وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹرمپ کا پہلا دورۂ ایشیا ، مقاصد کیا ہیں؟

بدھ 08 نومبر 2017 ٹرمپ کا پہلا دورۂ ایشیا ، مقاصد کیا ہیں؟

(دوسری قسط)
چند برس قبل عالم عرب میں ایک انقلاب ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے نام سے دنیا نے دیکھا، کہنے کواسے ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسیــ’’ عرب خزاں‘‘ ثابت ہوا جس نے جہاں شمالی افریقا سے لیکن مشرق وسطی میں ایک آگ لگا دی تو دوسری جانب باقی رہ جانے والے عرب ملکوںکی بہت سی حکومتوں کے منہ سے نقاب الٹ دیا ۔ کیا اسے بھی ’’حادثاتی واقعے کا نام دیا جائے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران ظاہر ہونے والے ان پراسرار واقعات کی کیسے تشریح کی جائے۔آج کی دنیا کی کیسے وضاحت کی جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سوالات کے جوابات قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں موجود ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے لیے ہم علمی بنیاد پر کوئی طریقہ کار وضع کرنے میں ناکام رہے۔ قرآن کریم کی اصل روح سے دوری نے اس امت کے علماء کوجاگنے نہ دیا۔بدلتے زمانے کے ساتھ جو ماڈرن ریفرنسز دنیا کے سامنے کھل چکے تھے قرآن فہمی کے لیے انہیں نصاب نہیں بنایا گیا، اللہ رب العزت سورۃ النحل میں فرماتا ہے کہ :
ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئی وہدی ورحمۃ وبشری للمسلمین۔ سورۃ النحل 89۔
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
جب سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اسے جاننے کے لیے باقاعدہ طریقہ کار methodology کیوں نہ وضع کیا گیا۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے، دین اسلام انسانیت کے لیے آخری دین ہے تو پھر علم الآخر الزمان Eschatology کیوں نہ مسلمانوں کو پڑھایا گیا۔ غالبا اس علم کا سوائے چند ایک کے شاہد ہی کوئی ماہر مسلمان عالم ہو۔ان حقائق تک پہنچنے کے لیے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم الآخر الزماں،فلسفہ تاریخ، بین الالقوامی تعلقات عامہ، قرآن کریم کا نظام المعنی اور عرب لغت وادب پر مکمل دسترک ضروری ہے لیکن کتنے علما ہیں جو ان علوم سے بہرہ مند ہیں؟
اب جبکہ سو برس کے بعد دنیا ایک مرتبہ پھر بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے، برطانیا رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک تھا لیکن نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، اس کے بعد امریکا عالمی حکمران ریاست بنتا ہے وہ بڑا رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک تو ہے لیکن اس کے باوجود عالمی دجالی صہیونیت مالیاتی اداروں اور عسکری اڈوں کی بنیاد پر باقی دنیا کو تابع فرمان بنائے رکھتی ہے۔ اب تیسرا اور آخری مرحلہ اسرائیل کی بین الالقوامی سیادت کا ہے لیکن وہ رقبے کے لحاظ سے انتہائی چھوٹا ملک ہے اور چاروں طرف سے عرب ملکوں میں گھیرا ہوا ہے اس لیے مہلک ہتھیاروں کے ذریعے اس کی حدود کو دریائے نیل کے مشرقی کنارے سے لے کر عراق میں دریائے فرات تک وسعت دینے کا منصوبہ ہے جیسا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں آویزاں نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی آبادی کو بھی نصف سے بھی زیادہ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب دنیا میں جوہری قوتیں آپس میں ٹکرا جائیں جیسا کہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا جواز چونکہ مذہبی یہودی ریاست پر ہے اس لیے باقی دنیا سے بھی اب سیکولرازم اور لبرل ازم کا خاتمہ ہونا شروع ہوجائے گا۔بھارت کی ہندو مذہبی جنونیت کے باوجود اسے عالمی قوتوں کی جو حمایت حاصل ہے ہمیں اس کا مطلب سمجھ آجانا چاہئے جبکہ پاکستان میںمذہبی تنظیموں کے نام سے ہی تمام دنیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ جاتے ہیں۔ جوں جوں اسرائیل کے لیے عالمی سیادت کے حوالے سے جگہ بنانے کا وقت قریب آرہا ہے دنیا پر سے امریکا کی دھاک ختم ہوتی جارہی ہے۔ ڈالر عنقریب زوال پذیر ہوجائے گا، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے چین اور روس نے سونے میں تجارتی لین دین کو فروغ دینا شروع کردیا ہے۔ یعنی دینار(سونا) اور درھم(چاندی)۔ باقی وہ عرب ملک جنہوں نے ستر کی دہائی میں تیل کی قیمت کو سونے سے ہٹا کر ڈالر سے منسلک کرکے ’’پیٹرو ڈالر‘‘ کا نام دیا تھا یکدم دیوالیہ ہوجائیں گے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری دور میں سونے اور چاندی کے سوا تمام چیزیں اپنی وقعت کھو دیں گی۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ برطانیا اور امریکا جب عالمی حکمران ریاست بنے تو اپنے وقت پر انہوں نے اپنی کرنسی رائج کی تھی۔ اسرائیل کی عالمی سیادت کے قیام کے ساتھ ہی کاغذ کی کرنسی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دنیا کو الیکٹرانک کرنسی متعارف کرائے گی جس کا مرکزی بینک یروشلم میں ہوگا یہ ایک بہت خطرناک سسٹم ہے جس کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی رہنے والے انسان کے اخراجات اور اصرافات کی تفاصیل دجالی بینک سسٹم کو ہوگی یہاں تک کہ کس گھر میں کھانے کا کیا سامان گیا اس کی تفصیلات بھی مرکزی بینک میں محفوظ ہوجائیں گی۔
عالمی صہیونی منصوبے کے تحت امریکا کو افغانستان سے نہیں نکلنے دیا جائے گا، ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا عجیب وغریب شخص وائٹ ہائوس میں حادثاتی طور پر نہیں پہنچایا گیابلکہ اس کے پیچھے امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پوری منصوبہ بندی تھی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا جیسے ملک میں جمہوریت ہے اور وائٹ ہاوس فیصلے کرتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں امریکا پر امریکی جنرل اور بینک حکومت کرتے ہیں صدر ٹرمپ تو ایک ادنی سا مہرہ ہے۔ان تمام حالات میں اب صدر ٹرمپ اگلے ہفتے اپنے ایشیا کے پہلے دورے پر نکل رہے ہیں جہاں وہ جاپان اور جنوبی کوریا میں غالبا ایک ہفتے تک قیام کریں گے اس کے بعد ویت نام، فلپائن اور بعد میں چین کا دورہ ہے جہاں ان کی دنیا کے سب سے طاقتور چینی صدر سے ملاقات ہوگی۔ عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی کوریا کی آڑ میں جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کی لپیٹ میں لاکر درحقیقت چین کی مغرب کی جانب معاشی اور عسکری پیش قدمی میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ طویل المدتی دفاعی معاہدہ کرکے چین اور پاکستان کو جنوبی ایشیا تک محدود رکھنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا سب سے اہم منصوبہ مسلم ممالک کی ’’پراکسی تنظیموں‘‘ کو خود ان کے عسکری اداروں کے ہاتھوں انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر تباہ کروانا مقصود تھا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں عالم عرب کی یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ وہ اس ہتھیار سے بالکل خالی ہوچکا ہے۔ یعنی اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے پورا عالم عرب اب نہتا ہوچکا ہے یہی ’’عرب بہار‘‘ کا اصل مقصد تھا۔
پاکستان کے معاملے میں پلان تھا کہ جنرل مشرف اگر ’’لائن‘‘ کراس نہیں کرتے تو یہاں جمہوریت نافذ کرکے پاکستان کو معاشی طور کھوکھلا کرکے سوویت یونین کی طرح بکھیر دیا جائے اسی مقصد کے لیے این آر او ہو ا اسی کام کو انجام دینے کے لیے میثاق جمہوریت کرائی گئی اور پھر زرداری اور شریف خاندان کی شکل میں پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ کے قریب کردیا گیا۔ اس موقع پر ملکی ادارے اور عدلیہ حرکت میں نہ آتی تو تباہی پھیلنے میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔ اس لیے آنے والے وقت میں جس تیزی کے ساتھ دنیا کے حالات تبدیل ہورہے ہیں اس میں لیٹیروں اور ملک لوٹنے والوں کا احتساب جلد از جلد ہونا جانا چاہئے۔ وقت بہت ہی کم ہے۔
(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر