وجود

... loading ...

وجود
وجود

پھر تخریب و خلل کی سیاست (جلال نورزئی)

جمعرات 02 جنوری 2020 پھر تخریب و خلل کی سیاست (جلال نورزئی)

یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا بلوچستان عوامی پارٹی (باپ )اپنی اصل میں ایک فکری و عوامی جماعت ہے یاالیکٹ ایبلز پر مشتمل سیاسی جتھہ ہے ۔ بہر حال اس جماعت کی بلوچستان کے اندر حکومت ہے۔ جولائی2018ء کے عام انتخابات میں ان سے منسلک 15افراد منتخب ہوئے،ما بعد شمولیتیں ہوئیں۔ اس طرح ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کی شراکت سے حکومت بنالی۔ جام کمال خان عالیانی بالاتفاق وزیراعلیٰ بنائے گئے ۔جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ حزب اختلاف اچھی خاصی مؤثر ہے ۔ تجربہ کار اور معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے والے لوگ اس کا حصہ ہیں۔ اس حکومت کو شاید حزب اختلاف سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ کہ حزب اختلاف کا کام ہی اپنے فہم کے تحت حکومت کی ہر ُاس پالیسی پر گرفت کرنا ہوتاہے، جو ان کی دانست میں عوام اورو صوبے کے مفاد سے متصادم ہو۔ تجاویز دیتی ہے ، نقص و اغلاط کی نشاندہی کرتی ہے ۔گویا حزب ا ختلاف کی بجائے جام کمال کے لیے مشکلات اپنی ہی صفوں سے پیدا کی جارہی ہیں ۔ اندرون کی اس رسہ کشی اور ضرب کاری سے حکومت کی توجہ یقینا فرائض سے ہٹ کر اس تخریب کاری پر مرکوز رہتی ہو گی ۔ جس سے لا محالہ صوبے اور عوام کے مفاد کوزد پڑ رہا ہے ۔ بلوچستان عوامی پارٹی فی الواقع ایک فکری ،نظریاتی، عوامی جماعت ہوتی تو اندرون کی ان وارداتوں کا تدارک پارٹی آئین و روایات سے کردیا جاتا ۔ جام کمال فیصلوں اور اقدامات میں پوری طرح مختار ہوتے تو شاید وہ تخریب کا باب کب کا بند کرچکے ہوتے ۔کابینہ اور پارٹی فورم کی بجائے معاملات کہیں اور زیر بحث نہ لائے جاتے۔ گویا اس جماعت کی نکیل کئی ہاتھوں میں ہے ۔ اس بنا جام کمال خان کی مجبوریاں بھی سمجھ سے باہر نہ ہیں۔ دھونس اور دبائو کے یہ حربے اول روز سے استعمال کیے جارہے ہیں ۔

اس نزاع کی بنیاد حقیقی اور اصول کی بجائے گروہی اور شخصی مفاد پر ہے ۔انہدام و سبوتاژ کی سیاست ا سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کی جانب سے ہورہی ہے۔ انہیں شاید سرفراز ڈومکی کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ جوجام کمال سے اختلاف کی بنا پر اگست 2019ء میں وزارت سے استعفا دے چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری بھی یقینا ان کے حامی ہوں گے۔ جن سے پہلے وزارت صحت کا قلمدان لیا گیا۔ اور اس کے ایک ہفتے بعد( 18دسمبر 2019ئ) کابینہ سے بھی برطرف کیاگیا۔دراصل عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کا چسکا لگ چکا ہے۔اس لذت کے اسیر سردار اسلم بھوتانی اور جان جمالی بھی ہیں۔سُننے میں ہے طارق مگسی کی دلچسپیاں بھی آرہی ہیں ۔ قدوس بزنجو قاف لیگ میں تھے ، نواب زہری کے خلاف کھیل میں آگے آگے تھے۔تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ تیار کرلیا ۔ نواب زہری نے دبائو کے تحت نو جنوری 2018 ء میں منصب چھوڑ دیا ۔ جس کے بعدیہ شخص چھ ماہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ جام کمال خان اور بھوتانی خاندان یہ خاندان ضلع لسبیلہ میں سیاسی حریف ہیں۔ ’’باپ ‘‘بنانے والے طاقتور ہیں کہ جنہوں ا ن حریفوں کو ایک چھتری کے نیچے اکٹھا کر رکھا ہے۔ چناں چہ وقتاً فوقتاً ذرائع ابلاغ پر حکومتی جماعت میں اختلاف کا شور ُاٹھا یا جاتا ہے۔ اخبارات میں مختلف ملاقاتوں و دعو توں کی تصاویر چھپوائی جاتی ہیں ۔ دانستہ صوبے کا سیاسی ماحول ابتر پیش کرنے کوششیں کی جاتی ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو علیل ہوئے، 22دسمبر کو کو ئٹہ سول ہسپتال کے وی آئی پی روم میں داخل ہوئے۔ یعنی یہ لمحہ کو بھی جام کے خلاف استعمال کیا ۔کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہت بری ہے۔ حا لاں کہ سرکاری ہسپتالوں یہ درگت آج سے نہیں ہے۔ اور نہ ایسا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اس کی خبر نہ تھی۔ کہا کہ وہ کراچی یا کسی دوسرے بڑے شہر میں بھی علاج کراسکتے تھے ۔یہاں داخل ہونے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسپتال کے مسائل اُجاگر ہوں ۔ بہتر ہوتا کہ عبدالقدوس بزنجو اپنے آبائی ضلع آواران جو کہ ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے کے ضلعی سرکاری اسپتال سے علاج کراتے۔ اور وہاں کی حالت، ضروریات و مسائل طشت ازبام کرتے ۔

عبدالقدوس بزنجوکے والد عبدالمجید بزنجو بھی یہیں سے منتخب و اہم حکومتی عہدوں پر ر ہے ہیں ۔اور 2002ء سے (ماسوائے 2008ء کے ) عبدالقدوس بزنجوکامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ر ہے ،صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ر ہے ۔اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ پیش ازیں بھی اہم عہدوں پر رہے ہیں ۔ اس لحاظ سے ان کا ضلع مثا لی ہو نا چاہیے۔یوں کسی پرتنقید و گرفت بھی جائز سمجھا جائے گی۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی جیسے آفت آگئی ہو ۔ سرکاری ہسپتالوں کی مشینری ، آلات اور عمارتوں کی مرمت کی مد میں 2کروڑ8لاکھ کے اضافی فنڈز کا اجراء اور ساتھ ایم ایس ، سیکریٹری صحت کو تادیب جیسے نمائشی اقدامات کی ٹھان لی۔ حالاں کہ سرکاری مشینری مستقیم و پہم چلتی ہے۔ چناں چہ 26دسمبر کو عبدالقدوس نے ویڈیو بیان جاری کیا۔ جس میں جھول کھاتے ہوئے جام کمال کی تعریف کے ساتھ ان پر وار کی کوشش بھی کی۔ کہتے ہیں کہ جام کمال برے شخص نہیں لیکن وہ اچھے وزیراعلیٰ ثابت نہ ہوسکے۔ لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کو عوام کی نمائندہ جماعت نہیں سمجھ رہے ہیں ، پارٹی کو صرف ایک شخص کی وجہ سے خراب ہونے نہیں د یں گے ۔ پھر کہتے ہیں کہ جام کمال کے پاس وژن ہے لیکن وہ کاموں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہے، نہ چیزوں کو بہتر کرسکے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے!! ۔ اگلے روز’’ باپ ‘‘کے صوبائی وزراء ظہور بلیدی(وزیر خزانہ )، سردار عبدالرحمان کھیتران ( وزیر خوراک ) ، سلیم کھوسہ ( وزیر ریونیو)اور ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے نیوز کانفرنس میں اس کا ایک پھسپھسا ساجواب دیا۔البتہ ان ورزاء نے اتنا ضرور کہا کہ اسپیکر خو د اسمبلی کے 147 سیشنز میں سے محض 17 میں ہی شریک ہوئے۔ ۔اصل میں ان افراد نے بلوچستان کو تماشا بنا رکھا ہے۔ صوبے اور اس کی ایک کروڑ بائیس لاکھ کی آبادی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ صوبے کے عوام حرص ،مفادات اور کھینچا تا نی کی سیاست کو انتہائی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ عوام چاہتے ہیں کہ صوبے کے معزز ایوان کی توہین و تضحیک اور یہاں کی روایات و اقدار کا تماشا مزید نہ بنایا جائے۔یقینااس تخریبی و گندی سیاست کو رو کنے کی ذمے داری حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلا ف پر بھی عائد ہوتی ہے ۔اور سچ یہ بھی ہے کہ جام کمال، کردار، صلاحیتوں، انتظامی،علمی بلکہ ہر لحاظ سے ان خلل ڈالنے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر