وجود

... loading ...

وجود
وجود

نظریاتی کارکن

بدھ 01 مارچ 2017 نظریاتی کارکن

لگ بھگ 30 برس پہلے جب گیارہ برس کے وقفے کے بعد ملک میں سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ سرگرمیاں بحال ہوئیں اور 1988 کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں باہم مدمقابل ہوئیں تو ملک کے بیدار حلقوں کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ ملک میں 2 بڑے سیاسی گروہ ہیں جنہیں محبان بھٹو یا حریفان جو اتحادیوں کو ملاکر برسر اقتدار آنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں دو جماعتی نظام کو چیلنج کرنے کی پہلی خواہش ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے سامنے آئی اور اس کے عملی اظہار کے لیے جنرل حمید گل اور ان کے دیگر ہم خیال، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1988 میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کو آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا۔
ان اصحاب نے محض 5 برس بعد 1993 میں قاضی حسین احمد کو پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے میدان میں اتارا، یہ تجربہ اس وقت تو بری طرح ناکام ہوا مگر ذہنوں میں یہ خیال چھوڑگیا کہ تیسری سیاسی قوت عوام کے ایسے طبقے کو ضرور متوجہ کرسکتی ہے جو دونوں جماعتوں سے بیزار ہو، دو جماعتی نظام سے عوام یا مقتدر اداروں کی بیزاری کی وجوہات جدا جدا بھی ہیں او رطویل بھی، ان کا ذکر موضوع سے مطابقت رکھتا ہے نہ فی الحال اس کی افادیت ہے۔
ٹھیک چار برس بعد 1997 کے انتخابات میں نومولود سیاسی جماعت تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت کے طور پر اتری، انتخابی نتائج تو اسلامک فرنٹ سے بھی خراب ہی تھے مگر ان انتخابات میں تحریک انصاف نے یہ کمال کیا کہ سیاسی کارکنوں اور نوجوان قیادت کی ایک کھیپ جمع کرلی جو پاکستان اسلامک فرنٹ نہیں کرسکا تھا، کیونکہ اس کے ساتھ وہی لوگ آئے تھے جو پہلے سے جماعت اسلامی کے حامی تھے، تحریک انصاف نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے سے مایوس افراد میں بھی امید کی نئی جوت جگادی، وہ تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوگئے اس نئی کھیپ میں سے بھی اکثر اس وقت مایوس ہونے لگے جب نواز شریف کا بھاری مینڈیٹ سب کو روندتا ہوا آگے بڑھنے لگا، 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد تحریک انصاف کو ایک امید پیدا ہوئی تھی مگر 2002 کے مایوس کُن انتخابی نتائج کے بعد تحریک انصاف میں پھر مایوسی کی لہر پھیل گئی، اس مشکل وقت میں بھی جو لوگ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، وہ وہی تھے، جو پہلے روز سے پارٹی کے ساتھ تھے اور شاید آخری دن تک کھڑے رہنے کا عزم رکھتے تھے اس دوران کراچی میں پارٹی کے لیے مشکل وقت بھی آیا اور شاید اس سے زیادہ کٹھن وقت پارٹی پر اس سے پہلے نہیں آیا تھا نہ اس کے بعد آیا، ایسے وقت میں جو لوگ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے در حقیقت اس قسم کے افراد تحریک انصاف ہی نہیں کسی بھی پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں یا تو عمران خان صاحب کو 12 مئی کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف اتنا شدید موقف اختیار نہیں کرنا تھا کیونکہ ان کے پارٹی کے لوگ کراچی میں بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے اکثریتی علاقوں میں رہتے تھے ایک بڑے سیاسی فائدے کے لیے یا اصولوں پر قائم رہنے کے لیے انہوں نے یہ موقف اختیار کر ہی لیا تھا تو پھر ان قربانی دینے والے کارکنوں یا رہنمائوں کا جائز سیاسی مرتبہ بحال رکھنا تھا مگر تحریک انصاف کے سربراہ نے 30 اکتوبر 2011 کے بعد پارٹی کو جس ڈگر پر ڈالا اور اس کے بعد منتخب ہونے کی طاقت رکھنے والوں کے لیے پارٹی میں دروازے کھولے تو نظریاتی کارکن پیچھے ہوتے چلے گئے، نئے آنے والوں نے اپنی جگہ بنانے کے لیے جو سب سے پہلے کام کیا، وہ یہی تھا کہ چن چن کر پر نظریاتی کارکنوں کو پیچھے کرکے آگے آئے، 2013 میں پارٹی کے انتخابات تو سب کے سامنے ہیں خود عمران خان سمیت اعلیٰ قیادت نے دھاندلی کو تسلیم کیا کمیشن بنایا جس نے پارٹی انتخابات میں دھاندلی کا الزام 30 اکتوبر کے بعد پارٹی میں اور پھر آنے والے رہنمائوں پر لگا، یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ہمارے پیش نظر تحریک انصاف کے ایک بنیادی رکن اور کراچی میں پارٹی کو مستحکم بنیاد پر کھڑا کرنے والے رہنما اشرف قریشی کا خط ہے جس میں انہوں نے خان صاحب کی جانب سے بری طرح نظر انداز کیے جانے پر اپنی پارٹی سرگرمیاں محدود کردیں۔ وہ مایوس ہوکر کسی دوسری پارٹی میں شامل نہیں ہوئے وگرنہ پیپلز پارٹی تو بے چین ہے کراچی میں ایسے لوگوں کو قبول کرنے کے لیے، اشرف کا جو شکوہ ہے وہ تو آپ خود پڑھ ہی لیں گے ان کا خط میں ذیل میں پیش خدمت کیا جارہا ہے مگر اشرف کے خط سے پہلے انتہائی ادب کے ساتھ عمران خان صاحب سے عرض کریں گے کہ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے ایک مرتبہ کامیابی کے دروازے کھل سکتے ہیں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ناراض مگر نظریاتی لوگوں کو نظر انداز نہ کریں، تفصیل میں جانے کا مقام نہیں مگر 3 مارچ اور 22 اگست 2016 کے بعد 2015 کے بلدیاتی انتخابات سے بہتر نتائج کے امکانات پیدا ہوئے ہیں بس دانشمند مقامی قیادت کی ضرورت ہے، اب اشرف قریشی کا خط جو انہوں نے ہمیں بھیجا ہے۔
’’جناب ابو محمد صاحب۔‘‘ یہ سطور آپ کی خدمت میں نہایت دردمندی کے ساتھ پیش کررہا ہوں، تحریک انصاف کے سربراہ اور میرے رہنما عمران خان علی الاعلان مجھے پارٹی کا فائونڈر ممبر یا اساسی رکن کہتے نہیں تھکتے تھے، جب پارٹی مشکل میں تھی انٹرا پارٹی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو چھپانا تھا، 2013 کا الیکشن لڑنا تھا کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے ضروری تھے اور عارف علوی نے جو الیکشن سسٹم بنوایا تھا وہ صرف دھاندلی ہی کراسکتا تھا لہٰذا عمران خان صاحب کے حکم پر سب چُپ یعنی خاموش ہوگئے اور 2 نومبر کا الیکشن ہوگیا اور پھر وہ ہی ہوا جس کا اندیشہ اور ڈر تھا، وہ الیکشن جس کا پہلے ہی دن سے عمران خان کو علم تھا کہ غلط ہیں، اس کو غلط ثابت کرنے میں 2 سال لگ گئے اور دھرنے میں خان صاحب نے اسٹیج پر چڑھ کر اعلان کیا کہ ہمارے الیکشن میں دھاندلی ہوئی، جسٹس وجیہ الدین اور ملک یوسف گبول نے فیصلہ دے دیا ہے اور اب ہم نئے الیکشن کرائیں گے اور پھر اس بات کو بھی 14 ماہ گزر گئے، بلدیاتی انتخابات بھی ہوگئے اور پارٹی پورے ملک میں ہار بھی گئی، عمران خان کے من پسند آرگنائزرز نے تحریک انصاف کو تباہ کردیا نہ صرف کراچی اور سندھ سے اس کا نام و نشان مٹایا گیا بلکہ 2013ء میں 9 لاکھ ووٹ لینے والی کراچی کی سب سے بڑی پارٹی کو ایک لاکھ ووٹ بھی نہ مل سکے اور جب آواز اٹھائی کہ برگر گروپ پارٹی کو تباہ کررہا ہے تو ہمیں کہا اشرف قریشی تخریب کار… تو پھر انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے پچھلے سال تقریر کرتے ہوئے ناظم ایف حاجی کا بھی ذکر ہوا کہ ان کے وقت سے ایک تخریب کار تھا لڑتا رہتا تھا، پارٹی کا صدر بنایا تو خود سے لڑتا رہتا تھا۔
لیکن خان صاحب شاید بھول گئے کہ یہ لڑتا کیوں رہتا تھا؟ اور اشرف قریشی کو انہوں نے کون کون سے عہدوں پر رکھا اور اشرف قریشی کے عہدوں کے دوران پارٹی نے کیا ترقی کی؟ اور عمران خان کو کراچی میں کتنی پذیرائی ملی؟ اور خان صاحب ’’عمران ٹائیگر‘‘ نامی تنظیم کا قیام بھی میرے آئیڈیا پر عمل میں لائے اور اس کا چیف آرگنائزر بھی مجھے ہی بنایا پھر عمران کرکٹ اکیڈمی اور عمران خان ہیلپ لائن اشرف قریشی کے ہی آئیڈیا پر بنائی گئی اور مجھے صدارت بھی دی گئی جس کی کارکردگی سے پاکستان تحریک انصاف نے کراچی بھر میں بڑی شہرت پائی اور اس کامیابی اور پذیرائی کے چشم دید گواہ خود میرے قائد عمران خان تھے، لیکن برگر گروپ کو یہ کامیابی ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے سازشوں اور مخالفتوں کے کانٹے بونے شروع کردیئے انہوں نے معراج محمد خان کے ذریعے اس تنظیم کو ختم کرادیا ایک بڑی تنظیم جس نے کراچی میں تحریک انصاف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور مزید کرنا تھا جو کہ عمران خان کو ان بزرگوں کے چنگل سے نکال کر ڈیفنس کے
بنگلوں سے نکال کر، عوام کے درمیان لے کر آیا، عوامی مسائل حل کرنے کے لیے، ڈسپلن جس کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئی لیکن صرف ان بزرگوں کو محفوظ کرنے کے لیے اس تنظیم کو ختم کردیا گیا اور مجھے پارٹی ڈسپلن کے نام پر چپ رہنے کے لیے کہا گیا تو عمران خان صاحب کے کہنے پر خاموش ہوگیا لیکن جب بھی پارٹی بڑھنے لگی یہ گروپ پارٹی کے عہدوں پر پارٹی فنڈز اور پارٹی کے الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر ہمیشہ قابض رہا تاکہ کسی بھی طرح چاہے الیکشن لڑ کر جیت جائیں اور صدارت حاصل کرلیں لہٰذا ان کی مرضی کے بغیر عمران خان بنائیں، اگر وہ ان کے آگے جھک جائے اور ان کے ساتھ ہر گندے کام میں شریک ہوجائے تو یہ اس کو کچھ عرصہ کے لیے چلاتے ہیں ورنہ اس پر کوئی نہ کوئی الزام لگاکر پارٹی اور عہدے سے فارغ کروادیتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭


متعلقہ خبریں


وکی لیکس کی ایک بار پھر ٹوئٹ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیا ایچ اے نقوی - جمعه 09 جون 2017

    وکی لیکس کی ایک ٹوئٹ ریمائنڈر میں ایک دفعہ پھر یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیاہے،مقامی انگریزی اخبار میں شائع ہونے ایک خبر کے مطا بق وکی لیکس نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے حوالے سے انکشافات کے سلسلے میں ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرائی ہے کہ امریکا او...

وکی لیکس کی ایک بار پھر ٹوئٹ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیا

عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش انوار حسین حقی - هفته 03 جون 2017

پاکستان کو فطرت نے بے پناہ حسن اور رعنائی عطا کی ہے ۔ملک کے شمالی علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ گلیات میں جھینگا گلی اور نتھیا گلی کے علاقے آب و ہوا اور ماحول کی خوبصورتی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں ۔ موسم گرما خصوصاً رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسر...

عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش

بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے انوار حسین حقی - هفته 03 جون 2017

اُس کی 20 سالہ سیاسی جدو جہد نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وہم و گمان کا غلام نہیں یقین اور ایقان کا حامل ہے ۔ نااہلی کے خدشات کے شور شرابے میں بھی نتھیا گلی کے ٹھنڈے ماحول میں مطمن اور شاد نظر آ رہا تھا ۔ ہر ملنے والے کا یہی کہنا تھا کہ بے یقینی اور خدشات کے ماحول میں جب ’’ مائنس ون ...

بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا ایچ اے نقوی - منگل 23 مئی 2017

وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...

نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ باسط علی - پیر 24 اپریل 2017

  [caption id="attachment_44254" align="aligncenter" width="784"] عمران خان نے سندھ کے ویتنام دادو میں کامیاب جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی[/caption] پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دادو میں ایک کامیاب جلسہ کرکے ہی سب کو نہیں...

تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی ابو محمد نعیم - جمعه 21 اپریل 2017

[caption id="attachment_44201" align="aligncenter" width="784"] جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا جے آئی ٹی کے قیام...

پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟ وجود - جمعه 21 اپریل 2017

تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا، مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا،فیصلہ بیک وقت فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھیپاناما کیس کے فیصلے پر ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی کا دع...

’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟

پاناماکیس:پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں کے مقدرکا فیصلہ !! ابو محمد نعیم - جمعرات 20 اپریل 2017

[caption id="attachment_44181" align="aligncenter" width="784"] پاکستان کے سیاسی ماحول پر چھائے بے یقینی کے سائے چھٹنے کا امکان،اہم قومی معاملے پر دوماہ تک فیصلہ محفوظ رکھے جانے پر عوام کی جانب سے شدید تنقید،آج2بجے فیصلہ سنایا جائے گا پاناما پیپرزمیں 4اپریل 2016کو وزیر اعظم پاکس...

پاناماکیس:پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں کے مقدرکا فیصلہ !!

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں الیاس احمد - جمعرات 30 مارچ 2017

ملک بھر میں ایسا ماحول تیار ہونا شروع ہوگیا ہے کہ جیسے لگتا ہے کہ عام انتخابات کی ابھی سے تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تبھی تو تینوں صوبوں سندھ‘ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں سیاسی جلسے جلوس شروع ہوگئے ہیں البتہ بلوچستان میں ابھی انتخابات کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔ نواز شریف نے ٹھٹھہ کے بع...

عام انتخابات 2018ءکی تیاریاں‘سیاسی تنظیمیں اکھاڑے میں اتر گئیں

نظریاتی کارکن (دوسری اور آخری قسط) ابو محمد نعیم - جمعرات 02 مارچ 2017

وہ جب چاہتے ہیں عمران خان کو چھوڑدیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پھر دوبارہ جوائن کرلیتے ہیں کیونکہ بقول برگر گروپ کے عمران خان صاحب کو ان کے لیے ہینڈل کرنا یا چلانا بہت آسان ہے، بس تھوڑا سا چندہ جمع کرکے اور ایک دو اچھی پارٹیاں کرلو تو خان صاحب ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ان کی یہ بات ...

نظریاتی کارکن    (دوسری اور آخری قسط)

عمران خان کے دستِ راست سیف اللہ خان نیازی کی چھٹی۔۔عاطف خان ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مقرر انوار حسین حقی - اتوار 18 دسمبر 2016

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین کے اعلان کے مطابق سابق ایڈیشنل جنرل سیکرٹری سیف اللہ خان نیازی کی جگہ خیبر پختونخوا کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر عاطف خان کو پارٹی کا مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ ایک عام سا اعلامی...

عمران خان کے دستِ راست سیف اللہ خان نیازی کی چھٹی۔۔عاطف خان ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مقرر

نمل شہر علم کی کہانی… عمران خان کی زبانی انوار حسین حقی - هفته 17 دسمبر 2016

’’نمل شہر علم ‘‘ پنجاب کے ایک دور اُفتادہ علاقے میانوالی میں کوہستان نمک کے طویل پہاڑی سلسلہ کے سب سے اُونچے پہاڑ’’ڈھک‘‘ کی ڈھلوان اور ایک خوبصورت جھیل نمل کے کنارے عمران خان نے آج سے پانچ سال پہلے آباد کیا تھا ۔ اس عظیم الشان منصوبے کے پہلے پڑاؤکے طور پر یہاں نمل کالج قائم کی...

نمل شہر علم کی کہانی… عمران خان کی زبانی

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر