چینی افواج کے جذبوں میں موجود انقلابی سُرخی کی تاب نہ لاتے ہوئے ہزاروں بھارتی فوجی اپنے مورچے چھوڑ کر کم و بیش 60 میل تک اُلٹے قدموں پیچھے ہٹ کر محفوظ بنکروں میں دُبک کر آبیٹھے ہیں۔یعنی چین بھارت میں60 میل تک اندر گھس آیا ہے اور بھارتی افواج بینر اُٹھائے چینی افواج سے اپیلیں کر رہی ہے کہ ’’آپ ہمارے علاقہ میں بہت دُور تک آچکے ہیں ،اگر یہاں سے واپس چلیں جائیں تو آپ کی بہت بہت مہربانی ہوگی ‘‘۔اَب بھلا بے وقوف بھارتی سورماؤں کو کون سمجھائے کہ اگر چینی افواج نے واپس ہی جانا ہوتا تو وہ یہاں تک آنے کی زحمت ہی کیوں کرتے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ چین بھارت کے جس علاقہ کو اپنے قبضہ میں لے چکا ہے ،اَب وہ وہاں ایسی عظیم الشان عسکری تعمیرات کررہا ہے ،جنہیں تسخیر کرنا بھارت کی 45 لاکھ افواج کے لیے ہمالیہ کی چوٹی سَر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہوگا۔یہ وہ بدیہی حقیقت ہے جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہم سے بھی زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔لہٰذا انہوں نے اور اُن کے سپہ سالاروں نے چین کی اِس جارحانہ حرکت کو تقدیر کا لکھا مان کر صبر کا کڑوا گھونٹ بھر لیاہے۔
واقفانِ حال تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو ،چار ہفتوں سے امریکا میں بپا ہونے والے شورش زدہ حالات کی بھیانک تصویر میں بھی چین کے پرچم میں موجود سُرخ رنگ سے ہی رنگ آمیزی کی جارہی ہے ۔کیونکہ چین ماضی قریب میں ہانگ کانگ میں روا رکھے جانے والے امریکی کے اسپانسر شدہ فسادات کا حساب کتاب بھی مع سُود فوری طور پر بے باک کرنا چاہتاہے اور ساتھ ہی اپنے اِس نئے وغیر متوقع جارحانہ طرزِ عمل سے امریکا کو یہ بھی باور کروانا چاہتاہے کہ ہانگ کانگ میں امریکی مداخلت سے جتنی تکلیف چین میں محسوس کی جائے گی ،اُس سے کئی گنا زیادہ تکلیف دہ حالات کا سامنا جوابی طور پر امریکا کو اپنے ملک میں بھی کرنا پڑے گا۔علاوہ ازیں امریکی حلقوں میں بھی یہ تجزیے پیش کیے جارہے ہیں امریکا کے داخلی معاملات میں چین کا اثرو رسوخ خطرناک حد بڑھتا جارہاہے اور آنے والے امریکی انتخابات کو چین کے اثرات سے بچانا امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے کم و بیش ناممکن ہوگیاہے۔ اِس لیے بعض تجزیہ کار امریکی انتخابات کو چین کی مداخلت سے بچانے کے لیے انہیں اُس وقت تک ملتوی کرنے کے مشورہ بھی دے رہے ہیں جب تک کہ امریکا داخلی طور پر انارکی خطرناک صورت حا ل سے مکمل طورپر باہر نہیں نکل آتا۔قصہ مختصر یہ ہے کہ چین کے پرچم میں موجود سُرخ رنگ آہستہ آہستہ ساری دنیا کے اُفق پر پھیلتا جارہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر