وجود

... loading ...

وجود
وجود

فلسفۂ روزہ اور مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ

پیر 27 اپریل 2020 فلسفۂ روزہ اور مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ

”روزہ“ کو عربی زبان میں ”صوم“ کہا جاتاہے، جس کے لفظی معنی ”رکنے“ اور ”چپ“ رہنے کے ہیں۔ بعض مفسرین نے اِس کے معنی ”صبر“ کے بھی لیے ہیں جس کی رو سے اِس کے معنی ”ضبط نفس، ثابت قدمی اور استقلال“ کے بھی بنتے ہیں۔روزہ کی نسبت جب رمضان کی طرف کی جائے تو اِس کامطلب یہ بنتا ہے کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جو روزہ دار آدمی کے گناہوں کو جلاکر اُسے معاصی اور گناہوں سے بالکل پاک صاف کردے اور آدمی اِس ماہِ مبارک کے ذریعے اپنی خواہشات نفسانیہ اور حرص و ہوا کا شکار بننے سے محفوظ رہے۔ کیوں کہ ”رمضان“ عربی زبان کا لفظ ہے جو ”رمض“ سے بنا ہے، اور اِس کے معنی عربی لغت میں ”جلنے“ اور ”جلانے“ کے آتے ہیں اوریہ لفظ ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ اِ س لفظ کی وجہئ تسمیہ حدیث شریف میں بھی یہی آئی ہے کہ اِس مہینہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مہینہ روزہ داروں کے گناہوں کو جلاکر اُنہیں معاصی اور گناہوں سے بالکل پاک صاف کردیتا ہے (بشرطے کہ اِس کے حقوق و آداب کی پوری رعایت رکھی جائے) اِس لیے اِس مہینہ کو ”رمضان“ کہا جاتا ہے۔
اسلام کی بنیاد جن پانچ ارکان اور ستونوں پر رکھی گئی ہے ”رمضان المبارک کا روزہ“ اُن میں سے اسلام کا تیسرا اہم ترین رکن اور اُس کاستون ہے۔ اِن تمام معانی و مطالب سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام کی زبان میں در حقیقت اپنے آپ کو خواہشاتِ نفسانی اور حرص و ہوا کی پھسلن میں مضبوط اور ثابت قدم رکھنے کا نام ”روزہ“ ہے۔
انسان کی روز مرہ کی زندگی میں عام طور پر کثرت سے استعمال ہونے والی خواہشاتِ نفسانیہ اور حرص و ہوا تین قسموں کی ہیں: ایک کھانا۔ دوسرے پینا اور تیسرے مرد و عورت کے باہمی جنسی تعلقات۔ان تینوں خواہشاتِ نفسانیہ سے ایک مدت معینہ (یعنی مکمل ایک ماہ) تک رکے رہنے کا نام شرعاً ”روزہ“ ہے۔
”روزہ“ کی مشروعیت اسلام کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ زمانہ قبل از اسلام اِس کی مشروعیت دیگر مذاہب میں پہلے سے چلی آرہی ہے۔اِس حقیقت کا ثبوت اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اِس وقت دُنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب میں روزہ رکھنے کا رسم و رواج پایا جاتا ہے۔ اِن مذاہب میں روزہ رکھنے کے اُصول و آداب، قواعد و کلیات اور اِس کے طور طریقے اگرچہ مختلف قسم کی آب و ہوا، قومیت و وطنیت، تہذیب و تمدن اور آس پاس کے حالات و واقعات کے اعتبار سے بہت کچھ مختلف ہیں، لیکن ایسے میں شاید ہی کسی ایسے مذہب کا نام لیا جا سکتا ہو کہ جس کے مذہبی نظام تعلیم میں ”روزہ“ مطلقاً تسلیم نہ کیا گیا ہو، بلکہ روزہ فی الجملہ دُنیا کے تمام تر مذاہب میں ایک رسم کی حیثیت سے آج بھی ہر قوم میں، ہر علاقہ میں اورہر جگہ رکھنے کا رواج پایاجاتا ہے۔
زمانہ قبل از اسلام”روزہ“ کی مشروعیت کی کوئی متعین تاریخ تو معلوم نہیں ہوسکی، البتہ قدیم زمانہ کے چند وحشی قبائل کی تمثیل و استقراء کی بناء پر قیاس آرائی کرتے ہوئے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی ابتداء در اصل اِس طرح سے ہوئی ہوگی کہ وحشت کے زمانہ میں لوگ خود بھوکے رہتے ہوں گے اور یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہمارے بدلے ہمارا کھانا اِس طرح دوسرے محتاج اوربھوکے لوگوں کو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ قیاس آرائی اربابِ خرد کی نگاہ میں سند کا درجہ حاصل نہ کرسکی۔
دیگر ادیان و مذاہب میں روزہ کی ابتداء اور مشروعیت کے اسباب و علل جوکچھ بھی ہوں بہرحال وہ مذہب اسلام میں روزہ کی مشروعیت کے سبب کا کسی بھی صورت ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ روزہ کی مشروعیت اور اِس کی غرض یہ ہے کہ اِس کے ذریعہ اِنسان متقی و پرہیزگار بن جائے، اُس میں خشیت و للہیت پیدا ہوجائے، وہ عاجزی و مسکنت کا پیکر بن جائے، اور اُس کے دل و دماغ میں مخلوقِ خدا کے لیے ایثار و ہم دردی کا چراغ رُوشن ہوجائے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ترجمہ: اے ایمان والو! پہلی قوموں کی طرح تم پر بھی اِس لیے ”روزہ“ فرض کیا گیا ہے تاکہ تم متقی اورپرہیز گار بن جاؤ!۔“
”روزہ“ کی اصل حقیقت اور حقیقی روح صحیح معنوں میں اگرچہ اِس وقت مذہب اسلام کے علاوہ دوسرے کسی بھی دین اور مذہب میں نہیں پائی جاتی تاہم رسمی حیثیت سے روزہ رکھنے کا رواج فی الجملہ روئے زمین پر بسنے والی تقریباً تمام ہی اقوام عالم میں پایاجاتا ہے۔
چنانچہ عیسائی مذہب میں روزہ رکھنے کو اللہ تعالیٰ کا ایک اہم ترین فریضہ تصور کیا جاتاہے۔ کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چالیس دن تک جنگل میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے پیغمبر گزرے ہیں اُن کے مذہب میں بھی روزہ فرض تھا اور اُن کی اُمت کے لوگ روزہ رکھتے تھے۔ اسی طرح یہودیوں کے مذہب میں بھی روزہ کو فرائض الٰہیہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہِ طور پر چالیس روز تک بھوکے پیاسے رہ کر روزہ رکھنا ثابت ہے۔ چنانچہ یہودی عام طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اسی پیروی میں چالیس دن تک روزہ رکھنے کو نیک خیال کرتے ہیں اور اسے ثواب کا درجہ دیتے ہیں۔ یہودی مذہب میں روزہ رکھنے کا مہینہ اُن کے مقرر کردہ ساتویں مہینہ (تشرین) کی دسویں تاریخ کو شروع ہوتا ہے، جسے وہ لوگ ”عاشورہ“ (یعنی دسواں) کہتے ہیں۔ ”عاشورا“ کا یہی وہ دن ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات کے دس احکام عنایت ہوئے تھے اور اسی کی اہمیت و افضیلت کے پیش نظر تورات میں اِس دن کے روزہ رکھنے کی بڑی ترغیب و تاکید آئی ہے۔ شریعت موسویہ میں در اصل یہودیوں پر چالیس دن کے روزے فرض تھے، لیکن بعد میں یہودیوں نے مختلف حالات و واقعات کی یادگار میں مذہب موسوی میں اپنی طرف سے اور بہت سے روزے بڑھادیئے اورشریعت کے حکم میں اضافہ کردیا جن میں اکثر و بیشتر روزے غم کے تھے جس کے اظہار کے لیے یہودی اپنی ظاہری شکل و صورت بھی غم گین اور اُداس بنالیتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آکر اپنے زمانے میں غم کے اِن مصنوعی روزوں کے رکھنے سے یہودیوں کو منع فرمادیاتھا۔
اسی طرح ہندو مذہب میں بھی روزہ رکھنے کو عبادت تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہر ہندی مہینہ کی گیارھویں اور بارھویں تاریخ کو برہمن ہندو ”اکاشی“ کا روزہ رکھتے ہیں، جس کے حساب سے اِن کے سال میں چوبیس روزے بنتے ہیں۔ بعض برہمن ہندو ”کاتک“ کے مہینہ میں ہر سوموار کو روزہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہندو جوگی جو چلہ کشی کرتے ہیں اس چلہ میں بھی پورے چالیس دن تک وہ روزہ رکھتے ہیں اور کھانے پینے سے بالکلیہ پرہیز کرتے ہیں۔ ہندوستان کے تمام مذاہب میں ”جینی دھرم“ میں روزہ کی سخت اور کڑی شرائط ہیں، یہاں تک کہ پورے چالیس دن تک کا اُن کے یہاں ایک روزہ رکھا جاتا ہے۔ ”دکن“ اور ”گجرات“ میں ہرسال ”جینی“ کئی کئی ہفتوں کا روزہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح قدیم مصریوں کے یہاں بھی ”روزہ“ خاص طور پردیگر مذہبی تہواروں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ یونان میں صرف عورتیں ”تھمو فیریا“ کی تیسری تاریخ کو روزہ رکھتی ہیں۔ پارسی مذہب میں عام پیروؤں پر گو ”روزہ“ فرض نہیں، لیکن اُن کی الہامی کتاب کی ایک آیت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا حکم اُن کے مذہب میں بھی پہلے سے موجود تھا، بالخصوص اُن کے مذہبی و روحانی پیشواؤں کے لیے تو پنج سالہ روزہ رکھنا ضروری تھا۔
اسی طرح زمانہ قبل از اسلام میں مشرکین اہل عرب میں بھی فی الجملہ کچھ نہ کچھ روزہ رکھنے کا رواج تھا، جیساکہ زمانہئ جاہلیت میں قریش مکہ میں عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ رکھنا مستحسن سمجھا جاتاتھا، اِس لیے کہ اُس دن خانہ کعبہ کا غلاف تبدیل کیا جاتا تھا اور اُس پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ کے یہودی اپنا عاشورہ الگ مناتے تھے یعنی ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔
بہرحال روزہ رکھنے کا فلسفہ اور اُس کا اصلی مقصد اور حقیقی غرض دیگر تمام اقوام عالم و ملل میں کچھ بھی ہو مذہب اسلام میں اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اِس سے انسان کی جان اور مشام روح معطر ہوجائے، اُس کی خواہشات نفسانیہ اور حرص و ہوا کو سکون نصیب ہوجائے اور اُس کے دل و دماغ میں مخلوقِ خدا کے لیے شفقت و نرمی اور ایثار و ہم دردی کے غیر معمولی جذبہ کا دیا رُوشن ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر