وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!!

اتوار 09 اپریل 2017 بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!!

بلوچ نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہیں تو پہلے ان کی تعلیم اور ان کو ہنر سکھانے پر توجہ دینا ہوگی ورنہ سڑکیں اور صنعتیں صوبے کو ترقی نہیں دے سکتیں،ناقدین بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی تخریبی سرگرمیوں کابنیادی سبب ،دوسرے صوبوں کے تعلیم یافتہ وسہولت یافتہ نوجوانوں کو دیکھ کر احساس محرومی میں اضافہ ہوتا ہے سابق صدرآصف زرداری نے بلوچستان کے حالیہ دورے میں میں صنعتوں کے قیام،بے روزگاری کے خاتمے اور وسط ایشیائی ممالک سے پانی لانے کے منصوبے قائم کرنے کے دعوے کیے

پاکستان پیپلز پارٹی کے روح رواں اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے گزشتہ روز بلوچستان کادورہ کیا اور وہاں پارٹی کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حسب عادت بڑے بلند بانگ دعوے کئے ،انھوں نے اس پسماندہ صوبے کے زبوں حال لوگوں کی غربت دور کرنے کیلئے اس صوبے میں پانی کی کمی دور کرنے کے کئی ایسے منصوبوں کا ذکر کیا جو شاید وہ اپنی زندگی میں مکمل نہیں کرسکتے۔ مثال کے طورپر انھوںنے بلوچستان کی پانی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے وسط ایشیائی ممالک سے پانی لانے کے منصوبے یا خیال کاذکر کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وسط ایشیا سے پانی لانے کیلئے نہروں کی کھدائی اور تیاری کیلئے سرمایہ کہاں سے آئے گا ؟یہ کام کتنے سال یاعشروں میں مکمل ہوسکے گا؟ اس دوران بلوچستان میں آبپاشی اور خاص طورپر پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کیا انتظام کیاجائے گا؟ اس طرح آصف زرداری کے ان وعدوں کو ایسے انتخابی وعدوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔
آصف زرداری نے بلوچستان کے لوگوں کوانٹر نیٹ پر بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرنے اور اس سے سبق حاصل کرنے کامشورہ دے کر ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک اچھا کام کیاہے جسے سراہا جانا چاہئے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر آصف زرداری کے اس مشورے پر ایک فیصد لوگوں نے بھی عمل کرلیا اوربھارت میں مسلمانوں کی حالت زار اور مودی دور حکومت میں ان کے ساتھ روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک کا مشاہدہ کرلیا تو یہ ایک فیصد نوجوان اس صوبے کے بے راہ رو اور گمراہ نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کا اہم ذریعے بن سکتے ہیں۔جس سے بلوچستان میں نہ صرف تخریب کاری میں مصروف نوجوان راہ راست اختیار کرسکتے ہیں بلکہ ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے بلوچ نوجوانوں کی خدمات کاحصول مشکل ہوجائے گا۔
آصف زرداری نے اپنے دورہ بلوچستان کے دوران بہت سی باتیں کیں ،بلوچستان میں صنعتیں قائم کرنے اور ان میں بلوچ نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی کے حوالے سے بھی وعدے کئے لیکن انھوں نے بلوچ نوجوانوں کی غربت اور بیروزگاری یا موزوں روزگار نہ ملنے کے بنیادی مسئلے یعنی بلوچ عوام کی ناخواندگی اوران کے بے ہنرہونے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی،جبکہ بلوچ نوجوانوں کی بیروزگاری اور بد حالی کی بنیادی وجہ تعلیم سے ان کی محرومی اور ان کابے ہنر ہونا ہے، اور جب تک بلوچستان میں تعلیم کو حقیقی معنوں میں عام نہیں کیاجائے گا اور بلوچ نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے کے مراکز قائم کرکے بلوچ نوجوانوں کو ہنر سیکھنے کی ترغیب نہیں دی جائے گی، صرف صنعتوں کے قیام سے ان کی غربت اوربیروزگاری کاخاتمہ نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ناخواندہ اور بے ہنر نوجوانوں کو کمتر درجے کی ملازمتیں ہی مل سکیں گی اور کمتر درجے کی ملازمتیں کرنے والے یہ نوجوان جب دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کواعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے اور بھاری تنخواہیں وصول کرتے دیکھیں گے تو وہ اپنی تعلیمی کم مائیگی کو نظر انداز کرکے احسا س محرومی کا شکار ہوں گے اور ان کی اسی احساس محرومی کو دشمن اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا ،جیسا کہ اب بھی ہورہا ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ اگر بلوچ عوام کی حالت کوبہتر بنانا ہے اور بلوچ نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہیں تو پہلے ان کی تعلیم اور ان کو ہنر سکھانے پر توجہ دینا ہوگی۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلوچستان میں تبدیلی لانے کیلئے جن اقدامات کا ذکر کیاتھا ان میں بلوچستان میں اسکولوں کی بحالی اور تمام بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کاوعدہ سرفہرست تھا ۔حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ان ترجیحات اور وعدوں کی بنیاد پر یہ خیال کیاجارہاتھا کہ اب بلوچستان کے عوام کو حصول تعلیم کے آسان ذرائع میسر آجائیں گے اور ان کے بچے آوارہ گردی کرنے کے بجائے اسکولوں کی رونق بنیں گے ،لیکن موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے 4سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ابھی بلوچ عوام کو تعلیم کی سہولتیں بہم پہنچانے کی جانب ایک انچ بھی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی شعبے کی زبوں حالی یا اس شعبے سے حکومت کی عدم توجہی کاعالم یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کا ہر آٹھواں بچہ اب بھی اسکولوں میں داخلے سے محروم ہے اور خواندگی کی شرح اب بھی 39 فیصد پر اٹکی ہوئی ہے ، اس حوالے سے یہ خیال رہے کہ خواندگی کی اس شرح میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن میں اکثریت کے پاس سیکنڈری اسکول کی بھی کوئی ڈگری نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی خواندہ تصور کرلیاگیاہے جو اپنا نام لکھنا اور دوسروں کے نام پتے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان لوگوں کو اس فہرست سے نکال دیاجائے اور صرف سیکنڈری اسکول سے فارغ ہونے والوں کو خواندہ تصور کرلیاجائے تو غالبا ً یہ شرح نصف بھی نہ رہے۔
حکومت کی جانب سے 2014-15 کے حوالے سے جو تعلیمی اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں ان کے مطابق پاکستان میں 5سے 16 سال عمر تک کے کم وبیش2کروڑ 40لاکھ بچے اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں۔جبکہ اس میںبلوچستان میں اسکول کی تعلیم سے محروم بچوں کی شرح70 فیصدہے۔سندھ کی 56 فیصد اور پنجاب کی 44 فیصد ہے ،تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے اعتبار سے خیبر پختونخوا دیگر صوبوں سے آگے ہے اور وہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح پڑھالکھا پاکستان کی مہم کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والے صوبے پنجاب سے بھی کم یعنی 36 فیصد ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی سہولتوں سے محروم بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہونے کی بنیادی وجہ ہے کہ بلوچستان کی حکومت نے ابھی تک اس صوبے کی اس اہم ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی ہے اور تعلیمی شعبے کوترقی دینے اور لوگوں کواپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ترغیب دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ، یہی نہیں بلکہ بلوچستان کی حکومت اس صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں طلبہ وطالبات کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے بلوچستان جانے والے اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو تحفظ دینے میں بھی ناکام رہی ہے جس کا اندازہ آئے روز بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والوں کے قتل کے واقعات سے لگایاجاسکتاہے ۔
بلوچستان کے عوام میں موجود احساس محرومی دور کرنے کی کوشش کرنے کے دعویدار بلوچستان کے حکمرانوں کی تعلیم کے شعبے سے یہ بے اعتنائی ظاہر کرتی ہے کہ ان حکمرانوں کو ترقی اور خوشحالی میں تعلیم کے اہم بلکہ بنیادی کردار کا احسا س نہیں ہے،جس صوبے کے 5سے16 سال عمر کے 18 لاکھ بچوں نے اسکول کا منہ ہی نہ دیکھا ہو انھیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسکول کیاہوتاہے اور یہاں بچے کیوں آتے ہیں،اور جس صوبے کے60 فیصد سے زیادہ افراد اپنا نام لکھنا اور پڑھنا بھی نہ جانتے ہوں اس صوبے کو ترقی دینے کے دعوے کس طرح پورے ہوسکتے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق اس وقت بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے لیکن اس ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کے صوبے میں صرف 13 ہزار اسکول موجود ہیں جن میںڈھائی ہزار لڑکیوں کی تعلیم کیلئے مخصوص ہیں اوربقیہ لڑکوں کیلئے ہیں ،اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کیلئے صرف 13ہزار سرکاری اسکول پوری آبادی کی تعلیمی ضروریات کس طرح پوری کرسکتے ہیں ، خاص طورپر اس لئے بھی کہ بلوچستان کی آبادی گنجان نہیں ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے گائوں فاصلے فاصلے پر واقع ہیں اور اسکولوں کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات بچوں کو حصول تعلیم کیلئے ایک گائوں سے دوسرے گائوں یاقریبی شہروں میں جانا پڑتاہے ۔ظاہر ہے کہ چھوٹے بچے روزانہ اتنا فاصلہ طے نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے ان کے والدین اپنے بچوں کواسکول میں داخل کرانے ہی سے گریز کرتے ہیں اور وہ گلی محلوں میں آوارہ گردی کرتے کرتے جب جوان ہوجاتے ہیں اور انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتاہے تو ان کے دلوں میں حکومت اورملک کے خلاف باغیانہ خیالات پیداہونا لازمی امر ہے اور ان کے ان باغیانہ خیالات کی آبیاری کرکے ملک دشمن عناصر اور غیر ملکی ایجنٹ انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے تخریب کاری کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس طرح تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ داری پوری نہ کرکے اور بلوچ نوجوانوں کو تعلیم اور کسی ہنر سے آراستہ کرنے کے وسائل مہیا کرنے سے گریز کرکے خود ہمارے حکمراں ملک دشمنوں اور غیرملکی ایجنٹوں کواپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے نوجوانوں کی پوری پوری کھیپ مہیاکرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ہمارے سیاستدان و اور ارباب حکومت بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی کی طرف فوری طورپر توجہ دیں اور تعلیم کے شعبے کو اولیت دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بچوں کو ان کے گھروں کے قریب تر تعلیم کی سہولت مہیا کرنے کے انتظامات کریں۔ارباب حکومت کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ جب تک وہ تعلیم کے شعبے کومضبوط نہیں بنائیں گے اور اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کیلئے انھیں تعلیم اور ہنر سے آراستہ نہیں کریں محض سڑکوں کی تعمیر سے ترقی کے فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے اور جب تک بلوچستان کے نوجوان تعلیم کے زیور سے آراستہ اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہنر سے آراستہ ہوکر اپنی روزی باعزت طریقے سے کمانے کے قابل نہیں بنادئے جاتے ،تخریب کاری اور انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
امید کی جاتی ہے کہ اربا ب حکومت اس جانب توجہ دیں گے اورپورے ملک اور خاص طورپر ملک کے سب سے زیادہ دولت مند لیکن پسماندہ صوبے بلوچستان میں تعلیم عام کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔


متعلقہ خبریں


جھوٹی خبر پر 30 لاکھ ہرجانہ، پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون منظور وجود - منگل 21 مئی 2024

پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون 2024 ایوان سے منظور کروالیا۔تفصیلات کے مطابق ہتک عزت قانون کا بل وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے ایوان میں پیش کیا، جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے احتجاجا ًواک آؤٹ کیا جبکہ اپوزیشن نے بھی اسے مسترد کردیا۔بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوش...

جھوٹی خبر پر 30 لاکھ ہرجانہ، پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون منظور

شاعراحمد فرہاد کی بازیابی، یہ ملک قانون کے مطابق چلے گا یا ایجنسیوں کی طریقے سے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ وجود - منگل 21 مئی 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سیکریٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو (آج) منگل کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔اس موقع پر احمد فرہاد کی اہلیہ کے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ...

شاعراحمد فرہاد کی بازیابی، یہ ملک قانون کے مطابق چلے گا یا ایجنسیوں کی طریقے سے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،شاہدخاقان عباسی وجود - منگل 21 مئی 2024

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ، جب تک بڑے پیمانے پر نظام کی تبدیلی نہیں کریں گے ملک نہیں چلے گا،سیاسی جماعت ایک دن میں نہیں بنتی، اگلے ماہ تک سیاسی جماعت وجود میں آجائے گی اور پورے پاکستان سے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوں گے ۔پیرک...

آئین میں ہائبرڈ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،شاہدخاقان عباسی

دنیا کی طرح ہماری فوج بھی آئینی حدود میں رہے ، محمود اچکزئی وجود - منگل 21 مئی 2024

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ جب ہم آئین کی بات کرتے ہیں تو بعض ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف بات کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں جس طرح دنیا بھر کی افواج اپنی آئینی حدود میں کام کرتی ہیں آپ بھی اسی حدود میں کام کریں۔تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ...

دنیا کی طرح ہماری فوج بھی آئینی حدود میں رہے ، محمود اچکزئی

عمران خان 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری وجود - منگل 21 مئی 2024

عدالتوں نے عمران خان کو 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری کردیا۔اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نو مئی ، آزادی مارچ توڑ پھوڑ کیس اور دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی سمیت تین کیسز میں بانی پی ٹی آئی کو بری کردیا ۔ عدالت نے شیخ رشید ، فیصل جاوید کو بھی تھانہ کوہسار اور تھانہ ...

عمران خان 9 مئی اور آزادی مارچ سمیت 3 مقدمات میں بری

ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت 8 افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق وجود - پیر 20 مئی 2024

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، اُن کے چیف گارڈ، وزیر خارجہ، صوبے مشرقی آذربائیجان کے گورنر، آیت اللہ خامنہ ای کے نمانندہ خصوصی، اور ہیلی کاپٹر عملے کے 3 ارکان حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ایرانی وزیر داخلہ نے گزشتہ شب لاپتا ہونے والے ہیلی کاپٹر کا ملبہ تبریز سے 100 کلومیٹر دور ایک گھنے ج...

ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سمیت 8 افراد ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق

قبائلی عمائدین کی مدد سے جرگہ، پاکستان، افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق وجود - پیر 20 مئی 2024

خیبر پختونخوا میں سرحد پر 4روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے قبائلی عمائدین اور حکام پر مشتمل ایک جرگے نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق جمعہ کو پاکستان اور افغانستان کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کے باعث کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ ...

قبائلی عمائدین کی مدد سے جرگہ، پاکستان، افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق

پنشن سسٹم خطرناک ، دس برسوں میں لاگت100کھرب تک پہنچنے کا خطرہ وجود - پیر 20 مئی 2024

ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے پنشن سسٹم کے اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی۔جارجیا میں میڈیا بریفنگ کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر ماہر اقتصادیات ایکو ککاوا نے کہا کہ پاکستان میں پنشن ...

پنشن سسٹم خطرناک ، دس برسوں میں لاگت100کھرب تک پہنچنے کا خطرہ

وزیراعظم شہباز شریف کاکرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ وجود - پیر 20 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستان کے سفیر حسن علی ضیغم سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے پاکستانی طلبا ء کو واپس لانے والے خصوصی طیارے کے حوالے سے ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت کی۔وزیراعظم کی ہدایت پر خصوصی طیارہ بشکیک کرغزستان کے لئے روانہ ہو گا اور 130 پاکستانی طلبا کو لے ...

وزیراعظم شہباز شریف کاکرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ

وزیرِ اعلیٰ نے ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو معطل کر دیا وجود - پیر 20 مئی 2024

وزیرِ اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے کورنگی انڈسٹریل ایریا کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا۔اتوارکی صبح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں جاری مختلف پروجیکٹس کا دورہ کیا، صوبائی وزراء شرجیل میمن، ناصر شاہ، سعید غنی اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی ان کے ہمراہ تھے ۔مراد علی شا...

وزیرِ اعلیٰ نے ایس ایچ او کورنگی انڈسٹریل ایریا کو معطل کر دیا

پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے ،نواز شریف وجود - هفته 18 مئی 2024

(رپورٹ: ہادی بخش خاصخیلی) پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پیٹھ میں چھرا گھونپا، ساتھ چلنے کی یقین دہانی کروائی، پھر طاہرالقادری اور ظہیرالاسلام کے ساتھ لندن جاکر ہماری حکومت کے خلاف سازش کا جال بُنا۔نواز شریف نے قوم س...

پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے ،نواز شریف

سیاسی پارٹیاں نواز شریف سے مل کر چلیں، شہباز شریف وجود - هفته 18 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں قوم کے لیے نواز شریف سے مل کر چلیں، نواز شریف ہی ملک میں یکجہتی لا سکتے ہیں، مسائل سے نکال سکتے ہیں۔ن لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کو صدارت سے علیحدہ کر کے ظلم کیا گیا تھا، ن لی...

سیاسی پارٹیاں نواز شریف سے مل کر چلیں، شہباز شریف

مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر