وجود

... loading ...

وجود
وجود

شیرازہ بکھر رہا ہے !

هفته 25 جنوری 2020 شیرازہ بکھر رہا ہے !

دنیا بھر میں جمہوریت پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، ایک نظام کے طور پر اسے ناکام تصور ثابت کرنے کے لیے نئی نئی کتابیں منظرعام پر آرہی ہیں۔ مگر پاکستان میں اس بدترین، رسواکن اور سوال زدہ جمہوریت کو بھی ہم ترس گئے ۔ گویا دنیا گزشتہ دو صدیوں سے جمہوریت کے تجربات کے ساتھ اپنے جس’’ بدترین‘‘ میں سے’’ بہترین‘ کو تلاش کررہی ہے، اُس بہترین کو تو چھوڑئیے ہم اس کے بدترین کے بھی بدترین کے مستحق قرار نہیں پاسکے۔ ایک حقیقی منتخب جمہوری حکومت کا یقین تاحال عوام نہیں رکھتے۔ درحقیقت ایک انتخابی مشق کے ذریعے عوام کو احساس شرکت دے کر چالیس سے پچاس حلقوں میں’’ ٹائر ٹیوب‘‘ بدل کر اور اس سے بھی کہیں زیادہ حلقوں میں ’’پرانے ٹائروں ‘‘میں ’’پنکچر ‘‘ لگا کر ایک پہلے سے ڈیزائن حکومت ’’چن‘‘ لی جاتی ہے۔ اس طریقۂ انتخاب سے جو انگڑ کھنگڑ اور کاٹھ کباڑ جمع کیا جاتا ہے ، اُن میں صلاحیت ہوتی ہے اور نہ صالحیت۔ یہ’’منتخب لوگ‘‘ مصالحت ،مداہنت ، مسابقت اور مبارزت کے شکار رہتے ہیں۔ اور حکومت نہیں حکومت کی ’’اداکاری‘‘ کرتے کرتے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی یہی اداکاری کرتے کرتے عبرت کا نشان بننے کے قریب ہے۔

یہ بات بالائے فہم ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک اتحادی حکومت میں بھان متی کے کنبے پر مکمل انحصار رکھنے کے باوجود ’’جمہوری‘‘ کیوں نہیں بن رہے؟ وہ ایک طفیلی حکومت کے طور پر اپنا مکمل انحصار جہاں ایک طرف اتحادیوں کے ووٹوں پر رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ عملاً مقتدر حلقوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اُن کی حکومت اتحادیوں کے دم قدم سے ہونے کے باوجود اپنا دم خم ان ہی مقتدر حلقوں کے باعث رکھتی ہے۔ اتحادی تو اُنہیں بعد میںگرائیں گے، وہ جن مختلف مقدمات کی زد میں ہیں، اُن میں سے کوئی ایک بھی اپنی فطری رفتار پکڑ لے تو وہ ’’نااہل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس تو ایک عیاں اور عریاں مقدمہ ہے۔ مگر کچھ ملفوف معاملات ایسے بھی ہیں جس کی باگ کھلی چھوڑ دی جائے تو عمران خان کا مقدر کوئی گوشۂ تنہائی ہی ہوسکتا ہے۔اس کھلے جبر کے باوجود وزیراعظم عمران خان حکومت سنبھالتے نظر نہیں آتے۔ اتحادیوں کی ناراضی کی کم سے کم پروا کرنے کے ساتھ وہ اپنی ہی جماعت کے اندر بے شمار مسائل کے شکار بھی ہیں۔یہ مسائل اُنہیں کتنے تنگ کررہے ہیں، اس کا اندازا اُن کے اس فقرے کی تہہ داری سے ہوتا ہے کہ ’’سکون قبر میں ہی ملتا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کی حکومت بچانے کی ذمہ داری بھی اُن کی نہیں بلکہ اُن کی ہے جن کی وجہ سے یہ حکومت قائم ہے؟ اس تصور کے بغیر عمران خان کا رویہ سمجھ میں نہیں آتا جو اُنہوں نے اتحادیوں کے ساتھ روا رکھا ہے۔

ایم کیوایم کے پاس اس حکومت سے منسلک ہو نے کااختیار تھا اور نہ ہی اس حکومت سے علیحدہ ہونے کااختیا رہے۔ وہ ایک جبری اتحاد کا حصہ ہے ۔ اُصولی طور پر وہ جس ’’جبر ‘‘ سے کراچی کا کنٹرول رکھتے تھے، اس پر تحریک انصاف نے ڈاکہ ڈالا ہے۔ یہ عملاً چور کے گھر چوری کی واردات تھی۔ ایم کیوایم نے انتخابات میں اسی چیز کا ذائقہ چکھا جسے وہ کراچی کی ’’لذت‘‘ بنا چکے تھے۔ اس بنیاد پر تحریک انصاف اُن کے اتحادی نہیں بلکہ سیاسی حریف ہے۔ مگر ایم کیوایم نہ صرف تحریک انصاف سے چمٹی ہوئی ہے بلکہ وہ احتجاجاً وزارت چھوڑنے کے بعد بھی حکومت کے ساتھ اپنے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیوایم نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنے ایک وزیر پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ایم کیوایم سے حکومت کے مختلف وفود نے جو بھی بات چیت کی ہے اس کا کوئی نتیجہ تاحال نہیں نکل سکا۔ ایم کیوام مقدمات کے جبر اور بطور جماعت بقا کے مسئلے سے دوچار ہے۔ اُن کے پاس اپنے تحفظ کے لیے واحد راستا طاقت ور حلقوں کے سامنے سرجھکائے رکھنا اور اُن کی منشاء کے مطابق خود کو ڈھالے رکھنا ہے۔ تاکہ وہ مزید ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ سے بچ سکیں۔

پنجاب کا سیاسی حال اس سے زیادہ خوار وزبوں ہے۔ وسیم اکرم پلس کی بلی’’ غٹر غوں‘‘ کررہی ہے۔یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی بال وپر نکالا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے حوالے سے پچھلی حکومت میں جو تجربہ کیا تھا، اس کے بعد پنجاب میں ایک اطاعت گزار اور فرماں بردار ، بزدار کی شکل میں تلاشا گیا۔مگر عملاً فرماں بردار بزدار نے تحریک انصاف میں ہی ایک گروپ نکال کر عمران خان کے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ عثمان بزدار ہی نہیںگورنر پنجاب چودھری سرور بھی شکوہ سنج ہے کہ بیورو کریسی اُن کی نہیں سن رہی۔ وزیراعظم عمران خان نے نامعلوم دباؤ یا اپنی معلوم سیاسی کم فہمی سے پنجاب میں ایسی بیورکریسی کو مامور کردیا جو طاقت ورحلقوں کے ساتھ مضبوط روابط کے ساتھ بروئے کار ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی ہی نہیں سرکاری احکامات کو بھی خاطر میں نہیں نہیں لارہی۔ اس پر وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب کی چیخیں بلند ہورہی ہیں۔ ان ہی حالات میںپنجاب میں تحریک انصاف کے اندر ایک گروپ نے سر اُٹھایا ہے۔ جس کا مقدمہ خود وزیراعلیٰ پنجاب لڑرہے ہیں۔ عمران خان کے لیے بہت تھوڑے عرصے میںیہ ’’میری بلی مجھے میاؤں‘‘والے حالات ہیں۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ عثمان بزدار کی شکل میں ایک فاش سیاسی غلطی کر چکے، بلکہ اس سے بھی زیادہ تباہ کن خطا یہ ہے کہ وہ اس غلطی کو سمجھ ہی نہیںپارہے۔ عمران خان کو پنجاب میں اصل مسئلہ کیا درپیش ہے؟

پنجاب، خیبر پختونخوا نہیں تھا۔ وزیر اعظم کو پنجاب میں ایک مضبوط اور طاقت ور سیاسی آدمی کی ضروت تھی۔ کیونکہ یہاں اُن کا مقابلہ چار دہائیوں سے سیاست پر کسی نہ کسی طور چھائے شریف خاندان سے تھا۔ جو بیوروکریسی سے لے کر نظر نہ آنے والے مگر حکومت پر اثرانداز ہونے کی غیر روایتی طاقت رکھنے والے عناصر پر اب تک اپنی گرفت رکھتا ہے۔ یہ تمام قوتیں سیاسی بحران سے لے کر معاشی بحران پیدا کرنے کی حساب کتاب کے ساتھ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس طرح پنجاب میں شریف خاندان سے صرف حکومت ہتھیانا کافی نہیں تھا بلکہ ان عناصر سے حقیقی طاقت کی باگ لینا بھی ضروری تھا۔ ایسے تمام عناصر کا متبادل بنے بغیر پنجاب کے سیاسی و معاشی حالات کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان تو اس پہلو سے سیاسی ادراک رکھنے کی کوئی صلاحیت سرے سے رکھتے ہی نہ تھے ، مگر اس معاملے میں مقتدر حلقے بھی سوچنے سمجھنے میں مکمل ناکام رہے۔ چنانچہ پنجاب میں ایک سے دوسرا بحران سر اُٹھاتا ہے، اور حکومت تماشا ختم کرنے کے بجائے خو دتماشا بن رہی ہے۔ اس پورے معاملے کا اصل نکتہ یہ تھا کہ عمران خان نے یہ سب جنتر منتر کی نظر سے دیکھا۔ حالانکہ شریف خاندان ایسے سیاسی جن تھے جواس نوع کے کسی بھی جنتر منتر کے حصار میںنہیں آتے تھے۔یہ خمیازہ بھگتنے اور بھگتتے رہنے والی غلطی تھی جو ہوگئی۔ اب عثمان بزدار ایک طرف وہ شخصیت نہیں جو مضبوط سیاسی متبادل کے طور پر تحریک انصاف یا عمران خان کی جانب روایتی یا غیر روایتی طاقت ور عناصر کو متوجہ کرتے۔ دوسری طرف وہ مسائل کا حل بننے کے بجائے خود ایک مسئلہ بن گئے۔ اب وہ ایک گروپ بنا کر آنکھیں الگ دکھا رہے ہیں۔

یہ سب کا فی نہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کے لیے اتحادیوں کی شکل میں ایک مستقل چیلنج پنجاب میں کھڑا ہے۔ پنجاب کے چودھری برادران سیاست میں کسی نہ کسی طرح ایک ایسا مقام پا لیتے ہیں جو کسی حد تک فیصلہ کن بن جاتا ہے۔یہ تو اب کوئی راز نہیںرہا کہ وزیراعظم چودھری برادران سے خوش نہیں۔دوسری طرف چودھری برادران بھی حکومت کے لیے کوئی نہ کوئی دردِ سر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیوایم طاقت ور حلقوں کے ساتھ جبر اور چودھری برادران صبر کے ساتھ وابستہ ہیں۔وہ ہر دور میںکسی نہ کسی شکل میں ایک ضرورت بن کر کوئی نہ کوئی کردار تلاش کرلیتے ہیں۔ عمران خان مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے حوالے سے چودھری برادران کے کردار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف چودھری برادران پنجاب میںاختیارات اور اپنے ساتھ وعدوں کا رونا روتے ہیں۔ اِدھر حکومت کے جی ڈی اے کے ساتھ بھی روابط انتہائی پتلے ہیں۔اطلاع یہ ہے کہ وہ اپنے دونوں وزراء ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور محمد میاں سومرو کو حکومت سے دستبردار کرانے پر غور کرر ہے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ اس عالم میں آپ اتحادیوں کو منابھی لیجیے تو کیا ہوا؟ٹانکے تو اکھڑ چکے، باریک سوراخ رہیں گے۔ بلوچستان کے اتحادی باقاعدہ صوبائی حکومت کے اندر وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے کھلے عام گیارہ ووٹوں کی بات کررہے ہیں۔ اس سیاسی منظرنامے کا سبق یہ ہے کہ سہاروں پر کھڑی حکومت کو سیاست بھی لچکیلی کرنا ہوتی ہے۔ پھلدار درخت کی شاخیں جھکی رہتی ہیں۔ اور بے ثمر درخت تنے رہتے ہیں۔ عمران خان غور کریں کہیں اتحادیوں کا شیرازہ بکھر تو نہیں رہا۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ تن کر تو غوروفکر بھی نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر