وجود

... loading ...

وجود
وجود

سید علی گیلانی کی گواہی

جمعه 20 جنوری 2017 سید علی گیلانی کی گواہی

مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں آزادی پسند تنظیموں کی سر گرمیوں میں تیزی آ رہی ہے ۔مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے کالے قانون آرمڈ فورسزا سپیشل پاور ایکٹ کے نفاذ کے خلاف مہم عروج پر ہے ۔ 1990 ء کے شہدائے گاؤکدل، شہدائے ہندواڑہ اور شہدائے کپواڑہ کی برسیوں کے مواقع پر تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔ حُریت کانفرنس جموں کشمیر سمیت دیگر کشمیری جماعتوں کے قائدین یہ کہتے سُنے گئے کہ مظلوم کشمیریوں کو اللہ کی مدد اور نصرت کے بعد پاکستان سے اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ کشمیریوں کو غاصب بھارت سے آزادی دلوانے اور مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اُجاگر کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے ۔اس موقع پر زمانہ شناش مردِ حریت سید علی گیلانی نے پاکستانی حکومت سے قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی قیادت کشمیر کاز سے آگاہ نہیں ہے ۔
سیدعلی گیلانی کشمیر کے دبستانِ حُریت کا وقار ہیں ۔جنت نظیر کشمیر اُن کا ستارہ ہے اور وہ اس بہشت برُوئے زمین کے بیٹے اور تحریک آزادی کشمیر کی رینگتی خون کی شریان ہیں ۔
ان کے یہ حروفِ صدق سُن کر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پھولوں کا موضوعِ سُخن شعلوں کی پہچان بن گیا ہے ۔ حریت رہنماء کا یہ بیان ہماری قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کے لیے کافی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے جب سے قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سنبھالی ہے کشمیر کاز سے وابستہ طبقات کی مرتعش سانسیں سکوت میں ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی پس منظر کشمیر سے وابستگی کا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں رکھتا ۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کشمیر کمیٹی کی سربراہی خراج کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو’’ ادا‘‘ کی ہوئی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک کشمیر کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے موقف کی تائید اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو اُجاگر کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا ۔ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی حکومت کی حمایت کے عوض اس منصب پر فائز رہے ۔ دونوں مرتبہ مولانا فضل الرحمن کی اس تعیناتی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً آوازیں بُلند ہوتی رہی ہیں لیکن حکمرانوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔ صورتحال شاید کچھ ایسی رہی کہ
وہ پریشاں تھا کہیں زندہ نہ ہو کوئی ضمیر
تخت پر قابض ہوا تحقیق کر لینے کے بعد
بلاشُبہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے موڑ پر ہے ۔1931 ء سے لے کر اب تک کشمیری دیومالائی کہانیوں کے مطابق خطے کے ہندوؤں کے ’’ مہا بھارت ‘‘ کے خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ، ڈاکٹر کے ایم پانیکر اور معروف بھارتی اسکالرز ڈاکٹر ایس آر پٹیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور نظریات کی راہ میں ہمالیہ کی طرح حائل کشمیریوں نے قربانیوں کی لازوال اور بے مثال داستانیں رقم کی ہیں ۔ وادی کے چپے چپے پر شہداء کے قبرستان آباد ہیں ۔ حُریت پسندوں کے لہو کی سُرخی سے وادی روشن ہے ۔
تکمیلِ پاکستان کی اس جدوجہد میں پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو ہاتھ کٹے ہوئے ، ہونٹ سلے ہوئے اور سوچ پتھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ ہم یہ بھول گئے ہیں یا پھر ہمیں اس حقیقت سے آگاہی نہیں ہے کہ تقسیمِ ہند کے اُصولوں کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا ۔۔ اسی اُصول اور ضابطے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا تو دو قومی نظریہ بے جان ہوجاتا ہے ۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ بھارت کشمیر کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن پاکستان کا وجود کشمیر کے بغیر بے معنی ہے ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ، اس کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے ۔زراعت کے لیے پانی بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہماری زمین ان دریاؤں سے سیراب ہوتی ہے جو کشمیر سے ہماری طرف آتے ہیں ۔ ویسے بھی کشمیر دنیا کے حسین ترین خطوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی جغرافیائی حیثیت کے لحاظ سے بھی انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ شمالی جانب واخان کا تنگ قطعہ اسے روس سے جُدا کرتا ہے ۔ اس کے شمال مشرق میں چین ہے جو 800 کلومیٹر قراقرم ہائی وے کے ذریعے پاکستان سے ملا ہوا ہے ۔ اب پاک چین راہداری منصوبہ اس رشتے کی پائیداری کو بقائے دوام عطاء کر دے گا ۔ چینی سرحد کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں کی وہ جنت ہے جس میں کے ٹو اور گشر بروم جیسی بلند و بالا چوٹیاں سر اُٹھائے عظمت کا نشان بنی ہوئی ہیں ۔ کشمیر کے جنوب کی طرف بھارت اور مغرب کی جانب پاکستان ہے ۔ ہمالیہ اور قراقرم سلسلے کے گلیشئرز اور دریا پاکستان کے لیے آبپاشی اور برقی توانائی فراہم کرنے کا اہم ترین وسیلہ اور ذریعہ ہیں ۔ 1935 ء میں برطانوی ہند کی حکومت نے شمال کے بہت سے علاقے ساٹھ سال کے لیے مہاراجہ سے پٹے پر لیے تھے ۔ مقصد روسی خطرے کا دفاع تھا ۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ علاقہ روس، چین، بھارت اور پاکستان کے لیے فوجی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے چاروں ہمسائے اپنی کسی مخالف قوت کو یہاں قدم جماتے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ برداشت کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ تبت دنیا کی چھت ہے تو کشمیر اس کی سیڑھی ہے جس کا سرا قراقرم اور پامیر سے ملا ہوا ہے ۔ کشمیر اور پاکستان اس لیے بھی لازم وملزوم ہیں کہ اس کی 700 میل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بقاء کا بہت زیادہ انحصار کشمیر سے وابستہ ہونے میں ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سے برطرفی کے لیے سید علی گیلانی کا مطالبہ اس کمیٹی کی کارکردگی پر حُریت لیڈروں کے عدم اعتماد سے بڑھ کر مایوسی کا اظہار ہے ۔ مسئلہ کشمیر سے وابستگی رکھنے والی قوتیں موجودہ قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی سے کبھی بھی مطمئن نظر نہیں آئیں ۔ کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن ہمیشہ ایک فعال سیاستدان کے طور پر سیاست میں سرگرم رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ قائد حزب اختلاف رہے ۔ کے پی کے اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ مرکز کے اقتدار میں بھی شریک یا معاون رہے ،اب بھی وہ سیاست میں بہت زیادہ مؤثر ہیں ۔پاک چین راہداری منصوبے کے روٹ کو اپنی مرضی سے موڑنے کا معرکہ سر انجام دے چُکے ہیں ۔ وہ کے پی کے میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں لیکن جس منصب کی وہ قومی خزانے سے مراعات سمیٹ رہے ہیں اور پرٹوکول لے رہے ہیں ،اس کی جانب توجہ دینے کی فرصت ملتی انہیں کم ہی ملتی ہے ۔ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے کے بیانات کو ہی اُٹھا کر دیکھ لیجیے، مولانا کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں دیے گئے بیانات اُن کی جانب سے عمران خان کے خلاف دیے گئے بیانات کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں ۔
سید علی گیلانی جیسی اولعزم شخصیت کی جانب سے پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی تبدیلی کے مطالبے پر ہماری حکومت کان دھرتی ہے یا نہیں ، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ مطالبہ سامنے آنے پر سید نصیر شاہ کے یہ اشعار مجھے شدت کے ساتھ یاد آ رہے ہیں کہ
سسک کے مر گئی خوشبو گلاب قتل ہوئے
تمہارے عہد میں لوگوں کے خواب قتل ہوئے
دہکتے رہ گئے ہونٹوں پہ پیاس کے دوزخ
کئی حُسین سرِسیلِ آب قتل ہوئے
فضا کی حشر زا دہشت دلوں پہ مہر ہوئی
دماغ و دل میں سوال و جواب قتل ہوئے
کہاں سے آئے کرن کوئی دستگیری کو
کہ حرف و لفظ کے سب ماہتاب قتل ہوئے
قلم کے قتل کا کیسے قصاص مانگیں گے
جلیسِ علم انیسِ کتاب قتل ہوئے
کباب سیخ سمندر کی موج ہوئی
ہوا ہلاک ہوئی حباب قتل ہوئے
جہانِ علم میں بھی دانشوروں کا قتل ہوا
خرد نواز جو تھے خانہ خراب قتل ہوئے
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر