وجود

... loading ...

وجود
وجود

گھناؤنے کھیل کا نیا بندوبست

هفته 01 جولائی 2017 گھناؤنے کھیل کا نیا بندوبست

بلوچستان کے ساحلی علاقے جیوانی میں ایک حملے میں پاک بحریہ کے دو اہلکار خلیل اور حسن جاں بحق ہوگئے۔ یہ حملہ20جون کو اس وقت کیا گیا جب اہلکار افطاری لینے گئے تھے۔ اس سانحہ پر ملک کے سیکورٹی اداروں اور اہل دانش کے اندر بڑی تشویش پائی گئی۔ اگرچہ اس نوعیت کے بڑے سنگین واقعات نہ صرف اس ساحلی پٹی پر بلکہ صوبے کے طول و عرض میں پیش آچکے ہیں۔گوادر میں چینی ماہرین قتل ہوچکے ہیں۔ ترقیاتی عمل میں مصروف بڑی کمپنیوں سے وابستہ مزدور اور ماہرین نشانا بن چکے ہیں۔ چنانچہ یہ تازہ واقعہ بھی یقینا گہرے غور و فکر کا حامل ہے۔ ہم ان سطور میں کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں مسلح مزاحمت کی قائل بلوچ تنظیمیں اپنی سابقہ قوت اور اثرو نفوذ کی حامل نہیں رہیں،البتہ ان کا وجود برقرار ہے ۔ بالخصوص ایران سے متصل اضلاع اسی طرح ساحلی پٹی میں یہ تنظیمیں اپنی سرگرمیاں دکھاتی رہتی ہیں۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی ،ایران اور افغانستان سے منسلک طویل سرحدیں صوبے کی تزویراتی اہمیت و حساسیت کی مظہر ہیں۔ یقینا اس ضمن میں بلوچستان کے750کلو میٹر طویل ساحل کے علاقے گوادر، جیوانی، پشکان، پسنی ، اورماڑہ ، ڈامب اور گڈانی ماضی قریب میں بھی مسلمہ تزویراتی اہمیت کے حامل تھے اور آج بھی یہ اہمیت دو چند ہیں۔ جیوانی پر امریکی نظریں جمی رہی ہیں۔ وہ اسے اپنے دفاعی مقاصد کے استعمال میں لانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ چین کے آنے کے بعدامریکا کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ جیوانی کا حالیہ واقعہ نقصان کے لحاظ سے بڑا تو نہیں تاہم مستقبل قریب میں حالات کی سنگینی میں اضافے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان کے اندر حالات خراب ہیں، وہاں کی حکومت کابل تک محدود ہوچکی ہے۔امریکا مزید افواج بھیجنے کی سوچ بچار میں ہے۔ بھارت امریکا کی ناک کے نیچے گویا افغانستان پر متوازی طور پر حکمرانی کررہا ہے ۔ افغان آرمی اور افغان خفیہ ادارے بھارتی اثرو رسوخ کے تحت ہیں۔ داعش کی نفری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ تورا بورا کے پہاڑوں تک داعش پہنچ چکی ہے، ویسے بھی کئی علاقوں پر داعش کا سکہ چلتا ہے۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کے اندر اس نئی صورتحال پر تشویش کا اظہار ہورہا ہے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ کے تحفظات سے لگ رہا ہے کہ افغانستان میں باقاعدہ داعش کی پروورش ہورہی ہے۔ ان جنگجوئوں کو بڑے پیمانے پر وسائل کی ترسیل ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بڑے پیمانے پر اسلحہ کی تقسیم پاکستان اور ایران اسی طرح وسط ایشیائی ممالک کی سرحد وںسے نہیں ہورہی ہے ۔چنا نچہ نگاہ امریکا پر مرکوز ہوتی ہے کہ اس کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
افغانستان کے ایک رکن پارلیمنٹ برملا طو رپر کہہ رہے ہیں کہ مختلف علاقوں میں داعش کے ان جنگجوئوں کو کنٹینرز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلحہ اور استعمال کی دیگر چیزیں بھیجی گئی ہیں۔ ایسے ہی الزامات حامد کرزئی بارہا لگاچکے ہیں۔ اشرف غنی اپنی حکمرانی میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ان کے استعفیٰ کا مطالبہ افغان پارلیمنٹ کے ارکان اور دیگر حلقوں کی طرف سے ہورہا ہے۔ مگر ان سب نے بھارتی فتنہ بازی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے حتیٰ کہ اب تک حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھی اس ضمن میں کوئی واضح موقف نہیں دیا ہے ۔ بلاشبہ گلبدین حکمت یار افغان حکومت کو ناکام قرار دے چکے ہیں، وہ امریکی انخلاء اور اشرف غنی سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں ۔ ضروری ہے کہ گلبدین حکمت یار افغانستان میں بھارتی جاسوسی کے نیٹ ورک کے بارے اپنی جماعت کا موقف بیان کرے۔ افغانستان سے روسی افواج کی انخلاء کے بعد افغان مجاہد رہنماوں کو پرامن فضاء میں حکومت کرنے نہیں دی گئی۔ اس ذیل میں پاکستان کی حکومت اور جاسوسی کے ادارے بالخصوص امریکی مفادات کے آگے جھک گئے تھے ۔ یعنی اپنے ہاتھوں ملکی مفادات پر کاری ضرب لگائی ۔ پرویز مشرف نے تو حد ہی کردی۔ گویا آج جن مشکلات کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑرہا ہے یہ اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس وقت پاکستان ہی ہدف ہے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک مورچہ کے طور پر استعمال کرہا ہے۔ لہٰذا یہ پہلو جناب گلبدین حکمت یار کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ افغانستان کا امن غارت ہے ۔افغان فورسز مکمل طور پر دفاعی پوزیشن میں ہیں،بلکہ چھپ رہی ہیں ۔امریکی اور نیٹو افواج پر حملوں میں تیزی آئی ہے ان کے لیے پریشان کن اور اعصاب شکن پہلو ’’ان سائیڈ راٹیکس‘‘ ہیں ۔یہ حملے افغان فوجیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کیے جاتے ہیں۔جس میں اب تک کئی امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں خارجی افواج کی موجودگی کے خلاف نفرت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ امارت اسلامیہ قوم و وطن کی آزادی کی جنگ لڑرہی ہے۔ اگرچہ حزب اسلامی پٹھو افغان حکومت سے مصالحت کرچکی ہے مگر حزب اسلامی کی جدوجہد کا محور و مرکز امریکی و نیٹو افواج کا انخلاء اور افغانستان میں قومی و جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ سرا سیمہ ہوچکی ہے، وہ ا پنی شکست خوردگی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کی پالیسی پر غور کررہی ہے۔ ممکن ہے کہ امریکا کی جانب سے ڈرون حملوں میں تیزی آئے اور پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے پابندیوں کا ہتھیار بھی استعمال کرے۔ مگر اس سے پہلے امریکا کو پاکستانی مفادات اور سلامتی کو مد نظر رکھنا چاہیے۔اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھارت افغان سرزمین پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال کررہا ہے۔یہ حقائق امریکا کی نظروں سے پوشیدہ نہیںہیں۔ یقینا امریکا اس ساری صورتحال سے آگاہ ہے ۔ اب بلوچستان کی سرزمین پر امریکا اور بھارت اپنے گھنائونے کھیل کو مزیدبڑھاوا دینے کی ناپاک کوشش کرینگے ۔ لشکر جھنگوی العالمی اور داعش جیسے جتھوں کی تخم ریزی کی جائے گی۔آئی جی پولیس بلوچستان کے دفتر کے سامنے کار بم دھماکا اسی ارتباط کی کڑی ہے ۔ نہایت حساس مقام پر یہ دھماکا ہوا سترہ افراد جاں بحق ہوئے جن میں تیرہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس جگہ سے کوئٹہ چھائونی کی چائنا چیک پوسٹ چند قدم پر ہی واقع ہے۔ اسی روز پاراچنار کے ایک مصروف بازار میں دو دھماکے ہوئے اور کراچی میں چار پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔اس طرح ایک ہی دن میں تقریباً سو کے قریب افراد قتل ہوئے ۔جیوانی واقعہ کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے اورکو ئٹہ دھماکا کالعدم جماعت الاحرار نے قبول کرلیا۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں ان دہشت گرد گروہوں سے وابستہ افراد پر کسی مدرسہ کی چھاپ نہیں رہی۔یہ عام لوگ ہیں بالخصوص عصری تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے ہیں ۔ نیز بلوچ مزاحمتی گروہوں کو اُبھار کر جیوانی اور مذہب کا لبادہ اوڑھے گروہوں کو شہ دے کرمذکورہ دھماکوں جیسے واقعات کرکے حالات خراب کرنے کی سعی کی جائے گی ۔ امریکا اور سعودی عرب کے نزدیک ایک نئے فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کی چنگاریوں سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان نے19جون کو اپنی حدود میں ایرا ن کا جا سوسی کا طیارہ( ڈرون )مار گرایا جو چار کلومیٹر پاکستانی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔ ایران سے اس بابت وضاحت لینی چاہیے ۔ سرحدوں کی خلاف ورزی افغانستان کی طرف سے ہو یا ایران کی طرف سے، پاکستان کو جارحانہ رد عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،بالخصوص افغانستان سے متصل سرحد کی ہمہ پہلو نگرانی ہونی چاہیے۔ پاک فوج کی جانب سے پاک افغان سرحد پر پر حفاظتی باڑ لگانے کا آغاز ہو چکا ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے۔ افغان حکومت چہ بجبیں ضرورہوئی ہے۔ مگر اس کی پرواہ کیے بغیر پاکستان اپنی سیکیورٹی کی خاطر ہر ممکن قدم اٹھا نے کا حق رکھتا ہے ۔ اوربلوچستان میں تخریب و مردُم کُشی کے اس گھنائو نے کھیل کے نئے بندوبست پر ہمہ پہلونگاہ کی ضرورت ہے ۔
٭٭……٭٭


متعلقہ خبریں


پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !! وجود - جمعه 11 اگست 2017

پاکستان کے 44 فیصد رقبے اور صرف 7 فیصد آبادی کے ساتھ صوبہ بلوچستان بہت سے حوالوں سے سرخیوں کا موضوع رہا ہے۔تیل، گیس، تانبے اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کا محل وقوع انتہائی حساس اور اہم ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کے سب سے غریب اور پسما...

پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !!

بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!! ایچ اے نقوی - اتوار 09 اپریل 2017

[caption id="attachment_44044" align="aligncenter" width="784"] بلوچ نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہیں تو پہلے ان کی تعلیم اور ان کو ہنر سکھانے پر توجہ دینا ہوگی ورنہ سڑکیں اور صنعتیں صوبے کو ترقی نہیں دے سکتیں،ناقدین بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی ...

بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!!

ریکوڈک کیس ورلڈ بینک نے پاکستان کے ساتھ ہاتھ کردیا؟ ایچ اے نقوی - منگل 28 مارچ 2017

ورلڈ بینک کے ثالثی ٹریبونل نے ریکوڈک پروجیکٹ کے حوالے سے دائر کردہ مقدمے میں پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔چلی کی مائننگ کمپنی اینٹوفاگاستا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے قائم کر...

ریکوڈک کیس ورلڈ بینک نے پاکستان کے ساتھ ہاتھ کردیا؟

بلوچستان :قیام امن کے لیے بنیادی سہولتوںکی فراہمی ضروری ایچ اے نقوی - اتوار 12 مارچ 2017

بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ طویل عرصے سے ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے لیے ممنوعہ علاقہ تصور کیاجاتا رہا ہے۔فرقہ وارانہ گروپوں اور علیحدگی پسند عسکریت پسندوںکی خونریز کارروائیوں کی وجہ سے ملک کے دیگر علاقوں سے کوئٹہ آنے کا تصور کرنا ہی مشکل ہوگیاتھا ۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خو...

بلوچستان :قیام امن کے لیے بنیادی سہولتوںکی فراہمی ضروری

سندھ و بلوچستان پولیس نے سرجوڑ لیے وجود - بدھ 01 مارچ 2017

سندھ میں جب بھی دہشت گردی ہوئی تو اس کو شہری علاقوں خصوصاً کراچی اور حیدرآباد تک محدود رکھا گیا۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران جیکب آباد‘ شکارپور ‘خان پور اور اب سیہون کو ملا کر پانچ واقعات ہوچکے ہیں جن میں 200 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پہلے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے قافلے...

سندھ و بلوچستان پولیس نے سرجوڑ لیے

بھئی احتساب لازم ہے ۔۔۔۔۔۔ جلال نورزئی - پیر 09 جنوری 2017

قومی احتساب بیورو نے مشتاق رئیسانی کو بھاری رقم کے ساتھ حراست میں لیا تو اس پر ملک بھر میں نیب کی داد و تحسین ہونے لگی۔ بلوچستان میں حکومت مخالف جماعتیں مسرت سے کھل اُٹھیں کیونکہ انہیں صوبائی حکومت یا نیشنل پارٹی کے خلاف بولنے کا سنہرا موقع ملا ۔ ایک زبردست بحث ذرائع ابلاغ پر بھی...

بھئی احتساب لازم ہے ۔۔۔۔۔۔

بلوچستان ،نئے گیس ذخائر کی دریافت جلال نورزئی - هفته 07 جنوری 2017

قومی قیادت اور مقتدر حلقوں پر اب واضح ہو چکا ہے کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے ۔ ملک کے رقبے اور معدنیات کے لحاظ سے یہ بڑا صوبہ عشروں سے نظر انداز تھا۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے ،صوبے کی اہمیت اور قدر میں اضافہ ہوا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس صوبے کا سینکڑوں کلو میٹر طویل ساحل،...

بلوچستان ،نئے گیس ذخائر کی دریافت

مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر