وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری

هفته 02 مئی 2020 کورونا میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری

چند دن پہلے لاڑکانہ میں لاک ڈاؤن اور بے روزگاری سے تنگ آکر 16 سالہ نوجوان حسنین ملاح نے دو منزلہ عمارت سے کود کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کی ایک ایسی ہی واردات کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی نے متوفی کے خاندان کی امداد اور مرحوم کے خاندان کے ایک فرد کو نوکری دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ بے روزگاری اور کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن سے پریشان اور بدحالی کی حالیہ لہر میں خودکشی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ملک میں معیشت کا پہیہ جام ہے، کاروبار بند ہیں، فیکٹریاں سونی پڑی ہیں، اور مزدور سڑکوں پر بھیک میں ملنے والی امداد اور امدادی سامان کے لیے سرگرداں ہیں۔ صوبے ہوں یا مرکز کہیں بھی کوئی بھی نہ منصوبہ ہے نہ آگے کی کوئی آگہی۔کوئی بھی صنعت کار یا تاجر یا کارخانے دار کب تک بغیر چھٹی اپنے ملازمین کو تنخواہ دیگا۔ بہت سے تاجروں اور کاروباری اداروں نے اب ملازمین کو یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اگلے ماہ سے آپ کی چھٹی۔ کچھ صنعتی اور کاروباری اداروں کی جانب سے بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیروزگار ہو چکے۔
کورونا کے دوران اس بات کا بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ بہت سے روایتی کام دھندے اس وبا کے بعد بند ہوجائیں گے۔ بہت سے نئے کا م شروع ہوں گے۔ آئی ٹی کے کام میں تیزی آئے گی۔ آن لائین ہونے والے کام زیادہ ہونے لگیں گے۔ جس سے جہاں نئے روزگار کے مواقع ملنے کا امکان ہے، وہاں یہ خدشات بھی ہیں کہ بہت سے لوگ بے روزگارہوجائیں گے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں تو اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے۔ مکمل طور پر بند کمپنیاں آٹو، ٹیکسٹائل، انجنیئرنگ، سیمنٹ، کیمیکلز وغیرہ کے شعبوں سے متعلق ہیں۔ حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔لیکن یہ ایک اندازہ ہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکومتی ادارے اعداد وشمار سے محروم ہیں، اور اس بارے میں کوئی سنجیدہ پیش رفت بھی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
کورونا سے پہلے جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں 50 کروڑ سے زائد افراد بے روز گار ہیں۔یا وہ جزوقتی ملازمت کر رہے ہیں۔ کورونا کے دوران اور اس کے بعد یہ صورت حال مزید خوفناک ہوگی۔ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔بہت سے ممالک حالات کی سنگینی کے باوجود اب صنعتی اور معاشی سرگرمیاں بحال کر رہے ہیں،
بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ جرائم کی ماں ہے، بھوک ، جرائم خودکشی، سماجی بدامنی اور معاشرہ کیں توڑ پھوڑ سب اس کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ جوں جوں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، کام کرنے والے کروڑوں افراد کے لیے بہتر زندگی گزارنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو کام کرنے کے قابل ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن انھیں کام نہیں ملتا۔
پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 79 فیصد ہے، اور شرح غربت 56 فیصد۔ یہ اعداد وشمار کورونا کے لاک ڈاؤن سے پہلے کے ہیں۔ سندھ میں گذشتہ پانچ برس میں 1300 افراد نے خودکشی کی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں 1300 افراد کی عمریں 21 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ ظاہر ہے یہ افراد کے کام کرنے کی عمر ہوتی ہے، ان میں سے اکثریت بے روزگاری، بھوک اور غربت کا شکار تھی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔پاکستانی معیشت جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے بھی خراب تھی اس میں مزید ابتری کورونا وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔ملک کی معاشی ترقی کے اعشاریوں میں تنزلی کی وجہ سے پہلے ہی بیروزگاری کی شرح بلندی کی طرف گامزن تھی اور اس میں مزید اضافہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی پہیے کے رک جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں اس مالی سال دو سے ڈھائی فیصد رہنے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے جی ڈی پی تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔پاکستانی معیشت کے تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے ملکی معیشت کے کورونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیشنگوئی کی ہے۔
موجودہ صورت حال میں ہمیں اپنے حالات اور ضرورت کے مطابق ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ہم ملک میں بے روگاری کے سیلاب کو روکنے میں کامیاب ہوں، اور ملک میں دوبارہ سے معاشی اور صنعتی، اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کرسکیں۔ کورونا کی وبا کب ختم ہوگی ، اور کیسے ہوگی، اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن عوام کی زندگیوں کو آسان اور سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ورنہ میر کی طرح ہم بھی یہی کہتے رہیں گے۔
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر