وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسلامیات کا نصاب اوراربابِ اختیار کی چشم پوشی

اتوار 24 دسمبر 2017 اسلامیات کا نصاب اوراربابِ اختیار کی چشم پوشی

راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک مقامی کے 19دسمبر 2017کے اخبار کے صفحہ 8 پر یہ خبر شائع ہوئی کہ ایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائی جارہی ہے اور اسلامیات کے شعبہ کے چیئرمین کے علم میں یہ بات لائی بھی جا چکی ہے لیکن پچھلے گیارہ سال سے ایسا ہورہا ہے۔ راقم نے یم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ راقم نے نوٹس میں اخبارمیں شائع ہونے والی رپورٹ پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے چانسلر کو کہا گیا ہے کہ سات یوم کے اندر اندرایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے کے معاملے کی وضاحت کریں اور فوری طور پر اِس کو نصاب سے نکالا جائے۔قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مورخہ19-12-2017 کو راولپنڈی کے کے ایک قومی اخبار کے صفحہ نمبر 8 پر انتہائی افسوس ناک خبر شائع ہوئی ہے۔ اُس خبر کا تراشا آپ کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ یہ کہ ایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائی جارہی ہے اور اسلامیات کے شعبہ کے چیئرمین کے علم میں یہ بات لائی بھی جا چکی ہے لیکن پچھلے گیارہ سال سے ایسا ہورہا ہے۔آپ کو یہ قانونی نوٹس دیا جارہا ہے کہ سات یوم کے اندر اندرایم اے اسلامیات تخصیص فی الاقران والتفسیر میں قادیانیوں کی تفیسر پڑھائے جانے کے معاملے کی وضاحت کریں اور فوری طور پر اِس کو نصاب سے نکالا جائے۔
حضرت اقبالؒ جیسے عظیم عاشقِ رسول کے نام سے منسوب یونیورسٹی میں نبی پاک ﷺ کی ختم نبوت کے انکاری مرزائیوں کی تفسیر قران پڑھائی جانا اسلامیان پاکستان کے ساتھ ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔22دسمبر میں اوپن یونیورسٹی کی جانب سے یہ خبر شائع ہوئی کہ خزاں 2017 میں وہ کتاب نصاب سے نکال دی گئی ہے۔ اور جس شخص کی بابت کہا گیا ہے اُس کے نام کے ساتھ غیر مسلم نہیں لکھا تھا اِس لیے پتہ نہیں چلا کہ ایسا کیسے ہو گیا۔ خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِس معاملے کے حوالے سے ایکشن لے لیا تھا اور کمیٹی بنادی گئی تھی کہ وہ اِس حوالے سے رپورٹ پیش کرئے۔ جب فیس بک پر ٹائم لائن پر لیگل نوٹس کی خبر لگی تو بہت سے دوستوں نے اِسے شیئر کیا ایک مولانا صاحب جن کا نام ضیاء الحسن ہے جو کہ بھلوال سے تعلق رکھتے ہیں اُنھوں نے فیس بک پر لکھا کہ یہ معاملہ ختم ہوچکا ہے آپ دو ٹکے کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں۔ میںنے اُن سے استفسا رکیا کہ اگر یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے تو اچھی بات ہے لیکن کیونکہ میں نے ابھی اُنیس دسمبر کو ہی اُمت اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے اور پھر لاہور میں اُمت اخبار کے ایڈیٹر جناب نجم عطاء سے بات بھی ہوئی ہے۔ میں نے فیس بُک سے ہی مولانا صاحب کو کال کی تو مولانا صاحب نے مجھے کہا کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے آپ لوگوں کے کیس لڑیں۔ اِس کے علاوہ بھی مولانا صاحب نے کافی کچھ کہا۔ جو کہ میں نے آقا کریم ﷺ کی ناموس کی خاطر برداشت کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ بائیس دسمبر کے اخبارات میں اوپن یونیورسٹی نے وضاحتی بیان دیا ہے کہ خزاں 2017 میں یہ کتاب نصاب میں سے نکال دی گئی تھی۔ اور یونیورسٹی انتظامیہ نے کمیٹی قائم کردی ہے کہ وہ اِس کا نوٹس لے اور کاروائی کرئے۔ اگر یہ معاملہ نہ اُٹھایا جاتا تو کیا یونیورسٹی اِس حوالے سے کوئی قدم اُٹھا پاتی۔گویا ختم نبوت کے حوالے سے یونیورسٹی نے بدترین نا اہلی کا ثبوت دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی اور بعد میں معاملہ درست ہوا۔ نواز شریف نے کہا کہ چوبیس گھنٹے میں راجہ ظفر الحق ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف رپورٹ دیں گے لیکن کئی مہینے گزر گئے ہیں ابھی تک کچھ نہیں۔ قادیانی اگر خود کو اقلیت تسلم کر لیں تو معاملہ ہی حل ہوجائے۔لیکن وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کا ٹریڈ مارک استعمال کرکے دھوکہ دے رہے ہیں۔ اِس لیے تعلیمی اداروں خاص طور پر اسلامیات جیسے مضامین میں مرزائیوں کی کتابوں کو نصاب میں شامل ہونا بہت افسوس ناک خبر ہے ۔ اور اِس حوالے سے اربا ب اختیار تو خود ملوث ہیں اُنھوں نے کیا کرنا ہے۔ حالیہ ن لیگ کی حکومت میں ختم نبوت کے قانون کے ساتھ کسی حد تک ڈاکہ زنی کی گئی یہ بات اظہر من الشمس ہے۔
اِن حالات میں بطور مسلمان ہمار اکردار کیا ہونا چاہیے کہ ختم نبوت کے قانون پر پہرہ دیا جا سکے۔ یہ بات درست کہ ختم نبوت کے حلف کی آئینی شقوں 7بی 7سی کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا ہے۔ ختم نبوت کا قانون پہلے کی طر ح بحال کر دیا گیا۔ چونکہ نواز حکومت اِس وقت بُری طرح دبائو میں ہے اور اُس نے نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ اور ختم نبوت ﷺکے قانون پر ڈاکہ ڈالنے والے وزراء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ شاید نواز شریف فیملی کو نبی پاکﷺ کی شفاعت کی طلب ہی نہیں رہی۔ اُسے تو بس ایک ہی فکر ہے کہ اُسے کیوں نکالا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے تفصیلی جاری کردیا ہے اور اُن محرکات کا ذکر کیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا سبب کیا ہے۔اُدھر سے ڈار جو کہ ملک کے خزانے کے وارث تھے اُنھوں نے خزانے کو خوب زک پہنچائی ہے ۔ اور بیمار حالت میں ملک سے باہر ہیں۔ اُن کی تصاویر اور وڈیو سے نظر آرہا ہے کہ وہ شدید دبائو میں ہیں شاید اُنھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ اُن کا وزن بیس کلو سے بھی زیادہ کم ہوگیا ہے۔ چونکہ اُن کی جناب نواز شریف سے رشتہ داری ہے اِس لیے وہ بھی مقرب ٹھرے۔ اِس سارے کھیل کے دوان جب ہر طرف پانامہ اور اقامہ کا شور تھا۔ ایک گھمبیر صورتحال سامنے آگئی۔ وہ یہ کہ ختم نبوتﷺ کے حلف نامے کو تبدیل کردیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کے احساس معاملے میں بھی نواز لیگ کے حامیوں کو سب اچھا نظر آتا رہا ہے۔ اور تو اور جن لوگوں نے ساری زندگی نبی پاک ﷺ کی محبت کے ترانے پڑھے اور اِسی بناء پر سیاست میں کامیابیاں حاصل کیں میری مراد اُن پیر صاحبان سے ہے جو نواز حکومت میں ہیں۔ اُن کے مریدین نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے قانون کے تحفظ کی بجائے اپنے پیر صاحبان کی کرسی کی مضبوطی کے لیے نواز لیگ کے اِس افسوس ناک اقدام کی مذمت نہیں کر پائے شاید اُن کے نصیب میں اب نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی بجائے سیاسی آقائوں کی حاشیہ برداری لکھ دی گئی ہے۔
راقم پچاس سال کی عمر کو پہنچ گیا ہے اور راقم کا تعلق عشق رسولﷺ کی سُرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ رہا ہے۔ راقم نے ابھی تک جتنی مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا ہے وہ نواز شریف کو ہی دیا تھا۔ لیکن اب جب کرپشن کی کہانیاں نواز شریف کی اپنی حکومت کے دور میں ہی آشکار ہوئی ہیں وہ تو عدالتوں کا کام ہی وہی جانیں۔ لیکن ممتاز قادریؒ کی شہادت اور ختم نبوت کے قانون پر ڈاکہ زنی نواز حکومت کے وہ سیاہ کام ہیں جس سے دیندار طبقے کو بہت تکلیف ہوئی ہے۔ایک بات درست ہے کہ پیر صاحبان جو حکومت کے ساتھ ہیں اُن کی مرضی وہ جس مرضی پارٹی کا ساتھ دیں۔خواہ نواز شریف کے ساتھ ہوں یا کسی اور کے ساتھ۔ لیکن دُکھ اِس بات کا ہے اُنھوں نے ہمیشہ اہلسنت کا پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنا سیاسی قد بنایا اور اب وہ ایک ایسے حکمران کی کاسہ لیسی کر رہے ہیںجس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نااہل اور جھوٹا قرار دے چکی ہے۔ راقم کو اِس سے بھی غرض نہیں کہ نواز شریف جو دائیں بازو کی سیاست کرتے رہے اب کسی اور طرف نکل گئے۔ لیکن بات تو نبی پاکﷺ کی ناموس کی ہے۔ بے چارے مریدین اللہ پاک کو اور نبی پاکﷺ کو ناراض کرکے اپنے اپنے پیروں کی خوشامد میں طوطوں کی طرح بول رہے ہیں ۔ اِس طرح کے حالات میں حکومتی اداروں میں ختم نبوت کے دُشمنوں کا کردار مملکت خداد پاکستان کے آئین و قانون کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو ختم نبوت کے حوالے سے بہت زیادہ کڑا پہرہ دینا ہوگا۔ اور وہ کالی بھیڑیں جو قادیانیوں کے لیے نرم گو شہ رکھتی ہیں اُن کو بے نقاب کرنا ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر