وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکی اقدام ’’بڑی جنگ‘‘ کی جانب پہلا قدم!

اتوار 24 دسمبر 2017 امریکی اقدام ’’بڑی جنگ‘‘ کی جانب پہلا قدم!

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا تو تمام دنیا میں نہ صرف اس کی شدید مذمت کی گئی بلکہ مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے 1995ء میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی قرارداد منظور کی تھی لیکن اس وقت مسلم دنیا کی جانب سے سوائے بیان بازی کی حد تک شدید ردعمل سامنے نہیں آیا تھا اس کے بعد سے لے کر آج تک ہر امریکی صدارتی امیدوار کے سیاسی منشور میں یہ شق بھی لازمی شامل ہوتی تھی کہ وہ حتی الوسع کوشش کرے گا کہ امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کیا جائے۔یہ باتیں مسلمہ امہ کے سامنے ہورہی تھیں مگر کسی نے بھی اس معاملے کی جانب دست احتجاج دراز نہ کیا ۔اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ اقدام نہ تو اچانک ہے اور نہ ہی ٹرمپ جیسے متلون مزاج شخص کی مہم جوئی بلکہ یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتدا ایک صدی قبل کردی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کے اعلان کی ٹائمنگ بھی خاصی دلچسپ ہے یعنی ٹھیک سو برس قبل یعنی 1917میں نیویارک میں بالفور ڈیکلریشن کے نام سے اسرائیل کے قیام کی قراداد منظور کی گئی تھی اس کے ٹھیک سو برس بعد یعنی 2017ء میںامریکی صدرمقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اتفاق تھا؟

1917ء میں بالفور ڈیکلریشن کے نام سے برطانوی وزیر اعظم آرتھر جیمس بالفور کی جانب سے اسرائیلی قیام کی قرارداد منظور کرنے کے بعد پچاس برس تک یورپ سے امریکا کی جانب یہودیوں کی بڑی ہجرت عمل میں آتی ہے۔ یہی وہ پچاس برس ہیں جب برطانیا سے عالمی حکمران ریاست کا منصب یا اسٹیٹس لندن سے واشنگٹن منتقل ہوتا ہے ۔ اسی طرح برطانوی کرنسی یا سکہ پونڈ کی عالمی حیثیت سکڑ کر برطانیا تک محدود ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ ڈالر عالمی حکمران کرنسی کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عالمی سیادت کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی کرنسی دنیا میں دیگر کرنسیوں کے مقابل سب سے طاقتور ہو۔ اتنی بڑی تبدیلی کے ضروری ہے کہ عالمی سطح کی جنگ بھی کروائی جائے جو دنیا کے رائج الوقت نظام کو ہلا کر رکھ دے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ بھی 1914ء سے لے کر 1918ء تک کا ہے جس کے دوران اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو نیویارک میں منظور کیا گیا۔ اس کے بعد ہی امریکا نے یورپی یہودیوں کے لیے امریکا کے دروازے کھول دیئے اسی وجہ سے یورپ کے معاشی حکمران صہیونی خاندان روتھ شائلڈ کے امریکا میں فرنٹ مین جے پی مورگن نے امریکا کو اقتصادی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بیل آئوٹ پیکج دیاتھا۔

اس کے بعد یورپی معاملات تک محدود لیگ آف نیشنز کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت تھی اس کے علاوہ اس کا ہیڈکوارٹر یورپ سے نئی عالمی حکمران ریاست امریکا منتقل کیا جانا تھااسرائیل کے جغرافیائی قیام سے پہلے ایک اور بڑی جنگ کروانا مقصود تھا اس لیے دنیا نے دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیاں دیکھیںاس ہولناک جنگ کے اختتام کے بعد ہی اسرائیل کا قیام ممکن ہوسکاتھااس سے پہلے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کو جائز قرار دلوانے کے لیے دنیا کو پہلے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جانا تھااس کے علاوہ اسی پلیٹ فارم سے مغربی نوآبادی نظام کے تحت آزاد ہونے والی دنیا کو کنٹرول کرنا بھی مقصود تھا اس میں سب سے زیادہ حصہ مسلم ممالک کا تھا اس لیے اسرائیل کے جغرافیائی قیام سے محض تین برس قبل 1945ء میں لیگ آف نیشنز کو اقوام متحدہ کا لبادہ اڑا کر اسی نیویارک میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا جہاں کبھی بالفور ڈیکلریشن منظور ہوا تھا۔۔۔کیا ہم اسے محض اتفاقی معاملہ قرار دے سکتے ہیں؟

یہ تمام کاوشیں محض اس ایک صہیونی نظریے کی بنیاد پر ہورہی تھیں کہ یہودیوں کا ’’مسیحا‘‘ یروشلم یعنی مقبوضہ بیت المقدس سے دنیا پر حکمرانی کرے گایہودیوں کا مسیحا ہی درحقیقت سچے مسیحوں کا ’’اینٹی کرائس‘‘ اور مسلمانوں کے نزدیک ’’دجال‘‘ ہے یہودی جس مسیحا کا انتظار کررہے ہیں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت میں دو ہزار برس قبل آچکے تھے لیکن مسیحی کاہنوں نے رومن حکمرانوں کے ساتھ مل کر انہیں مصلوب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اللہ رب العزت کی منشا کے مطابق آسمان پر اٹھا لیے گئے اور یہودی اور ان کے رومن حکمرانوں کو شک میں ڈال دیا گیابرناباس کی انجیل کے مطابق بارہ حواریوں میں سے ایک غدار حواری جس نے گرفتاری کے وقت رومن فوجیوں کے لیے مسیح علیہ السلام کی شناخت کرنا تھی بالکل مسیح جیسا ہوگیا اور رومیوں نے اسے ہی گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیا جبکہ اللہ کے نبی ؑکو اللہ کی مرضی سے آسمان کی جانب اٹھا لیا گیا۔مسیح علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے ستر برس بعد یہودیوں کی عقل ماری گئی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی جس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ ہیکل سلمانی کو بنیادوں سے ہی تباہ کردیا گیا لاکھوں یہودی قتل کردیئے گئے جو باقی بچے انہیں رومن تھیڑروں میں درندوں کے سامنے ڈال دیا گیا جو باقی بچ گئے انہیں دنیا کی مختلف قوموں میں منتشر کردیا، رومیوں نے پابندی لگائی کہ یہودی کبھی یروشلم واپس نہیں آسکیں گے یہاں تک کہ رومیوں نے یروشلم کا نام بدل کر ایلیا رکھ دیا۔اس کی تاریخی تفصیلات طویل اور عبرت آموز ہیں۔

اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک عالمی دجالی صہیونیت کی جانب سے جو بڑا قدم اٹھایا گیا ہے وہ سوویت یونین کی تحلیل اور اس کے بعد مسلمانوں کو آپس میں دست گریباں کرنا ہے تاکہ اسرائیل کی عالمی سیادت کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کیجاسکیں ۔ نوے کی دہائی میں سوویت یونین کو کس انداز میں بکھیرا گیا وہ تاریخ ہے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مشرقی یورپ اور روس میں مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا غلبہ ہے جو کسی طور بھی مغربی یورپ اور امریکا کی لادینی یا برائے نام کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عیسائیت سے میل نہیں کھاتی۔ اسی لیے مشرقی آرتھوڈکس عیسائیت کی کمر توڑنے کے لیے روس میں کمیونزم کی تحریک چلا کر یہاں سے مذہب کی بیخ کینی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اور کمیونزم کا مرکز ماسکوایک مرتبہ پھر مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا گہوارہ بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کی توسیع کے لیے مشرق وسطی کو جنگوں کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے عرب حکومتوں کے ذریعے انہی کی پراکسی تنظیموں کو دہشت گردی اور اور انتہا پسندی کے نام پر منتشر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن تو دشمن ہی تھے اپنے بھی دشمن بن گئے اس کے ساتھ ساتھ ایران کو ہوا بھر کر پورے خطے میں مسلکی جنگ کا محاذ بھی کھول دیا گیا عراق، شام ، لبنان اور یمن اس کی واضح مثال ہیں۔ اس کے بعد دجالی صہیونی قوتوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں اس سلسلے میں پاکستان میں گڑبڑ کرانے کی پوری کوشش کی گئی تاکہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جوہری ہتھیار لگ جانے کا بہانہ بناکر افغانستان میں بیٹھی خصوصی فورس کے ذریعے پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ٹھکانے لگایا جاسکے لیکن پاکستان کے دفاعی اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔  (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر