وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیل کا ہر ماہ جان لیوابم د ھماکا

جمعه 02 مارچ 2018 تیل کا ہر ماہ جان لیوابم د ھماکا

ہر ماہ تیل کی قیمتوں میں کئی روپوں کا اضافہ کرڈالا جاتا ہے اب تو 12گھنٹے قبل ہی پٹرول کی قیمت میں 3.56روپے ڈیزل6.94 روپے مٹی کا تیل 6.28روپے اور لائٹ ڈیزل میں 1روپیہ اضافے کا اعلان کرکے کمپنیوں کو مزید آدھا دن عوام کی مزید جیب تراشی کا موقع فراہم کیا گیا اس نئے دھاندلی عمل کے لیے کروڑوں ڈالر مزید رشوت لازماً لی گئی ہو گی۔ چالیس روپے تو اس میں ہر لیٹر پر ٹیکس شامل ہے اوگرائی بیورو کریسی وزارت پٹرولیم اور خزانہ اور اس کے افسران ماہانہ کھربوں روپیہ عوام کی جیب سے فالتو نکلوا رہے ہیں بین الاقوامی قیمتیں کم مگر ادھر مہنگائی کے ذریعے عوام کا آخری قطرہ خون نچوڑ ڈالنے کی ہر ماہ کی آخری تاریخ کو تیاری کی جاتی ہے ۔

چونکہ موجودہ حکمرانوں کا تین ماہ بعد چل چلائو کا وقت آن پہنچااس لیے وہ دونوں ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ پیروں سے بھی زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے مشن پر رواں دواں ہیں کہ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “کا خوفناک اژدھاسامنے پھن پھیلائے کھڑا نظر آرہا ہے کہ اگر ایک بھی سیٹ حکمران کم جیت سکے تو آئندہ حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے جو کہ” شریفوں” کو تو کسی صورت بھی وارا نہیں کھاتا کہ مخالفین جو کہ دشمنوں جیسا روپ دھارے ہوئے ہیں وہ گن گن کر بدلے چکائیں گے اور جینا تک دوبھر ہوجائے گااس لیے حکمرانی بنچوں میں افرا تفری کا مچ جاناقدرتی امر ہے تبھی ڈھیروں رقوم جمع کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہیں تو پی آئی اے کی فروختگی کے پلان ترتیب دیے جارہے ہیں اور کہیں خونخوار زہریلی سپنی بنی “اوگرا” نامی بغل بچہ تنظیم کے ذریعے تیل کی قیمتیں مسلسل نویں بار بڑھا کر بیرونی ممالک کے بنکوں اور مختلف ناموں کی لیکس میں سرمایوںکے انبار جمع ہورہے ہیں۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تو تیل کی قیمتیں 57سینٹ کم ہوئی ہیں اور کئی ماہ سے قیمتیں قطعاً نہیں بڑھیں تو پھر پٹرول ،ڈیزل اور مٹی کا تیل ہر ماہ چھ روپے سے کم وبیش قیمتوں کی بڑھوتری کا خوامخواہ کا عذاب پاکستانی حکمران کیوں عوام پر نازل کر رہے ہیں؟اس سے ہر ماہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں و دیگر سبھی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اس میں کیا حکومتی حکمت عملی نظر آتی ہے ؟ واضح ہے کہ 2018کے آمدہ انتخابات انہیں خوابوں میں جن کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں دھڑن تختہ ہوگیا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتی “سیاہ بھیانک راتیں “منتظر ہیں کہ اس دفعہ تو سعودیہ سمیت کسی نے سفارش تو کرنی ہی نہ ہے اور کسی قسم کے این آر او کا امکان نظر نہیں آتا ۔ نا کردہ گناہوں کی بھی سزا بھگتنے کے لیے حکمرانوں کوتیار رہناچاہیے۔

چور چوراں دے یار “(زرداری)والامقولہ بھی اب کی بار امداد کرتا نظر نہیں آتا حالانکہ زرداری اور شریفوں میں حرام مال کے انبار اکٹھے کرنے میں گنتیوں کی غلطیوں کے علاوہ انھیں سمیٹنے میں کوئی ذرا برابر بھی سُستی کوتاہی نظر نہیں آتی زرداری صاحب تو کروڑوں ڈالرز سمیٹ کر پاکستان کا دوسرا بڑا سرمایہ دار بن چکے اور اس کی جائدادوں /سرمایوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر نواز شریف ابھی دو نمبر پیچھے ہیں یعنی ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں چوتھے نمبر پر ہیں موجودہ حکمرانی کے ناطے شریفوں کو یہ چھوٹ موجود ہے کہ سرکاری خزانہ ساراآج تک ان کے مکمل رحم و کرم پر ہے اور جتنا چاہیں سودی قرضہ بھی بیرونی گماشتہ تنظیموں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف وغیرہ اوریہودیوں کے پروردہ بڑے سامراجی ممالک سے لے سکتے ہیں۔قرضے تو آئندہ حکمران اورنوجوان نسل کو اتارنا ہیں۔

2018کے انتخابات خون ریز ہونے کے علاوہ روپے پیسے کا گھنائونا کھیل بھی ہونگے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ہر کسی نے انتخابات ہر صورت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگانا ہے کہ کسی کی بھی شکست اسے اپنی سیاسی ساکھ کے خاتمے اور اپنی “موت کا سامان ” نظر آرہی ہے ن لیگیئے ہار گئے تو آئندہ پارٹی بکھر کر تتر بتر ہوجائے گی ۔پی پی پی تو ویسے ہی زرداری صاحب کی “خصوصی مہربانیوں “سے دم توڑتی بے جان لاشا بنی ہوئی ہے۔ رہے عمران خان تو اس کی بڑھکیں،ہر کس و ناکس کے خلاف “گالی گلوچ “نما گفتگو اگر اسے لے ڈوبی تو یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہوگا کہ ان سبھی سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں ظالم و ڈیرے و جاگیرداروں اور ڈھیروں ناجائز منافع خور صنعتکاروں نے پی پی پی سے نکل کر پی ٹی آئی میں شمولیت کا ایک بڑا ہی “خوفناک جوأ “کھیلا ہے کہ یا تو “پوں بارہ نہیں تو پھر تین کانے”کے مصداق انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری ترپ چال چلی ہے کہ جیت گئے تو خوب بھلی اور اگر ہارگئے تو مات نہیں کہ پی پی پی میں تو ان کی سیاست ویسے ہی غرقاب ہورہی تھی اور وہاں سراسر ہار ہی ان کا لازم مقدر ٹھہری ہوئی تھی۔

زرداری صاحب نے اگر دلیری کر ڈالی اور ساری جمع پونجی آمدہ بڑے انتخابات کے معرکے میں جھونک ڈالی تو کچھ آٹا دلیا پی پی پی کا بن سکتا ہے اور سندھ کے علاوہ بھی چند سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں مگر ایسا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بھی اپنی ایسی “نیک کمائیوں “کواُجاڑ ڈالے؟ پھر نتیجہ دن کی روشنی میں صاف نظر آرہا ہے کہ پی پی پی کی تاریخی شکست کا عفریت منہ کھولے اسے ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیوں اور محیر العقول لن ترانیوں نے سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی گندے تالاب میں ڈبکیاں لگوادی ہیں عام ووٹر سخت پریشان ہوکر یہ سارا ڈرامہ اور غلیظ ترین کھیل دیکھ رہا ہے انتخابات کے آخری دنوں میں وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے نظر آتاہے ۔

خصوصاً مہنگائی ،غربت و بیروزگاری جیسے زہریلے بچھوئوں کے ڈنگے ہوئے خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اگر اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبیﷺ یانبیﷺ کا ورد کرتے ہوئے بدبو دار محلوں گلیوں کوچوں سے نکل پڑے تو چونکہ تمام مسالک ،فرقوں برادریوں کے مشترکہ”اکٹھ”جس کا نام اللہ اکبر تحریک ہونا ممکن قرار پایا ہے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر پوری موجودہ انتخابی بساط لپیٹ کر باکردار باصلاحیت امیدواروں کی جیت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں عوام میں اب مزید قربانیاں دینے کی ہمت نہیںکہ تیل دھماکے ہی ان کی جان نکالنے کے لیے کافی ہیں پہلے بھی رجسٹرڈ ادویات کی مہنگائی کا ڈرون حملہ حکمران کرچکے ظلم پر ظلم یہ کہ جان بچانے والی خصوصی ادویات کی قیمتیں بھی بڑھا دیںسپریم کورٹ نے نوٹس تو لے لیا ہے خداکرے ادویات کی مہنگائی سے بھی جا ن چھوٹ جائے اور صاف پینے کا پانی بھی نصیب ہوجائے ایل پی جی مہنگی ہونے سے گھریلو اخراجات میں کمر توڑ اضافہ ہونے پر خواتین ہمہ وقت ذمہ داروں پر تبرے بھیجتی رہتی ہیں شدید مہنگائی کر ڈالنے جیسے شیطانی کریہہ عمل سے کتنا حرام مال کہاں کہاںبیرونی ملکوںمیں دفن ہواوہ راز وقت پر ضرور کھل کر رہے گا کہ خدا کی لاٹھی بے آوازہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر