وجود

... loading ...

وجود
وجود

تراویح اختلاف نہیں اتحاد کی علامت ہے

بدھ 07 جون 2017 تراویح اختلاف نہیں اتحاد کی علامت ہے

جب کسی قوم کے عقل وشعورمیں بگاڑ آجاتا ہے اور وہ فی الفور ہوش کے ناخن نہ لے توتسلسل کے ساتھ بگڑ تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ بے عقلی اور بے شعوری کے کاموں کو بھی عقلمندی کے کام سمجھنے لگتی ہے ،یہی حال ہمارا ہے ۔ہم بگاڑ میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اب مذہب اور اس کے احکام بھی ہمارے اس ظلم سے نہیں بچ پاتے ہیں ،ا س کی وجہ یہ ہے کہ ہم سراپا بگاڑ اور فساد ہیں اور ہماری وجہ سے ہر سو بگاڑ اور فساد پھیل جاتا ہے ۔یہ ہمارا اصل مرض ہے جس کو ہم تاویل کر کے چھپاتے پھرتے ہیں ۔مگر وقت وقت پر ہمارا یہ مرض ظاہر ہو ہی جاتا ہے ۔مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ تراویح کی نماز کی تعدد رکعت پر علما ء کے بیچ اختلافات نہیں ہیں اور نہ ہی مجھے اس بات سے انکار ہے کہ دونوں طرف دلائل ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان کا رحمت بھرا مہینہ سایہ فگن ہو جاتا ہے تو تراویح کی نمازکی رکعتوں پر منبر ومحراب سے لیکر بازاروں تک ہر جگہ زور دار بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور اپنی اپنی فکر اور سوچ کے لوگوں میں چھوٹے چھوٹے رسائل تقسیم کیے جاتے ہیں اور ہر عالم دوسروں کے دلائل کو رد کرتے ہوئے صرف اپنی بات پر بہت اصرار کرتا ہے کہ گویا حق صرف اسی کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ۔
یہ صورتحال قابل برداشت ہوتی اگر دونوں طرف کے علماء بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ’’علمی اختلافات‘‘کو کارکنان تک نہ پہنچاتے ۔اختلافات اپنی ذات میں برے نہیں ہو تے ہیں یہ بسا اوقات فائدہ مند بھی ہو تے ہیں مگر کھبی کبھار نقصان دہ بھی ۔تراویح میں تعدد رکعات کا اختلاف اتنا سنگین بن چکا ہے کہ جہاں مسجدیں مخلوط ہو تی ہیں وہاں اگر احتیاط نہ برتی جائے تو روز کے جھگڑے کبھی نہیں رکیں گے، مگر ماہ مبارک رمضان میں یہ اختلافات اور بھی طول پکڑتے ہیں ۔یہ صورتحال اور اختلاف تب اور بھی سنگین بن جاتا ہے جب دو مخالف مسالک یا فکر کے لوگ ایک دوسرے کو گمراہ ،ملحد ،زندیق اور نہ معلوم کیا کیا شمار کرنے لگتے ہیں، پھر برادریاں ٹوٹ جاتی ہیں بلکہ بسااوقات رشتوں تک کو نقصان پہنچ جاتا ہے ۔عام رفقاء اور کارکنان اس سب کو کار دین سمجھتے ہوئے اعلیٰ قسم کا جہاد خیال کرتے ہیں اور بعض ’’مبلغ‘‘اسکو ہوا دیکر صورتحال کو مزید خوفناک بناتے ہیں پھر مصالحت پسندوں کی کوششیں بھی بے کار ہو جاتی ہیں ۔ہمارے علاقے میں ایک ناعاقبت اندیش مبلغ سے عوام نے تراویح کی تعدد رکعت پر سوال پوچھا تو جناب نے عوام کے مسلک و مشرب کا اعتبار کیے بغیر اپنی رائے اور مسلک پر شدید اصرار کیا جس سے عوام مشتعل ہوگئے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء ہم سے جھوٹ بولتے ہیں یا گمراہ کرتے ہیں۔ تُوتُو مَیں مَیں سے معاملہ آگے بڑھ کر لڑ جھگڑنے تک پہنچ گیا ،پولیس نے دونوں جماعتوں کو گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا اور موقع پر موجود ’’ہندوپولیس آفیسر‘‘معاملہ سن کر بہت پریشان ہوا کہ اس مسئلے کو حل کیسے کرے، تو اس نے دونوں جماعتوں سے تحکمانہ لہجے میں کہا سنو آئندہ اس مسجد میں نہ کوئی آٹھ پڑھے گا نہ بیس بلکہ دونوں جماعتیں صرف بارہ پڑھیں گے اس لیے کہ یہی بیچ کی راہ ہے ۔آخر ایک ہندوآفیسر کس طرح دین کے اس نازک مسئلے کو حل کر سکتا ہے جس کی اس بے چارے کو ابجد بھی معلوم نہیں ہے ۔یہ تو واعظین اور مبلغین کو سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ کس طرح اختلافی امور میں اپنی رائے ’’مخلوط ماحول‘‘میں پیش کریں ۔وہ اپنی روزی روٹی اور تنظیمی نوکری کے لیے مسلمانوں کا اتحاد تو درکنار ان کا قتل عام بھی برداشت کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں ،
نمازتراویح کی رکعتوں میں اختلاف آج کانہیں بہت پرانا ہے ۔ ائمہ اربعہ سے تروایح کم از کم بیس رکعات ثابت ہیں ،البتہ امام مالکؒ سے ایک روایت اکتالیس اور ایک چھتیس کی مروی ہیں جبکہ ان کی ایک روایت جمہور کے مطابق ہے ۔اکتالیس والی روایت میں بھی تین وتر اور دو نفل بعد الوتر کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل بیس اور چھتیس رکعات ہی ہیں اور چھتیس کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ اہل مکہ کا معمول بیس رکعات تراویح پڑھنے کا تھا لیکن وہ ہر ترویحہ کے درمیان ایک طواف کرتے تھے ۔اہل مدینہ چونکہ طواف نہیں کر سکتے تھے ،اس لیے انہوں نے اپنی نماز میں ایک طواف کی جگہ چار رکعتیں بڑھا دیں اور اس طرح اہل مکہ کے مقابلے میں سولہ رکعتیں زیادہ ہو گئیں اسے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی رکعات تراویح کی تعداد بیس تھی گویا بیس رکعات پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ۔امام ابن خزیمہؒ اور امام ابن حبانؒ دونوں نے اپنی صحیح میں یہ روایت درج کی ہے کہ حضور ﷺ انہیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماًنہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے تھے کہ جو شخص رمضان المبارک میںایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں پھر حضور ﷺ کے وصال تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابو بکرؓ اور خلافت عمرؓ کے اوائل تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب ؓ کی اقتدا میں جمع کردیااور وہ انہیں نماز(تراویح) پڑھایا کرتے تھے ۔لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازتراویح کے لیے اکٹھے ہوئے تھے (ابن حبانؒ الصحیح جلد اول ۳۵۳،امام ابن خزیمہؒجلد ۳ ،۸۳۳)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا کہ حضورﷺرمضان المبارک میںوتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے (طبرانی ،المعجم الکبیر ،۱۱،۳۱۱،ابن ابی شیبہ ،المصنف،۲،۱۶۴)حضرت سائب بن یزید ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے (بیہقی ،السنن الکبریٰ،۲:۶۹۹) ۔امام مالک ؒ اپنی موطا میں حضرت یزید بن رومان کی روایت نقل کی ہے کہ رمضان میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے(اس روایت پر بعض علماء نے کلام کیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے )۔ اگر حضرت عمر ؓکے فعل ہی کو تنہا لیا جائے کہ انہوں نے صحابہ کی کافی بڑی تعداد کی موجودگی میں سارے مسلمانوں کو بیس رکعت پر جمع کر دیا تو یہ اپنی ذات میں بہت بڑی دلیل ہے اس لیے حضرت عمرؓ سے بڑا ’’بدعت کا دشمن‘‘کون ہو سکتا تھا ؟اور اگر بالفرض ایسا بھی ہوتا کہ ان میں کسی طرح کا کوئی تساہل ہی پیدا ہو جاتا تو وہ صحابہ جو حضور ﷺ کی سنتوں پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے کیا اس چیز کو کسی بھی طرح برداشت کرتے کہ حضرت عمر ؓ انہیں کسی ایسی چیز پر عمل کرائیں جو حضور ﷺ سے ثابت ہی نہ ہو ۔
رہی آٹھ رکعات والی حدیث جو بخاری شریف میں ہے اور سند کے اعتبار سے بہت قوی ہے جس کی روای حضرت عائشہ ؓ ہیں اور جس پردور حاضر میں ہمارے بھائی اہلحدیث عمل کرتے ہیں اورعلمائِ اہلحدیث کا دعویٰ ہے کہ یہ روایت تراویح اور تہجدکے متعلق ہے جبکہ مقلدین اسے تہجد پر محمول کرتے ہیں ۔سلف میں سے بہت سے کبار علماء اور ائمہ بیس کے ساتھ ساتھ آٹھ رکعت کے بھی قائل رہے ہیں متقدمین میں امام ابن حجر عسقلانیؒ ،ابن نجیم،ابن ہمامؒ،علامہ سیوطیؒ،امام ابو العباس قرطبیؒ جبکہ متا خرین علما ء کی فہرست بہت طویل ہے جن میں علامہ ناصر الدین البانی اور محدث شہیر مولانا عبد الرحمان مبارکپوری خاصے معروف ہیںاسی طرح امام مالک کی ایک روایت آٹھ رکعت کی بھی ملتی ہے جب کہ بعض علماء نے ان کی جانب اس کی نسبت کی تردید کی ہے حضرت امام ابن تیمیہؒ آٹھ کے قائل رہے ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں اگر کوئی نماز تراویح امام ابو حنیفہ ؒ،امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک ؒکے مسلک کے مطابق چھتیس رکعت ادا کرے گا یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا۔جیسا کہ امام احمد ؒ نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ۔تو رکعات کی کمی اور زیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہو گی (الاختیارات)اب اگر کوئی آٹھ اور کوئی بیس رکعت یہ سمجھ کر پڑھتا ہے کہ یہ حضور ﷺ یا ان کے صحابہ سے ثابت ہے تو اس میں لڑ نے جھگڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔مگر بعض دیندار حضرات کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ اپنی رائے یا اپنے مسلک پر اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے دوسرا غلط اور صریح غلط ہے ۔ہم دو انتہاؤں کے بیچ جی رہے ہیں اور ہر ایک کو اپنی بات پر کافی اصرار ہے جو ایک تعمیری ذہن کی عکاسی نہیں کرتا ہے حتیٰ کہ ہم لوگ ایک سنت مطہرہ کے لیے فرض تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ امام حسن البناء شہیدؒ کے دور میں مصر کے ایک علاقے میں بھی تراویح کے مسئلے پر مسلمانوں کے بیچ شدید اختلاف ہو گیا یہاں تک کہ آپسی لڑائی تک کی نوبت آئی ہم امامؒ کے ساتھ علاقے میں گئے تو انہوں نے دونوں جماعتوں کو جمع کر کے پوچھا کہ تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟دونوں جماعتوں نے بیک زبان کہا ’’سنت‘‘ہے۔امامؒ نے پوچھا مسلمانوں کا آپسی اتحاد کیا ہے ؟تو انہوں نے عرض کیا جناب فرض ہے،امام نے کہا تو کیوں آپ لوگ ایک سنت مطہرہ کی بابت فرض کو چھوڑ دیتے ہو؟؟؟
آج کشمیر کی صورتحال من و عن یہی ہے ۔یہاں ہر فرد اپنے آپ کو عالم بے بدل تصور کرتا ہے اور جو عالم ہیں وہ سماج سے کٹے ہوئے ہیں ۔جو سماج سے جڑے ہیں وہ اپنی ذاتی سوچ اور فکر کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عوام میں اسلام کے روپ میں پیش کرتے ہیں اور اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا انہی کے پاس دین ہے ۔نوجوان ایک عجیب مرض میں مبتلا ہیں وہ کم علم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بہت بڑے عالم تصور کرتے ہیں انہیں علماء کی صحبت میں بیٹھ کر دین سیکھنے سے کوئی غرض نہیں ہے ۔چند صفحات کے مطالعے کے بعدانہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے وہ ہر عالم کی توہین میں مسرت محسوس کرتے ہیں اور بسااوقات بہت ہی نازک اور باریک مسائل پر بھی بڑی بے باکی کے ساتھ رائے زنی کرتے ہیں اور رائے دینے کا انداز ایسا جارحانہ ہوتا ہے کہ گویا اپنی ذات میں کوئی ’’مجتہد‘‘ہو ۔حالانکہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اسے اصل اور فرع کی بنیادی چیزیں بھی معلوم نہیں ہو تی ہیں ۔ان دونوں انتہاؤں کے بیچ ایک تیسری راہ اعتدال کی ہے اور وہ ہے دوسروں کو برداشت کرتے ہوئے اُمت کے اجتماعی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر ہر اس مسئلے میں ’’احتیاط اور اعتدال ‘‘برتنا جہاں مسائل میں دونوں جانب دلائل موجود ہوں یا ان میں تھوڑی سی اونچ نیچ ہو اور اسلاف نے دونوں کو اپنایا یا اختیار کیا ہو۔
سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ تراویح پر ہنگامے اور جھگڑے بہت عام ہیں وہ بھی نمازیوں کے بیچ ،حالانکہ ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کہ تراویح سنت ہے اور اس پر امت کے اتحاد کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے ،ہر ایک اچھی طرح یہ بھی جانتا ہے کہ یہ اختلاف آج کا نہیں سینکڑوں سالوں کا ہے جوامت کے سرخیل ائمہ اور مجتہدین کرام کے دور میں بھی اسی طرح قائم رہا جس طرح آج ہے، جب ’’امت کے درد میں پگھلنے والے اُن اصحاب فہم و فراست‘‘کے دورمیں دو کے مقابلے میں ایک ہی چیز ہمیشہ کے لیے قائم نہیں ہو سکی تو اب ہم جیسے ’’بونے مولویوںسے‘‘کیسے ہو گی ؟اس کے باوجود اپنی رائے پر سخت اصرار چہ معنی دارد؟اس ساری صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ جھگڑے تو نمازیوں کے بیچ ہو رہے ہیں اور بے نمازیوں ’’جو نصوصاً صریح کفر ہے‘‘کی خوفناک گمراہی پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں ؟جتنا زورآٹھ اور بیس پر دیا جاتا ہے کاش اتنا ہی اپنے گمراہ بھائیوں کو نمازی بنانے پر لگا دیا جاتا تو ہمارا سماج اللہ کی رحمت کاملہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتا!!!تارکین صلوٰۃ اور تارکین تراویح پر کسی کو رنج نہیں ہے اگر ہے تو اس بات پر کہ آٹھ صحیح تر احادیث سے ثابت ہیں کہ بیس ؟کیااُمت محمدیہ ﷺ کے داعیوں اور مصلحین کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک ایسی بات پر جھگڑے جس پر تیرہ سو سال جھگڑنے کے باوجود بھی یک رنگی قائم نہیں ہو سکی ؟ہر ایک عالم اور مبلغ کویہ بات بہت اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ امت میں جو اختلافات دونوں طرف کے دلائل کے باوجود ’’معمولی سے فرق کے ساتھ ‘‘قائم رہ چکے ہیںخیر القرون کے علماء کے بعد اب کسی عالم ،مبلغ،محدث،فقیہ اور مفسر کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ ایک بات کہہ دے یا فتویٰ داغ دے تو مخالف فریق اس کی بات آنکھ بند کر کے مان لے گا ۔کبھی نہیں، تو پھر اصرار اور ضد کیوں؟؟؟
تراویح کی نماز پر غور کرنے سے مجھے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ یہ اختلاف اور افتراق کی علامت نہیں ہے بلکہ اتفاق اور اتحاد کی عظیم الشان نشانی ہے ۔حضرت عمرؓ ؓنے اس میں تفریق محسوس کرتے ہوئے اس میں اتحاد واتفاق پیدا کرکے عبادت الٰہی کی ایک ایسی نظیر کی صورت عطا کی کہ آج اُمت اس کے بغیر جی نہیں پاتی ہے ۔یہ حضرت عمرؓ کے صاحب بصیرت و فراست ہونے کی اہم ترین دلیل ہے ورنہ آج اُمت اتنے شدید اختلاف میں ہوتی کہ تصور کرنا بھی محال ہوتا ،اورتواور شاید یہ اُمت خیر کثیر سے ہی محروم ہو جاتی ۔یہ صحابہ کبار ؓکا خاصا رہا ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اور محنت دین کے قیام کی جانب رہتی تھی اور وہ اس حوالے سے بہت حساس ثابت ہو ئے ہیں ۔برعکس اس کے ہم دنیوی امور کے حوالے سے بہت حساس ہیں اور دین کے حوالے سے بہت ہی کم فہم اور کم ظرف اور پھر جب کبھی دینی اُمور کی جانب توجہ ہو بھی جائے تو بگاڑ کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں اور المیہ یہ کہ اس سب کا نام ہم ’’خدمت دین‘‘رکھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دین دار حضرات ایک دوسرے کو ان مسائل کے حوالے سے برداشت کرنے کی راہ اپنائیں اور اپنے کارکنان کو بھی ’’خلوت اور جلوت‘‘میں ا س کی تعلیم دیں ۔بصورت دیگر ہم آپس میں ہی اُلجھ کر اپنے حقیقی اور مشترکہ دشمن کو بھول جائیں گے اور شاید جس منصوبے پر اسے بے شمار دولت خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی وہ منصوبہ ہم مفت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا کرایک ’’ظالمانہ اور بد بختانہ‘‘کام انجام دیکر آنے والی نسلوں کو ایسی مصیبت میں مبتلا کریں جس کی تلافی ان سے ممکن ہی نہ ہو؟؟؟ہاں اگر اس پر بحث ہی کی شدید ضرورت ہو تو علماء اس کو اپنی حدود تک محدود کردیں اور اب شاید ایسا ممکن نہ ہو تو دوسری صورت یہ ہے کہ دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس سے ان کی ذاتی رائے قرار دیا جائے اور بس ۔نہ کہ ’’کفر وکافری‘‘کے فتوے جاری کر کے صورتحال کو آخری درجے تک پہنچا کر بگاڑا جائے ۔یہ بات تو طے ہے کہ جب آٹھ رکعت کے قائلین بیس والوں کو گمراہ اور بیس والے آٹھ والوں کو گمراہ قرار دیں گے اور ایک دوسرے کے دلائل کو ’’بے اصل‘‘ہونے کی بات کریں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ اب ایک تفریق پیدا ہو چکی ہے اس کو مزید وسعت دینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اسے محبت اور ہمدردی کے بولوں سے پاٹا جائے اس لیے کہ ہمارے اختلافات دو مذاہب کے نہیں دو مشارب کے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر