وجود

... loading ...

وجود
وجود

17 جون ،14 خون۔۔۔!

جمعرات 11 جون 2020 17 جون ،14 خون۔۔۔!

پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ المناک سیاسی سانحات اور سماجی حادثات سے بھری ہوئی ہے ۔جن میں سے بیشتر کو تو ہم نہ جانے کب سے من حیث القوم یکسر فراموش ہی کربیٹھے ہیں ۔17 جون 2014 کو زندہ دلان شہر لاہور کے سب سے متمول اور معروف علاقہ ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے 14 معصوم کارکنان کا سیاسی قتل عام کا دل خراش واقعہ بھی ہمارے سماج کے چہرے کا ایساہی ایک بدنما اور بھیانک سانحہ تھا۔ جسے ہم نے اپنے تئیں تو بھلانے کی بہت کوشش کی لیکن کیا کریں تحریک منہاج القرآن کے پر اُمید کارکنان نے ہر گزرے برس کی طرح اِس سال بھی 17 جون کی پرآشوب تاریخ آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر’’مظلومانہ احتجاج ‘‘کا ایسا ’’طوفانِ آہ و بکا‘‘ برپا کردیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کشت و خون سے لبریز تصویریں بارِ دگر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی ہیںکہ کس طرح ایک سیاسی خاندان کی شریفانہ سیاست کا خوف عام لوگوں کے قلوب میںبٹھانے کے لیے نہتی باپردہ خواتین کے سینے گولیوں سے چھلتی کئے جارہے ہیں ،کیسے عمررسیدہ باریش بزرگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جارہاہے اور کیسے کم عمر نوجوانوں کو اُن کے ہی خون میں نہلایا جارہا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن شریف خاندان کی جانب سے دکھایا جانے والا ’’سیاسی طاقت ‘‘ ایک ایسا شرمناک مظاہر ہ تھا ،جسے یاد کرتے ہوئے کسی کمزور دل شخص کے رونگٹے آج بھی کھڑے ہوجاتے ہیں ۔مگر خدا جانے میاں شہباز شریف اور رانا ثنا ء اللہ کس ’’سیاسی مٹی ‘‘سے بنے ہیں کہ جنہیں نہ تو کل اپنی اِس’’انتظامی حرکت‘‘ پرکوئی احساسِ شرمندگی تھا اور نہ آج ذرہ برابر احساسِ ملامت ہے ۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو پورے چھ برس بیت چکے ہیں ،اِن چھ برسوں میں تین برس تو اُسی نام نہاد خادمِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف اور اُن کے برادر میاں محمد نواز شریف کے دورِ حکومت کے رہے ہیں ،جسے باقر نجفی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے،اِس لیے اِن تین برسوںمیں تو کسی بے وقوف سے بے وقوف شخص کو بھی ذرہ برابر اُمید نہیں تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف کی بھنک بھی مل سکتی ہے۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ ہوا بھی ایسا ہی اور شریف خاندان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کالک کو اپنے چہرے سے مٹانے کے لیے اپنے دورِ اقتدار میں ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ کا بھرپور انداز میں استعمال کیا ۔ یعنی کبھی ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے لواحقین کومال و زر سے خریدنے کی کوشش کی گئی تو کبھی شہدا کے متعلقین پر عرصہ حیات تنگ اور دشوار کرنے کا انتظامی بندوبست کیا گیا ۔مگر سلام! ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اُن مظلومین پر کہ جنہوں نے شریف خاندان کے کسی بھی طرح کے ظلم و استبداد کے سامنے اپنا سرتسلیم ِ خم نہیں کیا ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی یہ ثابت قدمی ہی ہے کہ آج چھ برس بعدبھی الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خون آلود نقوش زندہ و جاوید ہیں۔
یادش بخیر! کہ گزشتہ دو برس سے تو زمامِ اقتدار تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے پاس ہے ۔ جنہیں ایک زمانے میں کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کا ’’سیاسی کزن‘‘ بھی کہا جاتاتھااور یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے2014 کے دھرنے میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا تھا کہ وہ اقتدار کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا ء کے لوحقین کو انصاف مہیا کریں گے اور تحریک منہاج القرآن کے جملہ متعلقین نے عمران خان کے اِس اعلان پر آنکھ بند کرکے یقین بھی کرلیا تھا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دھرنے کے دوران جب ایک رات ’’شریف انتظامیہ ‘‘نے افراتفریح پھیلا کر عمران خان کو اُن کے کنٹینر سے گرفتار کرنے یا مارنے کی مبینہ کوشش کی تو ایسے نازک حالات میں اپنی جانے ہتھیلی پر رکھ کر عمران خان کی رات بھر حفاظت کرنے والے بھی منہاج القرآن کے کارکن ہی تھی ۔ دھرنے کے دوران رونما ہونے والی یہ وہ واقعاتی حقیقت ہے جس کا اعتراف خود عمران خان بھی ایک سے زائد بار کرچکے ہیں۔ مگر افسوس تحریک انصاف کے دوسالہ دورِ حکومت میں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین ہنوز ’’جائز انصاف ‘‘ کے منتظر ہیں۔ویسے تو تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج طلوع ہونے کے بعد ’’شریف خاندان ‘‘ کے ساتھ احتساب اور جواب دہی کے نام پر بہت کچھ ہوا اگر کچھ نہ ہوسکا تو بس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کے خون کا معاملہ کسی بھی سطح پر اُٹھایا نہ جاسکا۔بقول اکبر الہٰ آبادی۔

پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتاہے
کبھی قاضی نہیں ملتے ، کبھی قاتل نہیں ملتا

حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت اگر تھوڑی سی سیاسی دانش مندی کا مظاہرہ کرتی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو زیادہ مناسب انداز میں شریف خاندان خاص طور پر میاں محمد شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے خلاف استعمال کرسکتی تھی ۔کیونکہ کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت واپس وصول کرنے کے مقابلے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں شریف خاندان کے منطقی امکان تک جلد پہنچنے کے زیادہ امکانات تھے۔ جبکہ شریف خاندان کی کرپشن کے معاملات اگر نیب کے لیے ہی چھوڑ دیئے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔اگر ایسا ہوجاتاتو آج میاں شہباز شریف ہنستے مسکراتے نیب کے سامنے ’’ڈرامائی پیشیاں‘‘ بھگتنے کے بجائے پابجولاں کسی کال کوٹھڑی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مضمرات پر غور و فکر فرمارہے ہوتے جبکہ اُن کے دستِ راس رانا ثنا ء اللہ منشیات کیس میں ضمانت ملنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ سیاست سیاست نہیں کھیل رہے ہوتے بلکہ اپنے کردہ سیاسی گناہوں کی معافی کے لیے رب سے مناجات میں محو ہوتے۔بہرحال ابھی بھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی ہے کہ شریف خاندان کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پھندا کسا نہ جاسکے ،ویسے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی واحد ایسا کیس ہے جو مسلم لیگ ن کے سیاسی تابوت کی آخری کیل ثابت ہوسکتاہے۔ شاید یہ ہی مناسب وقت ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان عمران خان کو اپنا سیاسی مستقبل ایک طویل مدت تک محفوظ بنانے اور شہدائے ماڈل کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاون کیس کی کیل فوری طور مسلم لیگ ن کے سیاسی تابوت میں ٹھونک دینی چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر